کالمز

بانی پاکستان کا خواب  اور موجودہ پاکستان

تحریر :   محمد حسن  جمالی

پاکستان  دنیا  کا  وہ ملک ہے جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا- مملکت خداداد پاکستان کی بنیاد  تشکیل  پانے سے پہلے مسلمان  ہندو ریاست کے اندر  پسے ہوئے تھے۔ کوئی بھی  بنیادی اوراہم کام وہ اپنی مرضی اور اختیار سےانجام   نہیں دے سکتے تھے- نہ کوئی مسجد بنا کراس میں عبادت انجام دے سکتے تھے، اورنہ ہی آذاد کھلی فضا میں وہ اپنے مذہبی رسومات قائم کرسکتے تھے، یہاں تک کہ مسلمان اپنے بچوں کوایک معیاری اسکول میں بھیج            کر تعلیم دلوانے کا بھی حق نہیں رکھتے تھے -معاشی ، تہذیبی، ثقافتی، اور مذہبی غرض ہر لحاظ سے مسلمانوں کا استحصال کیا ہوا تھا، بےچارے مسلمان صبح وشام بس اپنے مقدر کو کوستے رہتے، اپنی زندگی سے بری طرح    نالاں تھے، ہندووں کے درمیان  وہ اپنے وجود کوایک اضافی  شئی  تصور کرتے  تھے –  ناگہان خالق کائنات نے شاعر مشرق عظیم مفکرعلّامہ اقبال کے پاک وشفاف ذہن میں مسلمانوں کے لئےایک الگ ریاست قآئم کرنے کی  فکرپیدا کردیا- اس سلسلے میں ان کا1930 کا خطبہ آلہ آباد بہت اہم  ہے- اس میں علامہ نے  واضح طور پر یہ اعلان کردیا  کہ میں ہندوستان اور اسلام کے مفاد میں ایک الگ مسلم ریاست کے بنانے کا مطالبہ کرتا ہوں  ۔علامہ اقبال نےلندن میں اس فکر کو قائد اعظم محمدعلی جناح کے ذہن میں ڈال دیا،  قائد اعظم کو یہ مشورہ بھی دیا کہ آپ اسلام کے احیا کی بات کریں        ، یہ چیز مسلمانوں کے جزبات کے اندر گرمی اورحرارت پیدا کرے گی- محمد علی جناح علامہ کی  اس تجویز کو سنکر بہت خوش ہوۓ ،چنانچہ محمدعلی جناح نے  1937سے لیکر 1947تک پورے دس برس مسلسل تکرار کےساتھ صرف اسلام کی بات کی   ۔      کہا       کہ ہمیں اسلام چاہئے  ۔ ہم اسلامی تہزیب اسلامی قوانین چاہتے ہیں ،جو ہندو  قوانین سے یکسر الگ ہیں   ۔اسلام صرف ہمارا مذہب نہیں بلکہ دین ہے- یہ زندگی کے تمام معاملات پر حاوی ہے ۔ اس چیز نے مسلمانوں کے اندر ایک ولولہ تازہ پیدا کردیا ہے۔ بنا بر این نصرت خدا   ،فکراقبال اور قائد اعظم کی شب وروز کی انتھک کوشیشوں کے نتیجے میں بالآخر پاکستان معرض وجود میں آیا ، مسلمانوں کی دیرینہ تمنا اور آرزو پوری ہوئی ، مسلمانوں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا، سکون اور چین کی زندگی میسرآئی – اب بانی پاکستان نے فکر اقبال کے بل بوتے پر  جن اہداف اور مقاصد کے پیش نظر وطن عزیز کو وجود میں لانے کی سعی اور جدوجہد کی ہے  وہ یہ ہیں  ۔ 1ول-  اس ملک میں صرف خدا کا قانوں فافذ ہوگا، قانون الہی سے متضاد قوانین کے لئے اس ملک میں کوئی گنجایش نہیں ہوگی- دوم – اس ملک میں مسلمان بلکل آذادی اور اختیار سے اپنے مذہبی رسومات قائم کرسکتے ہیں ، اور اپنی مرضی سے عبادات سر انجام دے سکتے ہیں، کسی کومزاحمت یا ممانعت کا حق حاصل نہیں ہوگا  ۔ سوم- اس ملک میں سارے مسلمان اخوت، اور بھائی چارہ گی کے ساتھ اپنی زندگی کے لمحات گزاریں گے –   چہارم- وطنی، لسانی ، قومی، اور دوسرے تعصبی کینسر سے بھی خطرناک جان لیوا  بیماریوں سے اپنی حفاظت کرتے ہوۓ اس ملک میں سا رے مسلمان انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کو دیکھیں گے-    پنجم- ایمان،  اتحاد، اور تنظیم، کو اس ملک میں سارے امور کی بنیاد اور اساس قرار دیتے ہوۓ سارے مسلمان  ایک دوسرے سے شیروشکر ہوکرعزت کی زندگی بسر کریں گے ۔