کالمز

بے غیرت اور حرامی کون؟

امجد علی

ہمارے معاشرے میں کم و بیش تقریباً ہر چیز کے معنی بدل چکے ہیں. با لکل ایسے جس طرح اسکول کے ابتدائی دور میں ہمیں الفاظ دئے جاتے تھے اور ان کامتضاد یا اُلٹ لکھنے   کو کہا جاتا تھا. اُس وقت اُلٹ الفاظ کا لکھنا مشکل تھا ور اب اُلٹ کو سیدھا کرنا مُشکل ہو گیا ہے. کل شام کی بات ہے ، میں لاہور کے ما ل روڈ پر رُکا، سگنل کھلنے کا انتظار کر رہا تھا. اتنی دیر میں پولیس کی ایک بڑی  گاڑی آ ئی جس میں دو پولیس جوانوں کے ساتھ، دو خواتین سمیت پانچ لوگ سوار تھے۔ اُن کے خد وخال اورساتھ موجود  سازو سامان سے اندازہ یہی ہو رہا تھا کہ انہیں سڑک کنارے سے اٹھایا گیا ہے۔ لیکن  ان کا قصور کیا ہے اسکا پتا لگانا فی الحال مشکل تھا۔

جیسے ہی گاڑی رکی دونوں فرض شناس سپاہی تیزی سے اُترے اور ایک طرف لپکے۔ سگنل کےاُس طرف ایک نوجوان ڈنڈی پر گجرے سجائے گاہک کے  انتظار میں تھاکہ گجرے بکے، تھوڑی بہت کمائی ہو اور وہ اپنے گھر کا چولھا جلا سکے۔ یہ ایک غریب،  محنت کش اور مزدور پاکستانی تھا۔

جیسے ہی پولیس کے سپاہی اس کے پاس پہنچے،  وہ حواس باختہ ہو گیا اور اپنی جگہ ساکِت رہ گیا۔ سپاہی اسے ڈانٹنے لگے اور گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوے کُچھ کہنے لگے۔اُن کے اندااز سے لگتا یہی تھا کہ وہ اُسے ساتھ لے کے جانا چاہتے ہیں لیکن اگر وہ”تعاون”کرے تو اسکو چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔ لو جی، معاملہ ایک  منٹ میں حل ہو گیا، کیا ہی بات ہے ہمارے پولیس کی، کاش کہ ہر مسٔلہ اتنی جلدی لیکن ایمانداری کے ساتھ حل ہوتو پاکِستان کے آدھے مسائل ایک ہی دِن میں حل ہو جایٔں۔

خیر، اُن مہربان سپاہیوں نے اُسکی جان بخش دی، صرف دو دو گجرے اُٹھاۓ، کُل ملا کے چار گجرے، اور معاملہ تمام۔ اُسکی روزی چِھن گئ لیکن وہ ایک مشکل سے بچ گیا۔ قانون کے ڈنڈے نے اُسکی ڈنڈی کا بوجھ کم کر دیا اور قانون کا بول بالا ہو گیا۔ نہیں معلوم، ہر روز اِس مُلک کے کِس کِس کونے میں کِتنوں کا بوجھ اسی طرح ہلکا کر کے قانون اپنا بول بالا کرتا ہوگا۔

جیسے ہی دونوں سپاہی واپِس آ کر گاڑی میں بیٹھنے لگے، میں نے حق اوراُس غریب کی ہمدردی میں ہمت باندھی اور ایک سپاہی سے سوال کیا، بھائی آپ نے اُس بندے سے یہ گجرے مفت میں کیوں اُٹھاے؟؟ اِس غیرمتوقع سوال نے اُسے شاید غصہ دِلایا، اُنہوں نے مُجھے گھورتے ہوے انتہائی کرخت آواز میں بہت ہی غیر پیشہ ورانہ جواب دیا۔ یہ بہت ہی بے غیرت اور حرامی قوم ہے، تنگ کر کے رکھا ہوا ہے سالوں نے۔ مُجھے یہ بات زور سے لگی، میرا پہلا سوال بہت ہی محتاط اور شائستہ تھا لیکن دوسرا سوال جذباتی اور سخت تھا جو میرے منہ سے بے اِختیار نکل پڑا۔ میں نے قدرے اونچی اور سخت آواز میں پوچھا، بھائی میرے، آپ اِن غریبوں کو گالیاں کیوں دے رہے ہیں؟؟ یہ بے غیرت اور حرامی کیسے ہوے؟؟ اُن کے بارے میں کیا خیال ہے جو پورا پاکِستان لوٹ رہے ہیں،ہم سب کا حق کھا رہے ہیں اور ہم پے حکمرانی بھی کرتے ہیں، وہ کیا ہیں؟ میرے اِس سوال کا بہت ہی اعلٰی جواب مِلا۔ نکلیں آپ، وہ بڑے لوگ ہیں، تم ہوتے کون ہو پوچھنے والے؟ نکل۔

اِس سے پہلے کہ میں جواب دیتا سگنل کھُل چُکا تھا اور میرے پیچھے کھڑی گاڑیوں کے ہارن بج رہے تھے، مُجھے بھی آگے چلنا پڑا۔

میں آگے نکل گیا، میری گاڑی کوسبز سگنل ملا، لیکن میرا دماغ  وہی اٹکا رہا، کیوں کہ جب تک میں ایک  شریف، وفادار، اور محبِ وطن عام آدمی ہوں میری زندگی کے سارے سگنل سرخ ہیں۔

کیا ہمارے اِس معاشرے میں حرامی کہلانے کا معیار یہی ہے کہ بندہ غریب ہو؟ ٹھاٹھ باٹھ نہ ہو؟ کیا ہمارے محافظوں کا کام یہی رہ گیا ہے کی ملک لوٹنے والوں کو پروٹوکول دیں اور اِس میں رہنے والے عام آدمی پر ظلم کریں؟ اوراُنکو غلیظ ناموں سے پُکاریں؟؟ مسائل تو بہت ہیں، فی ا لحال اِس بات کا تعین ہو کہ آخر بےغیرت اور حرامی ہیں کون؟

اب آپ ہی بتا دیں!

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

ایک کمنٹ

  1. Bilkul aisa hi hai bhai yahan imaandar, sacha or gareeb hona begairati hai. Hmaray hukumraoun ki halat dekh rahai hai aap tu in 2 takay k police waloon se kia umeed rakh saktay ho. Badqismati se humara mashra barbaad hochuka hai.

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button