کالمز

مسلمانوں کی تربیت میں جمعۃ المبارک کا کردار

تحریر: ایس ایم شاہ

بچپن کا زمانہ بھی کیا خوبصورت زمانہ تھا۔ خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ نہ کمانے  کی فکر نہ پڑھنے لکھنے کا بوجھ، نہ گھریلو مسائل نہ معاشرتی الجھنیں۔ نہ لمبی لمبی آرزوئیں ، نہ  لین دین کی مشکلات، نہ گھر والوں کی فکر نہ ملت کا سوچ، نہ بھوک پیاس کا احساس نہ تھکاوٹوں کی شکایتیں، غرض خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ دوستوں  کے ساتھ کھیل  کود میں سارا وقت گزر جاتا تھا۔ نہ مجھے ٹیلی ویژن دیکھنے کا شوق تھا نہ فیس بک اور وٹس اپ کی لت،نہ موبائیل کے نہ ملنے پر والدین سے  شکایتوں کی انبار لگاتا تھا،  نہ انٹرنیٹ کی سہولت  فراہم نہ  کرنے پر والدین پر نالاں تھا۔ کھیل کود سے تھک ہار کر شام کو جب گھر لوٹتا تھا تب ماں کی مامتا دن بھر کی تھکاوٹوں پر غالب آجاتی تھی۔ وقت گزرتا گیا۔ مجھ میں اچھے برے کی تمیز  کی صلاحیت ظاہر ہونے لگی۔ میرے بابا مجھے اپنے ہمراہ مسجد لے جایا کرتے تھے۔ میں نماز کے دوران  ان کے نماز کی ادائیگی کو دیکھتا رہتا تھا۔ کبھی کبھار اس کی نقل اتارنے کی کوشش بھی کرتا تھا۔ جس سے میرے بابا بہت خوش ہوجاتے اور میری حوصلہ افرائی کیا کرتے تھے۔ میں گھر کے باہر اپنے کھیل کود میں رہتا لیکن جونہی نماز کا وقت آپہنچتا  تب میرے بابا مجھے صدا دیا کرتے تھے۔ میں دوڑ کر ان کے ساتھ مسجد چلا جاتا تھا۔ بسا اوقات انعام کے طور پر نماز کے بعد دوکان سے میرے لیے بسکٹ اور مٹھائیاں بھی خریدتے تھے۔ جس کے باعث اذان سنتے ہی میرے اندر خوشی کی لہر دوڑنے لگتی تھی۔

جب میں دس بارہ سال کا ہوا تب میرے بابا آہستہ آہستہ مجھے بتانے لگے بیٹا!  نماز جمہ کا نام کیا تم نے سنا ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا اور کہا: بابا جان آپ ہر ہفتے  جمعے کے دن جس نماز کے لیے جاتے ہیں وہی آپ کی مراد ہے نا؟ بابا نے مسکراہٹ کے ساتھ سرہلایااور کہا بیٹا تم ہمیشہ مجھے اپنی کامیابی کے لیے دعا کی التماس کرتے رہتے ہو۔ امام صادق ؑ کا فرمان ہے: وہ اوقات جس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں ان میں سے ایک جمعے کے دن نماز جمعہ کے دو خطبے ختم ہونے سے نماز کے لیے صف بندی مکمل ہونے تک ہے۔

(1)ساتھ ہی آپ کا یہ فرمان بھی ہے: ہر وہ قدم جو نماز جمعہ کی طرف بڑھتا ہے اللہ تعالی ایسے فرد کے جسم پر جہنم کی آگ کو حرام قرار دیتا ہے۔

