گلگت بلتستان

شاہراہ قراقرم کی مکمل بحالی میں ایک ہفتہ لگ سکتا ہے، علاقے میں گندم کی 27 ہزار بوریاں موجود ہیں، حکومتی پریس کانفرنس

گلگت(ارسلان علی /خبرنگارخصوصی) پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون اورنگزیب ایڈووکیٹ،وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی فاروق میرنے کہا ہے کہ شاہراہ قراقرم کو راولپنڈی سے کیال تک اور گلگت سے چھاچھل داسو تک کلئیر کر دیا گیا ہے مگر شاہراہ کا37کلومیٹرحصہ تاحال بند ہے جس کو اگلے چھ سے سات دنوں میں کھول دیا جائے گا جس کے بعد گلگت بلتستان میں گندم کی کمی دورہو جائے گی جبکہ مستقبل کے لیے پیپکو پہلے کی طرح تین ماہ کا کوٹہ جاری کرے گا تاکہ گندم گلگت بلتستان کے گوداموں میں سٹور کیا جا سکے۔

اتوار کی شام مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت سی130کے ذریعے گندم کی سپلائی دی جا رہی اور صوبائی حکومت فی بوری ستائیس ہزار کرایہ دے رہا ہے مگر یہ ناکافی ہے اور گندم کی کمی کو مکمل طور پر دور کرنے کے لیے کے کے ایچ کے ذریعے ترسیل کو بحال کرنا ضروری ہے جس کے لیے صوبائی حکومت اقدامات کر رہی ہے انہوں نے کہا کہ دس ہزار بوری گندم بشام میں پھنس گئی ہیں جبکہ پچاس ہزار بوری گندم اسلام آباد میں تیار ہیں ہماری کوشش ہے کہ کے کے ایچ پر موجود بلاک کو کراس کرنے کے لیے متبادل طریقہ تلاش کریں تاکہ خوراک کا معاملہ حل ہو سکے۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں قحط کا کوئی امکان نہیں صوبے کے مختلف ڈپوز میں27ہزار بوری گندم موجود ہے اور فلور ملوں کو پسائی کے لیے سات سے آٹھ گھنٹے بجلی فراہم کی جا رہی ہے مگر گلگت شہر میں تقسیم کے طریقہ کار میں کچھ مسائل پیدا ہو رہے ہیں صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آج سے عوام کو دس کلوگرام آٹا کے تھیلے فراہم کئے جائیں گے اور مقامی عمائدین پر کمیٹی بنائی جائے گی تاکہ مستحق کو آٹا مل سکے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت گلگت بلتستان بھر میں بجلی بحران پر قابو پانے کے لیے دن رات کام میں مصروف ہے اورحالیہ بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ بجلی گھروں کی مرمت کا کام جاری ہے۔انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے گلگت بلتستان میں42بجلی گھروں کو نقصان پہنچا جن میں سے 29بجلی گھروں کو بحال کیا جا چکا ہے۔انہوں نے گلگت شہر میں بجلی بحران پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت گلگت شہر کو پونے چار میگاواٹ بجلی مل رہی ہے نلتر18میگاٹ پاور سٹیشن کی چینل تین مختلف جگہوں سے بری طرح متاثر ہوئی ہے جبکہ پاور ہاؤس تک پہنچنے کے لیے راستہ بھی بند ہے صوبائی حکومت راستے کو بحال کرنے میں لگی ہوئی ہے اور اگلے دو روز تک ہم راستہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے جس کے بعد چینل پر کام کا آغاز کیا جائے گا اور مکمل بحالی کے لیے اگلے 12سے 14دن لگیں گے اور18میگاواٹ 23اپریل تک بحال کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ کارگاہ پاور پراجیکٹ کی بحالی کا آدھا کام ہو چکا ہے اور آج تک بحالی کا کام مکمل ہو جائے گا جس کے بعد شہر میں لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں آدھا گھنٹا سے ایک گھنٹے تک کم ہو جائے گا جبکہ گورو جگلوٹ کی ٹرانسمیشن لائن مکمل طور پر خراب ہے اور اس کی بحالی کے لیے تین سے چار روز لگیں گے۔انہوں نے کہا کہ مستقبل میں ایمرجنسی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومت نے ایک ایک میگاواٹ کے ساتھ مذید تھرمل جنریٹر خریدنے کا فیصلہ کیا ہے جو رواں سال جون سے قبل سسٹم میں شامل کئے جائیں گے جن میں سے چار تھرمل جنریٹر گلگت،ایک چلاس،ایک ہنزہ اور ایک تھرمل جنریٹر سکردو میں نصب کیا جائے گا اور ایمرجنسی کی صورتحال میں استعمال میں لایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں زیادہ ہوئیڈرو پاور منصوبے ایسے علاقوں میں بنائے گئے ہیں جو بارش میں زیادہ متاثر ہوتے ہیں وزیر اعلیٰ نے ہدایت جاری کی ہے کہ نلتر پاور سٹیشن کے لیے ایک ایکسویٹر مشین فوری خریدی جائے اور اس مشین کو نلتر کے مقام پر ہی رکھا جائے تاکہ ایمرجنسی میں فوری کام کیا جا سکے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر نلتر اور کارگاہ کے بجلی گھروں کو مستقبل میں محفوظ بنانے کے لیے منصوبے بنائے جائیں گے اور فیزیبلٹی سروے کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں اگلے چھ سے سات دن کے لیے پٹرولیم مصنوعات موجود ہے اس وقت پی ایس او کے پاس ایک لاکھ لٹر پٹرول اور چھ لاکھ لٹرڈیزل موجود ہے جبکہ چھ سے سات دن کے لیے ایل پی جی بھی موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب کے بعد صرف پی ایس او کے پاس سٹاک موجود ہے جبکہ دیگر تیل سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے پاس تیل موجود نہیں وزیر اعلیٰ نے اس کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ سیکرٹری کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ اوگرا کو خط لکھیں اور تمام کمپنیوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ بیس دنوں تک کوٹہ رکھیں۔انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین خود کو تنہا نہ سمجھیں صوبائی حکومت ان کی مکمل بحالی تک چین سے نہیں بیٹھے گی اور آج سے سروے کا آغاز کیا جائے گا ۔

انہوں نے امداد کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ گھر کے سربراہ کے جان بحق ہونے پر پانچ لاکھ روپے اور گھرکے کسی اورفردموت پر چار لاکھ روپے دیے جائیں گے اور زخمیوں کو ڈیڑھ لاکھ روپے دیے جائیں گے۔اسی طرح مکمل تباہ ہونے والے پکے مکانات کے لیے ڈیڑھ لاکھ اورمکمل تباہ ہونے والے کچے مکانات کے لیے ساٹھ ہزار روپے دیے جائیں گے جبکہ جزوی نقصان پر تیس ہزار روپے دیے جائیں گے۔مکمل تباہ شدہ مویشی خانے کے لیے پچاس ہزار،جزوی نقصان پر بیس ہزار،جانوروں کی ہلاکت پر بیس ہزار،پھلداردرخت کے لیے آٹھ ہزاراور کاشت شدہ زمین کی فی کنال دس ہزار روپے دیے جائیں گے۔

ڈائریکٹر جنرل گلگت بلتستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی عبدالوحید شاہ نے حالیہ بارشوں اور سیلاب سے نقصانات اور بحالی کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے گلگت بلتستان میں17افراد کی اموات ہوئی جبکہ 15افراد زخمی ہوئے اور 203گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے جبکہ 248گھروں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button