ثقافتکالمز

وادی یاسین ۔۔۔۔۔۔ دوسری قسط

جاوید احمد

javedیہاں کے لوگوں کا گزر اوقات کھیتی باڑی اور فوجی ملازمت پر ہے لیکن اللہ کا کرم ہے کہ اس وقت تعلیمی لحاظ سے یاسین کے لوگ گلگت میں صف اول میں جارہے ہیں اور بڑے بڑے سرکاری عہدوں کے علاوہ پرایؤیٹ اور غیر سرکاری اداروں میں بھی بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور بیرون ملک ملازمت کا رجحان دن بدن بڑھ رھاہے اورکاروباری دنیا میں بھی قدم روزبروز بڑھ رہا ہے، مال مویشیوں میں بھیڑ بکریاں اور گائے بیل بڑے شوق سے پالتے ہیں۔

اس علاقے کے لوگ شکار کے بڑے شوقین ہیں۔ یہاں کا بچہ بچہ بندوق استعمال کرنا جانتا ہے۔پہلے پہل ٹوپی دار ، فلیتے والی بندوقیں استعمال ہوتی تھی مگر اب بارہ بور اور بایئس بور رائفلیں زیادہ تر استعمال کی جاتی ہیں۔ چند سالو ں سے گلگت کے نامساعد حالات کا اثر یاسین پر بھی ہوا ہے۔ اب کھلم کھلا طور پر بندوق لیکر گھومنے پر پابندی ہے، اور یہاں کے لوگ روایتی طور پر حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے مشہور ہیں، اسلئے بندوق کے حوالے سے حکومتی احکامات پر پابندی سے عمل کیا جاتا ہے ۔

سردی اس علاقے میں بہت زیادہ ہو تی ہے۔موسم سرما میں برف باری کی وجہ سے سردی میں اور شدت آتی ہے جس کی وجہ سے چائے کا استعمال زیادہ ہے۔خاص کر نمکین چائے کا استعمال بہت زیادہ کیا جاتا ہے لوگ بہت مہمان نواز ہیں۔ عام طور پر مرغ کے گوشت سے مہمانوں کی خاطر تواضع کی جاتی ہے۔ انڈے اورمرغی کا گوشت ان لوگوں کا من بھاتا خوراک ہے اس علاقے میں خشک میواجات میں اخروٹ ، پھٹور(خشک خوبانی) ، خشک توت، اور بادام وغیرہ کافی مشہور ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگ صحت مند ، جفاکش ، اور لمبے قد کے مالک اور خوب صورت لوگ ہیں اور بڑی لمبی لمبی عمریں پاتے ہیں اکثرلوگ ایک سو بیس سال کی عمر کو پہنچتے ہیں ۔

علاقے کی رہائشی مکانات

روایتی گھر کا اندرونی منظر
روایتی گھر کا اندرونی منظر – تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ عموما اسی ساخت کے گھر گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں تعمیر کئے جاتے ہیں

اس علاقے کی رہائشی مکانات بھی کچھ عجیب و غریب ہو تے ہیں ضرورت کے مطابق نارمل کمروں کے علاوہ مہمان خانے الگ ہو تے ہیں اور اس کے علاوہ ایک بہت بڑا دیسی گھر ہو تا ہے جو کہ تقریباََ چھ سو پچیس مربع فٹ احا طے پر مشتمل ہو تا ہے۔ اس کی دیواریں پتھر، کچی اینٹیں یعنی مٹی کی بڑی بڑی دیسی اینٹوں اور مٹی کی گارے سے بنی ہو تی ہیں چھت  لکڑی کی بڑی شہتیروں اور تختوں سے بنائی جاتی ہے۔ چھت کا درمیانی حصہ تکونی گنبد نما ہو تا ہے جس کے درمیان میں آسمان کی طرف کھلتا ایک روشن دان ہوتا ہے جس سے سورج کی روشنی اندر آتی ہے، اور گھر سے اُٹھتا دھواں باہر کو نکلتا ہے۔