(2) میرے سکول کے امتحانات نزدیک تھے اور میں اس حوالے سے بہت پریشان تھا۔ اس حدیث کے سنتے ہی میرے اندر امتحان میں کامیابی کے حوالے سے امید کی ایک کرن پیدا ہوگئی۔جہنم کے حوالے سے خوفناک واقعات جو بچپنے سے سنتا آرہا تھااس حوالے سے بھی میں بہت پریشان رہتا تھا اور میں اپنے تئیں کہتا رہتا تھا کہ اس جہنم سے تو مجھے بچنا ہی چاہئے۔ آج جب میرے بابا نے معصوم امام کے فرمان کو میرے سامنے رکھاتب میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میں نے فوراپوچھا بابا جان یہ نماز کیسی پڑھی جاتی ہے؟ انھوں نے کہا:بیٹا نماز تو صرف دو رکعت پر مشتمل ہے،  امام جمعہ اس سے پہلے  دو خطبے دیتے ہیں، اس میں وہ وعظ و نصیحت کرتے ہیں، جمعہ پورے ہفتے کے دنوں میں سب سے بافضیلت دن ہے۔  اس دن سارے مسلمان ایک جامع مسجد میں جمع ہوتے ہیں۔اس سے مسلمانوں کا اتحاد بڑھتا ہے،مومنین ایک دوسرے سے ملتے ہیں، اس سے اللہ بہت خوش ہوتا ہے۔ ہمارے پیارے رسولؐ کا فرمان ہے: ہر جمعے کا دن تمہارے لئے ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب ہے۔ حج کا ثواب نماز جمعہ میں شرکت کے لیے جلدی کرنے کے بدلے ملتا ہے اور عمرے کا ثواب نماز جمعہ ختم ہونے کے بعد عصر کی نماز کے لئے انتظار کرنے کے بدلے ہے۔

(3) ساتھ ہی ہمارے ہر دل عزیز امام حضرت علیؑ کا فرمان ہے: میں چھ افراد کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو نمازجمعہ کے لیے جاتے ہوئے اس دنیا سے چل بسے۔

(4)جمعے میں شرکت کے حوالے سے میرا اشتیاق اتنا بڑھا جسے بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں۔ اتفاق سے وہی دن جمعے کا دن تھا،میرا اصرار بڑھتا گیا بابا میں  آج ہی آپ کے ساتھ جمعے پر ضرور جاؤں گا۔ بابا نے کہا: بیٹا جمعے پر جانے کے لیے ایک خاص اہتمام کے ساتھ جانا چاہئے۔ کسی عام انسان سے ملنے کے لیے ہم نہیں جارہے بلکہ ہمارے خالق سے ملنے جارہے ہیں۔ اس کے سامنے میلے کپڑے میں جانا مناسب نہیں۔ آج تو سرکاری چھٹی ہے۔ اس زمانے میں تو اسلامی تعلیمات کے مطابق جمعے کو ہی چھٹی ہوا کرتی تھی اور جمعے کی تیاری کے لیے جمعرات کو ہاف ڈے ہوتا تھا۔  کل پرسوں جاکر میں تمہارے لیے نئے کپڑے اور عطر لیکر آؤں گا۔ اگلے جمعے کو ایک خاص اہتمام کے ساتھ میں تجھے اپنے ساتھ لے چلوں گا۔ ان وعدوں کے بعد میں نے اپنے بابا کو اجازت دیدی اور وہ جمعے پر چلے گئے۔ میں شدت سے اگلے جمعے کا انتظار کررہا تھا۔ ہر دن مجھے ایک سال محسوس ہورہا تھا۔ اگلے روز بازار جاکر ایک خوبصورت سا لباس میرے لیے خرید لیا۔ درزی سے اسےسلوایا گیا۔ میں شدت سے اس دن کا انتظار کر رہاتھا۔اس کی خوشی اپنی جگہ ایک الگ سی ہوتی تھی۔ جمعے کا دن آپہنچا،  تب میرے بابا نے کہا: بیٹا ! ویسے تو عام حالت میں بھی صاف ستھرا رہنا اسلامی نقطہ نگاہ سے ایمان کا جز سمجھا جاتا ہے، لیکن جمعےکے غسل کی ایک خاص  اہمیت بھی بیان ہوئی ہے،لہذا جمعے پر جانے سے پہلے ہمیں غسل کرنا  چاہئے۔کیونکہ ہمارے پیارے رسولؐ کے زمانے میں بعض افراد اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول رہتے تھے اور نہائے بغیر، گندے کپڑوں میں مسجد جاتے تھے، بو آنے کے باعث ان کے اردگرد رہنے والے نمازیوں کو کافی تکلیف ہوتی تھی۔ اس کے بعد اللہ تعالی کے حکم سے ہمارے رسولؐ نے اس غسل کی کافی تاکید کی ہے اور بہت زیادہ اس کی فضیلت بھی بیان کی ہے،  ہماری روایات کی رو سے وہ شخص جو ہر جمعے کو غسل انجام دیتا ہے اس کا جسم قبر میں بھی ہمیشہ سالم رہتا ہے۔

