کالمز

معاشرتی بگاڑ  اور ہماری بے حسی

تحریر: سید قمر عباس حسینی

گلگت بلتستان کی مذہبی سماج کو خراب کیا جارہا ہے۔ منشیات کو جان بوجھ کر عام کر رہے ہیں ۔بڑھتی ہوئی منشیات کے استعمال کی روک تھام کے لیے کوئی پالیسی نہیں  بنائی جارہی ہے ۔منشیات کے استعما ل کی شرح میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔یہ برائی اب خواتین میں میں عام ہو رہی ہے ۔ اب بھی قوم بیدار نہ ہوئی تو  آئندہ چند سالوں میں گلگت بلتستان کا معاشرہ مغربی معاشروں سے بھی آگے نکل جائے گا۔ہماری  قوم کی  یہ سنت رہی ہے کہ معاملہ سر سے گزر جائے تو اسے پتہ چلتی ہے کہ اسکے ساتھ کیا بیتی۔ حالیہ خبر میڈیا پر گشت کر رہی ہے کہ بلتستان میں منشیات استعمال کرنے والوں میں خواتین بھی شامل ہیں ۔یہ  خبر خدا کرے سچ نہ ہو کیونکہ دنیا یہاں کے لوگوں کو دیندار اور معاشرے کو دینی معاشرہ سمجھتے ہیں اگر اس معاشرے میں بھی جہاں آداب اسلامی اور تہذیب و تمدنی اسلامی رائج ہیں اس نوعیت کی برائی عام ہو جائیں تو یہ ہماری بد نصیبی ہوگی ۔ایک مذہبی  معاشرے میں رہتے ہوئے بھی ہم یورپین معاشرے کے تہذیب اور کلچر کی تقلید کریں تو ہمیں اپنے اعتقادات پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔  ہمارا معاشرہ اخلاقی بدحالی کی جن گہری کھائیوں میں گرنے کے ساتھ ساتھ  ہم جس بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں  اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ یا  ہم  مکمل طور پر سماجی اور معاشرتی برائیوں سےغافل ہیں یا ہم  دنیوی مفادات کی خاطر تہذیبی یلغار کو خوش آمدید کہہ کر  نئی نسل کی تباہی کا سامان فراہم کر رہے ہیں۔ ہماری غفلت  اور بے حسی کے نتیجے میں ہمارا مہذب معاشرہ انتہا ئی تیزی کے ساتھ بے راہ روی کا شکار ہو رہا ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بیس تیس سال پہلے  ہماری اخلاقی قدریں اپنے عروج بام پر تھیں۔ محدود وسائل کے باوجود لوگ اپنی زندگیوں سے مطمئن تھے۔ لیکن جیسے ہی لوگوں کے پاس  دولت آئی  اور اس کے ساتھ ہی انٹرنیٹ ،کیبلز ,سوشل میڈیا کے ذرائع اور مغربی تہذیب آئے یہ کینسر کی طرح پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہمارے رویوں کو بدل کر رکھ دیا اور ہم اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو گئے۔ یاد رکھیے کسی بھی معاشرے میں بگاڑ روکنے کیلئے اس معاشرہ کی مذہبی اور تہذیبی روایات ہی ڈھال کا کام کرتی ہیں یا افراد کی فکری نظر ہی اسکے اندر سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کرتی ہے اور اس کو غلط کام سے روکتی ہے۔ یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب آپ کے ارد گرد کا ماحول مذہبی اور تہذیبی روایات کا پابند ہو لیکن جب دائیں بائیں ہر طرف ذاتی خواہشات ان روایات پر غالب آ جائیں تو پھر یہ بگاڑ تیزی سے اپنا راستہ بناتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں بگاڑ یا سدھار ایک دن میں پیدا نہیں ہوتابلکہ مدتوں کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہوتا ہے گلگت بلتستان کے معاشرے کو بگاڑنے کی خاطر عرصہ دراز سے کام ہوتا رہا لیکن ہم نے ان پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اب جب منشیات نوجوان لڑکوں سے گزر کر صنف نسوان تک پہنچ گئی تو ہم  سر پکڑ کر رہ گئے ۔ہر باغیرت فرد کف افسوس ملتے رہے لیکن سوائے مذمتی بیانات  کے کوئی عملی اقدام پھر بھی نہیں اٹھا رہے ہیں ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کے ذمہ دار سماجی شخصیات  اور علما کرام میدان عمل میں اتریں اور قوم کی بیٹوں اور بیٹیوں کو منشیات کی لعنت سے بچانے کی خاطر تمام تر توانائیاں صرف کریں ۔ہاں  کسی بھی معاشرے سے بُرائی ختم نہیں کی جاسکتی مگر اسے کم ضرور کیا جاسکتا ہے منشیات کے تمام سپلائرز پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے ۔جن جن راستوں سے یہ منشیات ہمارے معاشروں میں ترسیل ہو رہی ہیں ان راستوں اور ذرائع کو مسدود کی جاسکتی ہے ۔