اس مکان کے اندرونی حصے کے دونوں اطراف میں خوبانی ، اخروٹ، توت یا بیر کی قیمتی لکڑی کے موٹے موٹے چھ فٹ لمبے چوکور شکل کے چار ستون ہوتے ہیں ، جن کے اوپر پچیس پچیس فٹ لمبے شہتیر رکھے جاتے ہیں۔ یہ ستون اور شہتیر مل کر گھر کی چھت کو سہارا دیتے ہیں۔ ستونوں پر بڑی خوبصورتی اور عمدگی کے ساتھ نقش کاری یا کندہ کاری کا کام کیا جاتاہے۔ مکان کے پانچ حصے ہو تے ہیں درمیانی حصہ جو گنبد نما حصے کے عین نیچے ہوتا ہے بروشاسکی میں فیچ کہلاتا ہے۔ اس کے مرکز میں آ گ جلانے کیلئے دیسی چولہا ہو تاتھا لیکن آجکل اسکی جگہ لوہے کی بخاری یا انگیٹھی استعمال کیا جاتاہے یہ مکان بیٹھک کا کام بھی دیتا ہے سردیوں میں آگ جلا کر اس کے ارد گرد بیٹھ کر دیر تک گپ شپ لگانے کا اپنا ایک مزہ ہے۔ستار بجانا عام مشغلہ ہے جس میں لوک دھنیں بجائی جاتی ہیں۔

بیٹھک نما حصہ کے دونوں ا طراف سونے اور زیادہ لوگوں کی گھر کے اندر موجودگی کی صورت میں بیٹھنے اور کھانے کیلئے مختص ہیں۔ گھر کے اس حصے کو بروشاسکی میں مناشکو کہا جاتاہے۔ گھر کے ایک اور حصے میں عام طورپر لکڑی کے پلنگ نما تختے ہو تے ہیں جن کے اوپری حصے میں برتن رکھے جاتے ہیں۔ اس حصے کو ہشتک کہتے ہیں اس کی دیوار کے ساتھ لکڑی کی خوب صورت الماریاں بنا کر گھریلو برتن اوراشیاء خوردنی رکھے جاتے ہیں۔ پانچواں حصہ آنگن (ھے قا ئے) کہلاتا ہے جو دروازے کی طرف ہوتا ہے جہاں سے گھر میں داخل ہوتے ہیں اس حصے میں جلانے کی لکڑی وغیرہ اور جوتے اتار کے رکھے جاتے ہیں ۔ اور چھٹا حصہ جو کہ سب سے چھوٹا لیکن نہایت اہم تھا وہ ہشتک کا ایک کونا جو کہ مکان کے داہنے جانب تھا نماز کے لئے مخصوص تھا جس کو اب بھی نیمی جینی من یعنی نماز کی جگہ کہا جاتاہے ، میری دادی اماں بھی اسی جگہ بیٹھ کر نماز پڑھتی تھیں ۔ ہر دیسی گھر کے سا تھ ہشتک سے جڑا ایک مکان اسی گھر کی طرز کا لیکن ذرا چھوٹا سا ضرور تعمیر کیا جاتا جس کو یاسین کی بروشاسکی میں اولہا ( اندرونی گھر) کہا جاتا ہے جو ایک بڑے سٹور کا کام دیتا ہے۔ گھر کے استعمال کی تمام فالتو چیزے اور ذخیرہ اسی مکان میں محفوظ کیا جاتا ہے اور شادی بیاہ یا موت کے اوقات کار میں یہ حصہ کچن کا کام دیتا ہے۔

