کالمز

بارشوں کی تباہ کاریاں اور حکومت کی زمہ داریاں

ہمارے یہاں حکومتوں کی حیثیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب علاقہ قدرتی آفات سے دوچار ہوجاتا ہے۔صرف چار دنوں کی بارشوں سے یہ حالت ہوئی ہے کہ گلگت بلتستان کی نصف سے زائد آبادی فاقوں سے دوچار ہوگئی ہے۔ قدرت کی بڑی مہر بانی ہے اگر یہ بارشیں چار روز مذید جاری رہتیں تو گلگت بلتستان بیس سال پیچھے چلا جاتا۔یکم سے چار اپریل تک جاری رہنے والی بارشیں تباہی مچانے کے بعد رک گئی تھیں ۔ یعنی بارشوں کو رُکے ہوئے دس روز سے زائد ہوگئے ہیں مگر امدادی سر گر میاں صرف بیانات کی حد تک جاری ہیں ۔ حقیقت میں لوگوں کو کوئی ریلیف نہیں ملی ہے۔ بین الاقوامی اہمیت کی حامل شاہراہ قراقرم سمیت بین الاضلاعی اہم رابطہ سڑکیں تاحال بند ہیں۔ گلگت شہر سمیت کئی دیہاتوں میں بجلی بند ہے۔ کئی بجلی گھر، واٹر چینلز اورمتعد د پل بھی سیلاب کی نذر ہوگئے ہیں۔ پینے کا پانی ، ادوئیات اوراشیائے خورو نوش کی شدید قلت ہے۔ ہزاروں مسافر راولپنڈی اور گلگت بلتستان کے مختلف مقامات پر پھنسے ہوئے ہیں۔ہزاروں گھروں میں فاقے شروع ہوئے ہیں۔ تیل کی قلت کے باعث ٹرانسپورٹ رک گیا ہے ۔ ملازمین ، طلبہ اور مریضوں کو ٹرانسپورٹ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے دفاتر، تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ جبکہ ان بارشوں کے دوران بے گھر ہونے والے افراد کھلے آسمان تلے امداد کے منتظر ہیں۔ جن کی فصلیں، درخت اور دیگر نقصانات ہوئے ہیں ان کا تاحال کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے اشیاء ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ اس کی روک تھام کے لئے کوئی اقدامات ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ آٹا کی شکل دیکھنے کے لئے لوگ ترس گئے ہیں جو کہ انسانوں کی انتہائی بنیادی ضرورت ہے۔ اگر اگلے ایک ہفتے میں صورت حال پر قابو نہیں پایا گیا تو اموات کا خدیشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ حکومت یا انتظامیہ بارشوں، زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات کو روک نہیں سکتی ۔ مگر حکومتوں کا اصل امتحان ان آفات کے بعد امدادی سرگومیوں کی صورت میں شروع ہوتا ہے۔ جن میں اکثر ہماری حکومتیں ناکام ہوجاتی ہیں اور اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ صرف (ن) لیگ کی حکومت کی بات نہیں ہے ماضی میں بھی یہی صورت حال رہی ہے ۔ 2010 ؁ء کے تباہ کن سیلاب اور گزشتہ سال کے زلزلے کے اثرات سے گلگت بلتستان نکلا نہیں تھا ایسے میں حالیہ بارشوں نے تباہی مچادی ہے۔ ہمارے ہاں ان آفات سے نمٹنے کے لئے گلگت بلتستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ( جی بی ڈی اے) کا ادارہ قائم ہے ۔ ایسے آفات کے دوران یہ ادارہ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوجاتا ہے۔ یکم سے چار اپریل تک راقم کو مختلف مقامات سے بذریعہ ٹیلی فون کئی متاثرین نے شکایت کی کہ جی بی ڈی اے اور سی ایم سکریٹریٹ میں قائم کردہ کنٹرول روم میں فون اٹینڈ نہیں کیا جارہا ہے۔ راقم اس صورت حال سے سخت پریشان تھا ہی ایسے میں ریڈیو ٹوکیو جاپان نے راقم سے رابطہ کر کے یہی شکایت کی کیونکہ اس دوران ۲۰ کے قریب جاپانی سیاح ہنزہ میں پھنسے تھے اور حکومت جاپان ان کے حوالے سے سخت فکر مند تھی۔ریڈ یو ٹوکیو کی اس شکا یت پر راقم کو اندازہ ہوا کہ متاثرین کی مدد کے نام پر قائم کردہ کنٹرول روم کسی کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ حکومت متاثرین کی شکایات سننا اہم نہیں سمجھتی ہے۔ حالانکہ ان حالات میں کنٹرول روم کو فعال رکھنا اور وہاں درج کرائی جانے والی شکایات کا ازالہ کرنا ہی دراصل بنیادی کام ہوتا ہے۔

امدادی کارروائیوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اہمیت کے اعتبار سے ان کاموں کی درجہ بندی کی جائے اور اس کے بعد سب سے بنیا دی کام رابطہ سڑکوں کی بحالی ہوتاہے ۔جس کے بعد لوگ خود بھی اپنی مشکلا ت پر قابو پانے کی کوشش کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ ابتدائی پانچ دنوں میں صرف کے کے ایچ اور دیگر رابطہ سڑکوں کی بحالی پر توجہ دی جاتی تو اس وقت یہ صورتحال دیکھنے کی نوبت نہیں آتی جس کا اب پورا گلگت بلتستان سامنا کر رہا ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کے زمدار لوگ چند متاثرین میں کچھ چیزیں تقسیم کرکے خود کو امدادی سر گرمیوں سے بری الزمہ قرار دیتے ہیں۔ چند آٹے کے تھیلے اور دیگر اشیاء ضروریہ تقسیم کرکے تصویریں بنوانے کا کام کوئی شخص انفرادی طور پر بھی کر سکتا ہے ۔ مگر کوئی شخص یا غیر سر کاری ادارہ روڑ، بجلی ، پانی اور موصلاتی نظام بحال نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ یہ کا م صرف حکومت کر سکتی ہے ۔

خدار ا گلگت بلتستان کو فوری طور پر آفت زدہ قرار دیکر وفاق اور تمام صوبوں سے اپیل کی جائے کہ وہ امدادی کاموں اور خاص طور پر کے کے ایچ کی بحالی میں مدد کریں۔

حکمران جما عت کے سر پر کونسل انتخابات کا جو بھوت سوار ہے اس کو اتار پھینک دینے اور ساری تو جہ انفراسٹر یکچر کی بحالی پر مر کوز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت صورتحال بہت خراب ہوچکی ہے ۔ اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو آئندہ چند روز کے بعد اس کو سنھبالنا مشکل ہوگا کیونکہ ایسی آفات کے اثرات پر بروقت قابو نہیں پایا گیا تو ان کے سنگین نتائج ، جرائم ، بیماریوں اور لوگوں کے اندر حکومت کے خلاف نفرت کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔ حکومت کو اس وقت سیاست سے زیادہ امدادی سر گرمیوں پر تو جہ دینے کی ضرورت ہے۔ کئی ایسا نہ ہو کہ اگلی بارشیں سڑکوں ، پلوں ، بجلی گھروں اور واٹر چینلوں سمیت سارے سیاسی کھیل کو ہی بہا نہ لے جائے۔ ایسے حالات پر احمد فراز کا یہ شعر صادق آتا ہے۔

ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز
کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button