شیشم – تمام حقوق ( تعلیمی ، تنظیمی ، تربیتی ، امنیتی ، سیاسی ،معاشی – وغیرہ ) سے بلاتفریق سارے مسلمان چاہے  وہ امیر ہوں یا غریب یکساں   طور پر استفادہ کریں گے ۔ معمار قوم اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بے انتہا دلسوز تھے، جس کا اندازہ مختلف مواقع پر کئے ہوۓ آپ کی  تقاریر  کو پڑھ کر کیا جاسکتا ہے –  جون 1938  مسلم لیگ کا جھنڈا نبی اکرمؐ کا جھنڈا ہے 22 نومبر 1938 اسلام کا قانون دنیا کا بہترین قانون ہے- 7اگست 1938  میں اول وآخر مسلمان ہوں –   –  14نومبر 1949انسان خلیفۃ اللہ ہے – ٹائمز آف لندن 9 مارچ  1940ہندو اور مسلمان دو جداگانہ قومیں ہیں – 22  مارچ 1940میرا پیغام قرآن ہے – لیکن بانی پاکستان کی رحلت کے بعد بدکردار، بد عنوان، ضمیرفروش، خواہشات نفسانی کے اسیر، حقائق سے نابلد ، ،ظالم وستمگر حکمرانوں نے وطن عزیز پاکستان اور اس کے باشندے مسلمانوں کے ساتھ وہ کھیل کھیلا جس کی مثال شاید تاریخ بشریت میں ملے، ان کے کرتوت کو دیکھ کر انہیں انسان کہتے ہوۓ ہمیں شرم آتی ہے،  یہ ظاہری انسان  ہیں، در حقیقت انسان کی شکل میں یہ حیوان درندہ ہیں، چونکہ ان کی شناخت اور آگاہی بلکل چارپائیوٰں کی آگاہی کی سی ہے- حیوان کی آگاہی کی چار خصوصیات ھیں (1 ) حیوان کی آگاہی سطحی اور ظاہری ہوتی ہے، اشیاء کے اندر اور ان کے اندرونی روابط سے اس کا کوئی سروکا ر نہیں ، ہمارے انسان نما حکمرانوں کی آگاہی بھی نہایت سطحی اور ظاہری ہوتی ہے – 2)) حیوان کی آگاہی انفرادی اور جزوی ہوتی ہے، کلیت اور عمومیت سے تہی دامن ہے- ہمارے شکلی انسان حکمرانوں   کی آگاہی بھی صرف اپنی ذات و ذاتیات کی حد تک محدود ہوتی ہے ،  ( 3 ) حیوان کی آگاہی خاص علاقہ تک محدود ہوتی ہے، یعنی اپنی زندگی کے دائرے تک محدود رہتی ہے -ہمارے صورتی انسان حکمرانوٰن کی آگاہی بھی اپنے گھر، خاندان ، رشتہ دار، اور اپنی پارٹی میں منحصر ہوتی ہے -(4) حیوان کی آگاہی حال سے متعلق ہوتی ہے ، زمان ماضی اور مستقبل سے منقطع ہوتی ہے – ہمارے ظاہری انسان حکمرانوں کی شناخت اور آگاہی کی صورتحال بھی بلاکم وکاست   یہی ہے  – خائن حکمرانوں نے پاکستانی مظلوم قوم کو دوبارہ اغیار کی غلامی میں زلت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا ، بےچارے عوام پر ہر طرح کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی  – تمام شعبہ ہاۓ زندگی میں اسلامی  نظام  کے مخالف و متضاد قانون اجرا کر دیا، جو بھی حکمران آیا وہ غاصب، خائن ،غدار ثابت ہوا  ۔اسلام اور نظام اسلامی کو پس پشت ڈال کر وہ اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل میں  اس قدر غرق ہوۓ، کہ قوم اور وطن کی فکر کرنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھے  – معیشت ، ثقافت ، تہزیب ، علم وہنر، غرض ہر میدان میں وہ مغرب کے مطیع تام بن گئے     ، اور مغرب کواپنے ملکی نظام کے لیئے مستقل آئیڈیل قرار دے کر ملک کو  قعرمزلت اور  بربادی کی اتھاہ گہرائی میں پہنچا دیا  ہے – چنانچہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت میں آج سارا نظام مغربی ہے کوئی بھی نظام اسلامی نہیں ۔  "کچھ نمونے (نظام معیشت) بانی پاکستان قائد اعظم  نے سٹیٹ آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوۓ فرمایا تھا کہ اب آپ کو اسلام کا نظام معیشت تیار کرنا ہے اس مغربی نظام معیشت نے انسان کو کوئی خیر اور بھلائی عطا نہیں کی ، لیکن آج ہماری معیشت سود پر مبنی ہے حالانکہ اسلام کی نظر میں   سودگناہ  کبائر میں سے  ہے   (نظام امنیت) یہ کہنا بےجانہ ہوگا، کہ امن وامان کے اعتبار سے بلکہ ہر جہت سے جنگل میں رہنے والے جانور ہم سے بہتر سہولیات کا حامل ہیں، وہ ہر روز تازہ خوراک کھاتے ہیں، قدرتی چشموں سے شفاف پانی پیتے ہیں، ان کو سانس لینے کو صاف ہوا میسر ہے، اپنی مرضی اور اختیار سے بلکل آذاد فضا میں ہر روز سیر کرتے رھتے ہیں، لیکن ہم بدقسمت پاکستانی قوم کو نااہل حکمرانوں کی وجہ سے نہ کھانے کوآٹا ہر وقت دستیاب رہتا ہے  اور نہ ہی پینے کو صاف پانی ملتا ہے، یہاں تک کہ اب ہم اپنی سر زمین پر جینے کا بھی حق نہیں رکھتے ہیں – پاکستان کی امن عامہ کی صورتحال اس قدر خراب ہوئی ہے، کہ غریب لوگ اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر  محنت مزدوری کے لئےگھر سے باہر نکلتے ہیں، لیکن ذندہ  گھر والوں کے پاس واپس لوٹنے کا کوئی یقین نہیں ہوتا ، انتہائی افسردگی، غمگینی، پریشانی، اور اضطراب و بےچینی کے عالم میں وہ پورا دن گزار دیتے ہیں ،آۓ روز بے گناہ افراد کا ناحق خون بہانا اب پاکستان میں معمول بن گیا ہے – اگر از باب اتفاق کبھی کسی دن دلخراش حادثہ پیش نہیں آتا ہے، تو لوگ متحیر ہوتے ہیں ، پاکستان میں نہ امیر کو امن وامان ہے، اور نہ ہی غریب کو، نہ حکومتی املاک کو امنیت حاصل ہے، اور نہ ہی حکومتی ادارے کو  ، نہ مذہبی رہنما محفوظ ہیں، اور نہ ہی اسکول کے نونہال فرشتے،    (نظام ثقافت) پاکستانی قوم   دانستہ یا نادانستہ اپنی ثقافت  کو یکسر طور پر فراموش کرچکی ہے ۔ پاکستانی قوم  مشرقی ثقافت کے دامن سے متمسک رہنے کو  اپنا عیب   سمجھنے  لگے ہیں ۔  پاکستانی معاشرے میں مغربی نظام ثقافت تناور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ مغربی نظام ثقافت کا لوگ بڑی گرم جوشی سے استقبال کرتے ہیں ۔ بڑے افتخار سے لوگ اس کی تبلیغ و ترویج کرتے ہیں ۔  مغربی فکر کے حامل سرکاری  اداروں میں  فیشن شوز اور مختلف  ثقافتی پروگراموں کے   نام  سے فحاشیت  عریانیت    کی قباحت   سے  ہمارے بچوں  اور جوانوں  کے پاکیزہ   ذہنوں کو آلودہ  کر رہے ہیں   اور ستم بالائے ستم اسی قباحت کو  ترقی یافتہ تہذیب اور روشن خیالی کا نام  دے دیا گیا ہے   ۔  پاکستان  میں اب یہ سماج کا حصہ بن چکی ہے ۔ بعض شعبوں میں تو نوکری دلوانے کی شرط ہی  بے پردگی اور بے حیائی ہے   ۔  آج ہمارا معاشرہ  بے حیائی ، بے اعتدالی ، فحاشیت ، عریانیت   اور ننگے پن کے سمندر میں غرق ہوچکا ہے  ، بے شرمی کا بازار گرم ہے  ۔ اس  ناپاک دلدل سے معاشرہ کو نکالنا  محال وناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہے  ۔ مغرب نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہمارے معاشرے پر حملہ کیا  ہے  ۔   آج ہماری خواتین  کہیں تو تعلیم وتعلم کے نام پر تو کہیں سیر وتفریح کے بہانے تو کہیں کسب معاش کی تلاش میں عریانیت اور فحاشیت کا اعلی نمونہ پیش کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے رہی ہیں  پورے جسم کو چھپانے والے مشرقی ملبوسات کو چھوڑ کر ٹی شرٹ کو زیب تن کرکے اپنی جوانی وحسن کے جلوے  بکھیرنے میں اپنی عزت ، شہرت اور عافیت تلاش کررہی ہیں  ۔  پاکستانی قومو بیدار ہوجاو ان بیماریوں سے اپنے معاشرے کو پاک کرنے کی کوشیش کرو اور اپنی کھوئی ہوئی تقدیر کو واپس لانے کی سعی کرو

افراد کے ہاتوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button