 اخروٹ ، خو بانی اور توت کی لکڑی سے برتن ، اور سامان آرائش کے علاوہ خوبصورت فرنیچر بھی بنائیے جاتے ہیں ۔ عمارتی لکڑی کے طور پر بھی اخروٹ ، توت ا ور خوبانی ، بید،بیر اور سفیدہ (پاپولر)کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے۔جسے ہر شخص اپنے زمینوں میں پودے لگا کر حاصل کرتاہے ۔ جلانے کی لکڑی جنگلات نہ ہو نے کی وجہ سے آج کل انتہائی مہنگا ہے۔مگر جس کا اپنا جنگل یا درخت وافر مقدار میں ہیں تو اس کیلئے کوئی مسلہ نہیں ہے بصورت دیگر دور دراز نالوں میں جاکر نہایت مشقت سے لایا جاتا ہے ۔یہاں کے لوگ نہایت سادہ لیکن محنتی اور جفا کش تھے مگر آج کل محنت سے جی چرایا جاتا ہے تعلیم کی آج بھی کمی ہے لیکن قناعت پسند ہیں زندگی نہایت سادہ گذارتے ہیں اور صیحح اسلامی اقدار کے مطابق زندگی گذارتے ہیں لوگوں کی لباس نہایت سادہ ہے خاص کر عورتوں کی قمیض جو عر بیوں کی توپ کی طرح لمبے لمبے ہو تے تھے اور پانچ گز کا قمیض بنایا جاتاتھا مگر آج کل رائج لوقت لباس کا رواج عام ہے ۔ لوگ بڑے حقیقت پسند اور خدا ترس ہیں۔بغض اور دشمنی کم رکھتے ہیں بلکہ دشمنی جانتے ہی نہیں ، اس علاقے میں قتل اور چوری نہ ہو نے کے برابر ہے چند سال پہلے تک کسی کی قتل کا سن کر ششدر رہ جاتے تھے مگر آ ج کے میڈیا بہادر نے لوگو ں کو اس لعنت سے آشنا کردیا ہے۔

یہاں کے لوگوں کی بہادری کی داستانے سب ہی جانتے ہیں ۔ لوگوں کی طبیت مارشل قسم کی ہے ۔ اس لئے شروٹ شکئیوٹ کا معرکہ ہو یا بھوب سنگھ پڑی کا ، جنگ آزادی ۱۹۴۷ء ،۴۸یا پاک بھارت کا جنگ ستمبر ۱۹۶۵ء ہو ، جنگ ۱۹۷۱ء ہو یا کارگل کا معرکہ ہر ایک میں یاسین کے لوگوں نے بہادری کے جھنڈے گاڑھ دیے ہیں اور آج بھی ان کی ایک بہت بڑی تعداد پاک فوج میں شامل ہے۔گلگت بلتستان کے دوسرے علاقوں کی طرح یہاں کے لوگ بھی پسماندہ ہیں یاسین میں۱۹۶۸ء تک راجگی نظام تھا لیکن راجہ محبوب ولی خان کے وفات کے بعد یسن والوں نے راجگی نظام کو مسترد کیا اور چھ مہینے تک نوح پل پر ہتھیاروں سے لیس ہو کر راجگی نظام کی بحالی کی کوششوں کو روکے رکھا۔ با لاخرحکومت نے پہلا تحصلدار نامزد کیا اور راجگی نظام ختم ہوا لیکن قوانین ا یف سی ار کی ۱۹۷۳ء  تک جاری تھیں جو کہ ذلفقار علی بھٹو نے ختم کیا مگر راجگی نظام یسن میں۱۹۶۸ء  میں یسن والوں کی اپنی کوشش سے ختم کیا گیا تھا ۔لیکن اس کے بعد بھی اس علاقے کو نظر انداز کیا گیا اور ضیاالحق نے اپنے دور میں اس علاقے پر اپنے تعصبانہ ظلم کی انتہا کیا ا ور اس علاقے کی لمبے عرصے سے قائم ضلعی حیثیت کو ختم کر کے اس ضلع گلگت میں شامل کریا۔ دوبارہ بے نظیر دور میں ضلعی حیثیت کو بحال کیا گیا ۔

