کالمز

ہنزہ ضمنی انتخابات، نوشتہ دیوار

کریم احمد
میں عام طور پر مسلم لیگ کا بڑا ناقد رہا ہوں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ پانچ سال حکومت میں رہنے والے پیپلز پارٹی کے رہنما ہنزہ نگر کے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ پیپلز پارٹی کا ایک جیالہ ہمیں 2011 میں بتا رہا تھا کہ گوجال کو سب ڈویژن بنانے کا فیصلہ ہوچکا ہے اور اعلان ہونا چند دنوں کی بات ہے۔ لیکن ان کی بات غلط ثابت ہوئی۔ نہ تو پاکستان پیپلز پارٹی ضلعی صدرمقام کا تعین کر پائی، اور نہ ہی ضلعی محکمے بنا سکی، اور اس پر مستزاد یہ کہ پارٹی رہنما ضلعی انتظامی اصلاحات کر کے اختیارات کو مقامی سطح پر منتقل کرنے میں کوئی کامیابی حاصل کر سکی۔
احتجاج کرنے والوں پر گولیاں برسانے، احتجاجی متاثرین کے خلاف اسمبلی میں غداری کے الزامات سے بھر پور قرارداد پیش کرنے اور گوجال کے عوام کو "ناشکرے” کہنے کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی والوں نے کوئی تیر نہیں مارا۔ اور اس کا صلہ انہیں پچھلے انتخابات بھی مل بھی گیا، جس میں عوام نے انہیں بری طرح مسترد کرتے ہوے اس آزمائے ہوے شخص کو ووٹ دی جس کے حق میں وزیر اعظم نے عوامی جلسے میں بیان دیا اور ہنزہ کو ضلع بنانے کا اعلان کیا، اور بعد میں اعلان پر عملدآمد کر کے بھی دکھایا۔

عوام کے مسائل باتوں سے حل نہیں ہوتے ہیں۔ آپ کے نعرے جتنے خوشنما کیوں نہ ہوں، عوام ان کو ووٹ دینگے جن سے کچھ بن پڑنے کی امید ہوگی۔ یہی انتخابی سیاست ہے اور یہی کتابی اصولوں کے برخلاف ایک کریہہ ہیت والی حقیقت بھی ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی علاقے میں پہلی بار آئی تو لوگوں نے علاقائی سیاست میں اس غیر معروف پارٹی کے نامزد امیدوار باباجان کو متحرک سیاست کی وجہ سے پرانے کھلاڑیوں کی نسبت زیادہ عزت دی۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن اور عوامی ورکرز پارٹی کی بطور پارٹی اس علاقے میں کوئی حیثیت نہیں ہے،ا نکی کامیابیوں کے پیچھے میر غضنفر کی موروثی سیاست، اور بابا جان کی ولولہ انگیز قیادت ہے۔ مسلم لیگ ن کے مقامی رہنما کرایے کے ہرکاروں کی طرح کبھی غضنفر اور کبھی اس کے بیٹوں کی کمپیننگ میں مصروف رہتے ہیں۔ اور اگر موجودہ الیکشن میں کسی ‘معجزے’ کی وجہ سے سلیم خان جیت جاتا ہے تو علاقے کے لیگی رہنما بھول جائیں اس بات کو کہ کبھی کسی "عام” شخص کو بھی پارٹی ٹکٹ ملے گی۔عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما بابا جان اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود بھی اسمبلی میں( اگر جیت گئے تو) جانے کے بعد بھی عوامی مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا،کیونکہ موجودہ نظام میرٹ کی نہیں بلکہ سیاسی وابستگیوں کی بنیادوں پر کھڑا ہے۔

پیپلز پارٹی  میروں کے خلاف جدوجہد کی وجہ سے عوامی سطح پر جڑیں رکھتی ہیں، لیکن اس مرحوم انقلابی پارٹی کے رہنماوں کو اس زمانے میں بھی بے نظیر اور بھٹو کے قبروں سے بڑھ کر کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ اسی لئے ان کی سیاست کا گراف نیچے جارہا ہے، اور ان کی جگہ پاکستان تحریک انصاف ایک متبادل قوت کے طور پر ابھر رہی ہے۔ لیکن پاکستان تحریک اںصاف کو اس علاقے میں انتخابی پزیرائی حاصل کرنے کے لئے متحرک سیاست کرنے کی ضرورت ہے۔ اگلا انتخاب کون جیتتا ہے یہ غیر اہم ہے۔ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ ہارنے والوں کا الیکشن کے بعد کردار کیا رہتا ہے۔ اگر وہ ہارنے کے بعد دم دبا کر تحریک انصاف کے سابق رہنما اظہار ہنزائی کی طرح بھاگ کھڑے ہوے تو پھر ان کی سیاست بھی غرق ہوگی، اور ان کی وقعت بھی۔

مقتدر حلقوں کو نوشتہ دیوار پڑھتے ہوےعوام کی آواز کو جگہ دینے کی ضرورت ہے۔ جو عوام کرنا چاہے وہ مقدم ہے۔ ان کی رائے کسی بھی دانشور، تجزیہ کار اور ‘تجربہ کار سیاستدان’ کی رائے پر فوقیت رکھتی ہے۔ جس کو عوام ووٹ دیں اسے تسلیم کیا جائے۔ جمہوریت اسی کا نام ہے۔ اگر زبردستی کسی کو ہرانے اور کسی کو جتانے کی کوشش کی گئی تو اس کے اثرات علاقے کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں، کیونکہ عومی  پیغام یہ جائے گا کہ شعوری، قانونی اور پرامن انتخابی عمل کے ذریعے اس علاقے میں غریبوں اور موروثی اثر و رسوخ نہ رکھنے والے افراد کو جدوجہد اور قابلیت کی بنیاد پر رہنمائی کا حق نہیں مل سکتا ہے۔

اگر کچھ افراد کو نوازنے کے لئے جمہوریت کو مذاق بنادیاگیا تو اس کا واضح مطلب ہزاروں نوجوانوں کو دیوار سے لگانا ہوگا۔ ایسی کسی بھی زبردستی اور غیر جمہوری عمل کا ردِ عمل گلگت بلتستان کے حق میں بہتر نہیں ہوسکتا ہے۔

 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button