 کسی قوم میں تعلیم و ہنراور ظاہری عبادات کا اہتمام بدرجۂ اتم موجود ہو، لیکن ان کی شخصیت و کردار پست ہو تو وہ تعلیم و ہنر اور عبادت ہماری فلاح کا ضامن نہیں ہوسکتی۔ ہمارے ہاں نصابی تعلیم کو تو اہمیت دی جاتی ہے اور اس مقصد کے لیے بڑے بڑے اسکولز ، مدارس اور یونیورسٹیز قائم کردی جاتی ہیں لیکن ان میں ہمارے نوجوانوں کے لیے تعمیر شخصیت و کردار کا خاص اہتمام نہیں ہوتا، اور جب یہ نوجوان طلباء معاشرے کا حصہ بنتے ہیں تو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ان کا رویہ سراسر خلاف تہذیب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  آج ہمارا معاشرہ جہالت، رشوت، ظلم و تعدی، سود خوری، مکاری،دغا بازی، حق تلفی، کذب و افترا، چوری، شراب خوری ، زِنا، لوٹ کھسوٹ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص و بداخلاقیوں کا شکار ہے۔

سوشل میڈیا نے نئی نسل کو بے راہ کر رکھا ہے ۔نگاہوں سے حیاء رخصت ہو چکی ہے۔نسل نو تباہی و بربادی کی بھینٹ چڑ ھ رہی ہے۔ دل احترام سے تہی ہو گئے ہیں۔ کسی نے نا انصافی اور ظلم کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ دھوکہ اور فریب سیاست بن چُکے ۔عصر حاضر تمام تر ترقی کے باوجود اپنی بد اخلاقیوں اور تبا ہ کاریوںکی وجہ سے حیوانوں اور درندوں سے بھی آگے بڑھ گیا ہے۔گلگت بلتستان  جیسے  محدود علاقوں میں  بھی مال و زر کی ہوس اور اقتدار کی خواہش نے تمام اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ دن بدن معاشرتی برائیاں بڑھتی ہی جا رہی ہیں . جن کی وجہ سے ہماری اخلاقی قدریں کھوکھلی ہو چکی ہیں اور جو غیر محسوس طریقے سے ہمیں تباہی اور بربادی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔

 ان تمام خرابیوں کا انسداد اور معاشرہ کو صحیح معیار پر لانا اصلاحِ افراد کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ معاشرہ کی اصل اجتماع ہے اور اجتماع کی اصل افراد، لہٰذا افراد کی درستی کے بغیر معاشرہ درست نہیں ہوسکتا۔ صوبائی حکومت ان برائیوں کو کنٹرول کرنے میں بالکل ناکام ہے ۔معاشرے میں جب قانون کے رکھوالے ہی قانون کی دھجیاں اُڑا رہے ہو تو معاشرے میں جرائم کا پھیلنا کوئی غیرمعمولی کام نہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت سکردو شہر میں روزانہ تین سو لیٹر سے ذیادہ شراب اور دو لاکھ مالیت کے دوسرے منشیات روزانہ کی بنیاد پر استعمال ہوتے ہیں۔منشیات کے کاروبار کرنے والے اور ان کی پشت پناہی کرنے والے لوگوں کو قانون نافذ کرنے والے ادارے اچھی طرح جانتے ہیں لیکن از راہ مہربانی ان انہیں کچھ نہیں کہتے ۔ اس سلسلہ میں علماء اور سماجی شخصیات  کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی خرابیوں  کی روک تھام کے لیے بھر پور اپنا کردار ادا کریں ۔اگرمناسب اقدامات نہ کئے گئے تو  نوجوان نسل اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے  زندگیوں کے چراغ بجھا بیٹھیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button