(5) میں نے پوچھا بابا یہ غسل کیسے کیا جاتا ہے؟ انھوں نے کہا: بیٹا پہلے غسل جمعہ کی نیت کرو! اسے زبان پر لانا ضروری نہیں صرف دل میں تصور کرے تو کافی ہے، پھر سر اور گردن کو مکمل دھونا، پھر جسم کے دائیں اور سب سے آخر میں بائیں طرف کو دھونا، میں نے ان کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے خوشی خوشی غسل کیا۔ کپڑے کے ساتھ بابا نے عطر بھی لائے تھے۔ نئے لباس پہن کر عطر سے معطر ہوکر ایک نئے ولولے اور شوق کے ساتھ ہم جمعے کے لیے نکلے۔ہمارے گھر سے جامع مسجد کا فاصلہ دس کلومیٹر تھا۔ ہم جامع مسجد پہنچ گئے،  بہت بڑی مسجد تھی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ وہاں جمع تھے۔ میرے ہم عمر افراد بھی تھے، جوان  و عمررسیدہ،   امیرو غریب سب تھے۔ گلدستہ اذان سے اذان ہوئی۔ ایک نورانی  چہرے والے عالم دین ہاتھ میں ایک خوبصورت عصا لیے سٹیج پر چلے گئے۔ حمد و ثنا کے بعد وعظ و نصیحت شروع کی۔ انھوں نے کہا: ہمیں چاہیے  کہ خدا کی اطاعت کرے،عبادت الہی میں سستی نہ برتے، دوسرے لوگوں کا حق نہ کھائے، بزرگوں کا احترام کرے، اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئے، والدین کی اطاعت کو اپنے اوپر فرض سمجھے، ہمیشہ سچ بولنے کی عادت ڈالے، جھوٹ ، دھوکہ ، فریب، غیبت اور بہتان سے اجتناب کرے۔ اس طرح کی بہت ساری مفید باتیں اس نے کی۔

میں بڑی دلچسپی سے یہ ساری باتیں سنتا رہا لیکن درمیان میں، میں اپنے بابا سے مزید سوالات کرنے لگا۔ میرے بابا نے کہا: بیٹا یہ دو خطبے بھی نماز جمعہ کا حصہ ہے، لہذا خطبے کے درمیان ہمیں خاموشی اختیار کرنا چاہیے، میں  ان کے حکم کی تعمیل میں خاموش ہوا۔ نماز جمعہ اختتام پذیر ہوئی، ہم مسجد سے باہر نکلے، ہمارے والد کے بہت سارے دوست احباب وہاں جمع تھے، مجھے پہلی بار دیکھ کر وہ لوگ بہت خوش ہوگئے، انھوں نے میری کافی حوصلہ افزائی بھی کی۔ میرے والد نے بھی اس دفعہ میرے لیے ایک خوبصورت سائیکل خرید لی۔ میں خوشیوں سے آپے سے باہر ہورہا تھا۔ میں واپس گھرآنے  پر اصرار کررہا تھا تاکہ میں اپنے بھائی بہنوں کو میری خوبصورت سائیکل دکھا سکوں۔ سپہر 4بجے ہم گھر لوٹ آئے۔ میرے والد گرامی نے کہا میرے بیٹے نے آج پہلی مرتبہ نماز جمعہ  میں شرکت کی ہے اس لیے میں نے اسے یہ سائیکل خریدی ہے۔ جب  میرے چھوٹے بہن بھائیوں نے یہ بات سنی توانھوں نے بھی  اصرار کرنا شروع کیا  بابا جان  اگلے جمعے پر  ہمیں بھی ساتھ لیکر چلئے گا۔ میرے بابا کہنے لگے: پہلے تم گاؤں کی مسجد میں جانے کی عادت ڈالو،  جب  تم لوگ اس کی عمر کوپہنچیں گے  تب تمہیں بھی ساتھ جامع مسجد جمعے کے لیے لے چلوں گا۔ اس کے بعد میں ہر ہفتہ جمعے پر جایا کرتا تھا۔ امام جمعہ کی وعظ و نصیحت کو غور سے سنتا تھا اور پورا ہفتہ اس پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کرتا تھا، اس سے میری زندگی بالکل بدل گئی۔  اس کے بعد سے میں ایک نئے عزم کے ساتھ والدین کا احترام کرنے لگا،چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ  ہمیشہ شفقت سے پیش آنے کی کوشش میں مجھے لطف محسوس ہونے لگا، معاشرے میں ہر چھوٹے بڑے کا احترام اور سلام میں ان سے پہل کرنے کی عادت ڈالی ، یہاں سے میں نے بہت ساری اچھی عادتیں اپنے اندر پیدا کردیں اور بہت ساری اخلاقی کمزوریوں کا ازالہ بھی کیا،

