کالمز

گلگت بلتستان : نامکمل منصوبوں کا قبرستان 

 گزشتہ ایک کالم پراپنے تاثرات میں بعض دوستوں نے گلگت بلتستان میں عوامی اہمیت کے حامل نامکمل منصوبوں کے بارے میں کچھ لکھنے پر اصرار کیا تھا‘ مگرکچھ مصروفیات کے باعث میں کافی عرصے سے ان کی اس خواہش کو عملی جامع نہیں پہنا سکا ۔ تاہم آج پھر ایک دوست نے فون پر اسی موضوع کی طرف دھیان دلادی تو قلم اٹھاناہی پڑگیا۔سچی بات یہ ہے کہ ایسے بے مقصد قسم کے ایشوز کچھ لکھنے کو دل ہی نہیں مان رہا کیونکہ جو ایشوز علاقے کے اعلیٰ حکومتی وانتظامی قیادت حل نہیں کرپاسکتی وہ مجھ جیسے ایک عام شہری کے کچھ لکھنے سے کیونکر حل ہوسکتے ہیں؟پھر دل میں یہ خیال بھی آیا کہ جناب ہمارے چیف منسٹر صاحب نے تو ایسے ایشوز کو حکام بالا تک پہنچانے کے لئے ایک عوامی شکایات سیل قائم کردی تھی‘ہوسکتا ہے کہ اس شکایتی کالم پر بھی ان کی ٹیم کی نظر پڑ جائے اور وہ اسے دفتری فائل میں سمیٹ کروزیراعلیٰ صاحب کے ٹیبل تک پہنچادیں‘لیکن ایسا کیا جاتا تو عوام کے تمام مسائل کب کے حل ہوچکے ہوتے اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی نوزائیدہ صوبائی حکومت کی ہرجگہ واہ ،واہ ہوتی مگر یہاں تو الٹی گنگا بہتی نظر آرہی ہے۔اس جملے پربعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھی اٹھتا ہوگا کہ مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی ترقیاتی منصوبہ رکھا ہی نہیں گیا ہے تو وہ نامکمل کیسے ہوا؟ تو جواباً عرض ہوگا کہ جناب سابقہ منصوبوں پر عملدرآمد کرانا بھی تو اسی حکومت کا کام ہے۔اگر نہیں تو پھر ان نامکمل منصوبوں پر عملدرآمد کے لئے پرویز مشرف اور زرداری کو کہا سے پکڑ کر لائے۔ وہ بچارے تو اپنی اپنی مصیبتوں سے نکلنے کی غرض سے ملک بھی چھوڑ کرچلے گئے ۔بہرحال اللہ ان دونوں کی بھلا کرے! انہوں نے تو عوامی مسائل کے حل کی غرض سے اپنے صوبائی کارندوں کو جی بھر کر پیسہ دیا مگر صوبائی حکمرانوں نے اس پیسے کا غیردانشمندانہ استعمال کیا تو اس میں مشرف یا زرداری کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔اگر پرویز مشرف کے دورمیں اس علاقے کو ملنے والے پیسوں کو ہی دانشمندی اور سوچ بچار سے استعمال کیا جاتا تو ابھی تک گلگت بلتستان کے قریہ قریہ میں تعمیر ہونے والی عالی شان عمارتیں بھوت بنگالوں میں تبدیل نہ ہوتیں۔مگر ایسا نہ ہوسکا بلکہ اس کے برعکس اس دور کے حکمرانوں نے ڈالروں کی برسات میں نہلانے کے لئے ضرورت سے بڑکرسکیمیں رکھیں اور پی ڈبلیو ڈی کے آفسران اور ٹھیکہ داروں کی ملی بگھت سے ان سکیموں میں اپنا حصہ مقررکیا۔بلکہ اس وقت کے عوام نمائندوں نے توڈالروں کی اس قدر برسات دیکھ کراپنے بھائیوں، ماموں ،بھانجوں، بھتیجوں،کزنوں اور دوستوں کو بھی ٹھیکہ دار بنادیا اور ترقیاتی سکیموں کے نام پر حکومتی وسائل پر خوب ہاتھ صاف کرلیئے جس کی داستانیں بعدازاں زبان زدعام ہوگئیں۔یوں اس دورمیں عوام ووٹوں کے زریعے منتخب ہونے والے نمائندے سیاستدان کم ٹھیکہ دار کہلانے لگے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری وساری ہے۔ جس کی وجہ سے سیاستدان عوامی وسائل سے راتوں رات امیر بنتے جارہے ہیں جبکہ عوام طرح طرح کے مسائل کے گراب میں پھنستے جارہے ہیں اور علاقہ نامکمل منصوبوں کا قبرستان بنتا جارہاہے۔آپ کسی دوردراز گاؤں کی صورتحال کو پرے رکھ کر صوبائی دارالخلافہ ہی کی طرف اگر نظردوڑائیں تو حکومت،انتظامیہ اور عوامی نمائندوں کی کارکردگی کابخوبی اندازہ ہوگا۔ویسے کہا تو یہ جاتا ہے کہ دارالخلافہ کسی بھی ملک یا صوبے کا آئینہ دار ہوتا ہے جس سے آپ کو اس علاقے کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لینے میں آسانی ہوتی ہے مگر ہمارے صوبائی دارالخلافہ کی حالت یہ ہے کہ یہاں پرعوام کو چوبیس گھنٹوں میں صرف چار گھنٹے بجلی دستیاب ہے،متعددمحلوں میں ہفتوں بلکہ مہینوں تک پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہوتا،مین شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہیں،لنک روڑز کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ہسپتال ماہرڈاکٹروں اور ادویات سے

