کالمز

سی پیک منصوبے میں گلگت بلتستان نظر انداز، آخر کیوں؟

چین کا پاکستان کے ساتھ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری دوستی والی باتیں کرنا خود کو اور عوام کو بیوقوف بنانے کے مترادف ہیں۔میری نظر میں یہ رشتہ مقدس نہیں بلکہ مفادپرستی کا ہے کیوں کہ بین الا قوامی سیاست میں کوئی بھی ریاست مفاد کے بغیر کسی دوسری ریاست سے تعلقات قائم نہیں کرتا ہے ۔ مفاد کو حاصل کرنے کے لیے بدترین دشمن کو بھی دوست بنایا جاتا ہے ۔
پاک چین اقتصادی راہداری میں بھی چین کے بے پناہ مفادات ہے جس کی بنیاد پر چین پاکستان کے پیچھے پاگل کتے کی طرح پڑا ہوا ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ چین عسکری و معاشی لحاظ سے سپر پاور بن رہا ہے جس کے وجہ سے امریکہ کے ساتھ تصادم کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے ۔اگر ایسا ہوا تو چین کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ چین میں استعمال ہونے ولا 80سے 85 فیصد تیل بحری جہازوں کے زریعے آبنائے ملاکا سے گزرتا ہے اور چین کی بیشتر تجارت بھی اسی راستے سے ہوتی ہیں۔جہاں امریکہ اور چین کے مخالف ملک تائیون کے جنگی بحری جہاز زہر وقت موجود رہتے ہیں جو دوران جنگ آبنائے ملاکا کی ناکہ بندی کرکے چینی حکومت کو مفلوج کرسکتی ہے ۔ اس لیے چین ایسے محفوظ زمینی راستے کی تلاش میں ہے جہاں وہ ان حملوں سے بچ سکے ۔دوسرا مفاد چین کا یہ ہے کہ آبنائے ملاکا سے گزرنے والے راستے کی طوالت 13 ہزار کلو میٹر ہے جبکہ یہی مال گودادر کے راستے سے محض 6 ہزار کلومیٹر کا راستہ طے کرکے بیجنگ پہنچ سکتا ہے جس سے کم ازکم 6 ہزار کلومیٹر کی بچت ہوگی ۔
اسی طرح اگر پاکستان کی بات کئی جائے تو پاکستان ایشین ٹائیگر بنے کا خواب پورا کرنے کے لیے ہر قیمت پر اس منصوبے کو پایہ تکمیل؂تک پہنچانا چاہتا ہے ۔کیوں کہ اقتصادی راہداری سے توانائی ، انفراسٹرکچر ، ریلوے لائین ، فائبر آپٹکس اور گوادر پورٹ جیسے اہم منصوبوں کو مکمل کیا جائے گا۔۔ اقتصادی راہداری میں چھتالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس میں سے 35ارب ڈالر تونائی پر خرچ کیا جائے گا۔11.5 ارب سندھ ، 9.5 ارپ ڈالر خیبر پختون خواہ ،7.1ارب ڈالر بلوچستان ،6.9 ارب ڈالر پنجاب میں خرچ ہونگے ۔ اس کے علاوہ 11 ارب ڈالر سٹرکیں ، ریلوے اور فائبر آپٹکس منصوبوں میں خرچ ہونگے ۔یہ تھا پاکستان اور چین کے مفادت کا ذکر جو دونوں فریقین حاصل کرنے کے لیے بھرپور کوشش کررہی ہیں۔۔۔۔
لیکن اس منصوبے کی تیسری فریق گلگت بلتستان کو اُسے اس منصوبے سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے سوائے پکی سڑک بنے کے ۔ میں گلگت بلتستان کو تیسری فریق کے طور پر اس لیے پیش کر رہا ہوں کیوں کہ گلگت بلتستان ایک متنازہ علاقہ ہے اس کے مستقبل کا فیصلہ ابھی ہونے والا ہے ۔ گلگت بلتستان اس منصوبے کا نہایت اہم حصہ ہونے کے باوجود جان بوجھ کر نظر انداز کیا جارہا ہے ۔حالانکہ اس منصوبے کا ایک اہم حصہ گلگت بلتستان سے گزرے گا۔ اس کے علاوہ اس منصوبے کا مین گیٹ بھی گلگت بلتستان کے علاقے خنجراب سے شروع ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود پاکستان اور چین کے درمیان اس منصوبے کے حوالے سے ہونے والے معاہدے میں گلگت بلتستان کو نظرانداز کرنا حیران کن ہے ۔ تمام صوبوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے وفاقی وزیر احسن اقبال کی سربرائی میں بنائے جانے والے کمیشن میں تمام صوبوں کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی گئی لیکن گلگت بلتستان کے تحفظات سننے تو دور کی بات ایک نمائندہ کو بھی شامل کرنا گہوارہ نہیں سمجھا گیا ۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نواز شریف کے زیر صدارت بنے والی اعلیٰ سطح کی اسٹیئرنگ کمیٹی میں بھی میاں صاحب نے تما م صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو منصوبے میں تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کروائی لیکن گلگت بلتستان کا نام تک لینا مناسب نہیں سمجھا۔ لیکن گلگت بلتستان کی کٹھ پتلی حکومت اپنے مفادات کے خاطر عوام کو سبز باغ دیکھا کر بے وقوف بنا رہی ہے حالانکہ گزشتہ دنوں اس منصوبے کے اہم رکن سنیٹر مشاہد حسین سید نے دو ٹوک الفاظ میں واضع کر چکا ہے کہ اس منصوبے میں گلگت بلتستان کا کوئی حصہ شامل نہیں ہے اور نہ کیا جارہا ہے ۔پھر بھی ہمارے وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمن صاحب ٹی وی شوز میں آکر گلگت بلتستان کا نمائندہ کم نون لیگ اور کشمیر کا وکیل زیادہ بن رہا ہے ۔حفیظ اور حواریوں نے صرف یہی نہیں بلکہ اپنے آقا میاں محمد نواز شریف کو خوش کروانے کے لیے گلگت بلتستان کوتوڑنے کی بھی بھرپور کو کوشش کی ، لیکن عوام گلگت بلتستان نے ردعمل دیکھا کر اس فائل کو بن کرنے پر مجبور کردیا ۔ یہ سب اس وقت ہوا تھا جب چین نے گلگت بلتستان کی متنازہ حیثیت کی وجہ سے مستقبل میں رکاوٹ پیش ہونے کاخدشہ پیش کر کے پاکستان پر دباو ڈالا تھا ۔
پاکستانی حکمرانوں کو ماضی سے سبق لینا چائیے کیوں کہ اسی نظر اندازکرنے کی وجہ سے تو بنگلہ دیش سے ہاتھ دھونا پڑا ، بلوچستان بھی ہاتھ سے نکل رہا ہے اور گلگت بلتستان تو پہلے ہی متنازہ حیثیت کی وجہ سے آپ کے مکمل ہاتھ میں نہیں۔ اب خود دیکھوں ملکی دشمن کون ہے !!!
کسی بھی صوبے کی حق تلفی سے صرف ملکی معاشت کمزور نہیں ہوتی بلکہ محرمیوں کی وجہ سے ریاست کے خلاف تحریکیں بھی جنم لیتی ہیں۔اس لیے ہر صوبے کو اُس کا حق دیا جائے ۔گلگت بلتستان کو اس منصوبے میں نظرانداز کرنا وہاں کے باسیوں کے ساتھ ظلم کے متراف ہے ۔ اسیلئے ِ گلگت بلتستان کو اس منصوبے کی تیسری فریق کے طور پر تسلیم کرکے یہاں صنعتی زونز کا قیام عمل میں لایا جائے اور انفراسٹرکچر کی بہتری کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں ۔ جگلوٹ سے سکردو روڑ اور تھلیچی سے استور تک کی روڑ کو بھی اس منصوبے میں شامل کیا جائے ۔ جہاں میاں برادران لاہور سے ملتان موٹروے اور لاہور اورینج ٹرین سمیت متعدد پروجیکٹ کو اس منصوبے میں شامل کرسکتے ہیں تو اسے کیوں نہیں
میں آخر میں تمام گلگت بلتستان کی سیاسی، مذہبی جماعتوں کے نمائندوں اور جی بی کے جوانوں سے گزارش کرنا چاہوں گا خدارا اپنی مفادات اور باہمی تعصبات سے نکل کر اپنے حقوق کے لیے یک زباں ہو کر آواز بلند کریں۔ورنہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کرینگے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button