آہستہ آہستہ میری   عمر بلوغت کے قریب پہنچ گئی،   بلوغت کو  پہنچنے تک میرے تحت شعور میں یہ بات مکمل طور پر بیٹھ چکی تھی کہ مجھے  جمعے کی نماز کو کسی صورت ترک نہیں کرنا چاہیے۔ میں جب حد بلوغت کو پہنچا تو میرے والدین نے بھرپور طریقے سے جشن بلوغت کا اہتمام کیا۔ ارد گرد کے رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی مدعو کیا۔ سارے رشتے دارمیرے لیے گفٹ لیکر آئے تھے، وہ سب بھرپور طریقے سے مجھے احساس ذمہ داری دلا رہے تھے۔ اتنے میں میرے والد گرامی نے مجھے ایک  اور نیا کپڑا پہنایااور مہمانوں کے سامنے مجھ سے یوں مخاطب ہوئے:بیٹا! آج تک میں تمہاری ہر حرکت اور بات پر نگرانی کرتا تھا۔ میری یہ کوشش رہتی تھی کہ تجھے دین و ملت کے لیے ایک مفید سرمایہ بنالوں۔ آج سے تم خود معاشرے کے ایک ذمہ دار فرد بن گئے ہو۔ اب معاشرے کو تم لوگوں نے ہی  چلانا ہے۔ یہ جشن تمہارے اوپر دینی اور معاشرتی ذمہ داریاں سونپنے کے لی منایا گیا ہے۔ اب تم سے چھوٹے بھائیوں کی ہر حرکت پر تیری نظٖر ہونی چاہیے۔ اب تم خود کھرے کھوٹے میں تمیز دے سکتے ہو۔  اب میں دوبارہ تمہیں جمعہ جماعت کے لیے لیکر نہیں چلوں گا۔ اب تم خود اس کی اہمیت سے کماحقہ آگاہ ہوگئے ہو۔ لہذا تمہیں خود سے ان عبادتوں میں  بھرپورشرکت  کرنا ہوگا۔

میں  غور سے ان  کی نصحیتوں کو سنتا رہا، اس وقت تک میں جمعہ جماعت میں شرکت کے ذریعے اکثر بنیادی اعتقادی اور فقہی مسائل سے آگاہ ہوچکا تھا۔ اب ہر نماز کے لیے امام جماعت کو بلانے میں خود جاتا تھا، مسجد کے چراغ میں خود جلاتا تھا، دوسرے دوستوں کو مسجد کی طرف میں خود بلاتا تھا،یوں میں ایک سلجھا ہوا صوم و صلاۃ کا پابند مسلمان بنا۔ اب مجھے محسوس ہوا کہ جمعہ جماعت میں شرکت تربیتی حوالے سے ہمارے اوپر کتنے اچھے اثرات مرتب کرتی ہیں۔

حوالہ جات

  1. تهذيب الأحكام، ج 3، ص. 235

  2. الأمالى للصدوق، ص. 366۔

  3. بحارالأنوار، ج 86، ص. 214

  4. وسائل الشيعه، ج 7، ص. 308

  5. nooreaseman.com

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button