خالی پڑے ہوئے ہیں،سکولوں اور کالجوں میں دروتدریس کا نظام درہم برہم ہے،چوریاں اور ڈیکتی عام ہوچکی ہیں ،مہنگائی اور بے روزگاری اپنی آخری حدوں کو چھورہی ہیں اور غریبوں کا جینا محال بن چکا ہے۔ پھر آپ خود اندازہ لگائیں کہ ایک دوردراز گاؤں کے مکینوں پر کیا بیت چکی ہوگی؟ یہ سب کچھ ان نامکمل منصوبوں کی مرہون منت ہے جن پر گزشتہ کئی سالوں بلکہ عشروں سے تعمیراتی کام التواء کا شکار ہے۔ صوبائی دارالخلافہ ہی میں آپ کو سول سکریٹریٹ،ایم ایل ایز ہاسٹل،ذوالفقارآباد تا کے آئی یو آرسی سی پل کی کے علاوہ کئی سڑکوں،پلوں،بجلی گھروں،واٹرسپلائی سکیموں،ہسپتالوں،کالجوں،سکولوں سمیت متعددایسے منصوبے نظر آئیں گے جن کے لئے حکومتی خزانے سے پیشگی ادائیگیوں کے باوجود کام تاحال اھورا رہ گیا ہے۔یہی صورتحال دیگر اضلاع اور دیہاتوں کی بھی ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ان منصوبوں کو اھورا چھوڑنے کے وجوہات کیا ہیں اور ان کا ذمہ دار کون ہے۔دیہاتوں میں توعوام کی ملکیتی زمینوں پرسرکاری عمارتیں تعمیر کروانے کے باوجود غریب مالکان کوزمین کے عوض ملازمت دی گئی ہے نہ زمین کا معاوضہ ۔یوں وہ بچارے بھی حکومتی بے حسی کا رونا روتے رہ گئے ہیں۔صدآفرین ان چینی کمپنیوں کوجوانتہائی قلیل مدت میں وادی ہنزہ کی سنگلاخ پہاڑیوں کو چیرکرٹنل تعمیر کرکے کئی کلومیٹر شاہراہ قراقرم کوواہ گزار کردیا۔تو بہتر یہ نہیں تھا کہ علاقے کاسارا ترقیاتی بجٹ مقررہ سکیموں سمیت انہی کے سپرد کیا جاتا تاکہ اس سے عوام کو درپیش مسائل بروقت اور پائیدار انداز میں حل ہوپاتے۔پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی حکومت کے دور میں حکمرانوں کی بے بسی کی انتہا دیکھ کر اس وقت کے سپریم اپیلیٹ کورٹ کے چیف جسٹس نواز عباسی عوامی اہمیت کے حامل منصوبوں پر زیرالتواء کام کا ازخود نوٹس لیتے رہے اورڈانکے کی چوٹ پربعض منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچادیا۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے حکمران ٹس سے مس نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے عدالتی ایکشن پر مکمل ہونے والے ان منصوبوں پر اپنے نام کی تختیاں چڑھا کرعوام میں زندہ رہنے پر اکتفا کیا۔ کیونکہ ان کے اپنے پاس نہ تو وہ ہمت تھی عوامی نوعیت کے منصوبوں کو اھورا چھوڑنے والے ٹھیکہ داروں اور محکمہ تعمیرات کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کرسکے نہ ہی پیسے تھے کہ نئے منصوبے شروع کئے جاتے بلکہ ان کے پاس جو وسائل موجود تھے انہیں بھی مال غنیمت جان کرلوٹا جس کا انجام ہم سب کے سامنے موجود ہے۔اب صوبے میں پاکستان مسلم لیگ نواز اقتدار پر قابض ہے اور حکومتی سربراہ حافظ حفیظ الرحمن نے شروع دن سے عوامی مسائل کے حل کا نعرہ لگایا ہے تو کیا ان کی حکومت عرصہ دراز سے زیرالتواء منصوبوں کا نوٹس لیکر عوامی مسائل میں کمی لانے میں کامیاب ہوگی؟کیونکہ جب تک علاقے میں موجود سابقہ گند کو مکمل طورپرصاف نہیں کیا جاتا تب تک نئے منصوبوں کا اجراء نا ممکن ثابت ہوگا۔لہذا مسلم لیگ(ن) کی صوبائی حکومت اپنے منشور پر عمل پیرائی کا عزم رکھتی ہے تواولین فرصت میں ایسے سابقہ منصوبوں کی نشاندہی کرے جوتاحال زیرالتواء ہیں۔جن میں سے کچھ پر تعمیراتی کام ہی مکمل نہیں ہوا ہے،کچھ کے پیسے ہڑپ کرکے ٹھیکہ دار فرار ہوچکے ہیں،کچھ کاکام مکمل ہوکر پی سی فور کا انتظار ہے اور کچھ منصوبوں میں مبینہ طورپر بے ضابطگیاں کی گئی ہیں ‘ورنہ مسلم لیگ(ن) کا’’خوددار،خودمختار اور خوشحال گلگت بلتستان‘‘ والا خواب کبھی بھی سچائی سے تعبیر نہیں ہوسکتا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button