لیکن مشرف دور میں اس علاقے میں خاص کر اور شمالی علاقہ جات میں بل عموم جو ترقیاتی کام ہوے یہ تو ایک ریکارڈ ہے اگر مشرف نہ ہو تا تو شاید آج بھی یسن تک پکی سڑک تو درکنا ر کچھ بھی کام ترقی کے نام سے ہو نا نا ممکن تھا ۔

یاسین میں زیادہ تر سکول آغاخان ڈائمنڈ جوبلی سکول ہیں جو کہ آغا خان ایجوکیشن سروسز کے ماتحت چلائے جاتے ہیں اور صیحت کے ادارے بھی اے کے ڈی این کے ماتحت آغاخان ہلتھ سنٹر کے نام سے قائم ہیں ، اس وقت بہت سے پرائیویٹ سکول اور کالج بھی ہیں

حکومت کے ادارے بہت کم تھے لیکن مشرف کی حکومت کی کوششوں سے سکول، سڑکیں ، پینے کا صاف پانی، ہسپتال، ڈسپنسریاں ، لنک روڈ، کالج اور اس طرح جو کچھ موجودہ حکومت کے دور میںیسن میں ہوا ہے کسی اور دور میں ناممکن ہے۔ یسن میں آ ج تک حکومت کی طرف سے ایک بھی سکول طالبات کیلئے قائم نہیں کیا گیاہے یہ شکر ہے کہ آ غاخان صاحب کی مہربانی سے یہاں کی بچیاں کم از کم مڈل اور میٹرک تک تعلیم حاصل کرسکتی ہیں جو ہر گاوں میں ایک مڈل سکول قائم کیا گیاہے ایک ہائی سکول سنٹر یسن میں بھی قائم کیا گیا ہے اسکے علاوہ تین کمیونیٹی سکولوں کوبھی تعاون حاصل ہے اور کل تقریباََ۲۴ ڈی جے سکول قائم ہیں اسکے علاوہ پرائیویٹ سکول اور کالج بھی قائم کئے گئے ہیں۔

مشہور فصلیں:

یسن اپنے گندم کی پیداوار کیلئے تو مشہور ہے ہی مگر یہاں جو، مکئی، باقلہ، باجرہ، دال مسور، مٹر (گھرک) اور دال لوبیہ، وغیرہ کی فصلیں ہو تی ہیں،

میوہ پھل (فروٹ) : پھلوں میں خوبانی،سیب، آڈو، ناشپاتی، بادام، آلوبخارہ،اخروٹ ، گلاس(چیری) توت،شہتوت، بیر،خربوزہ، تربوزہ،وغیرہ کثرت سے پیدا ہو تا ہےآج کل سٹرابھری بھی کاشت کیا جاتا ہے

Khobani
خوبانی تیار ہے

سبزیاں : سبزیوں میں یہاں گوبھی،گاجر شلجم ، کدو، پالک، سلاد پتہ جو کہ انتہائی لذیز ہوتاہے، مٹر،آلو، لوبیہ ( جب کچا ہوتا ہے چھلکے کے ساتھ سبزی کے طور پکایا جاتاہے) کے علاوہ مقامی سبزی حزگار،سوانچل ، بارجو ہوئی، اشکرکا ،ہونیمینازیکی، فلیچی، بلغار، اشپتنگ، شفتل، شوٹا وغیرہ جبکہ بعض جگہوں میں سرسوں وغیرہ بھی کثرت سے پیدا ہو تا ہے۔ سردیوں میں استعمال کیلئے سبزی کو خشک کر کے رکھا جاتا ہے

شکار : شکار میں مارخور، ہڑیال، چیتا،چکور، رام چکور ، مرغا بیاں اور موسمی فاختوں کا شکار کیا جاتا تھا لیکن اب بہت کم ہے۔ اسکے علاوہ مچھلی کا شکار بڑے شوق سے کیا جاتاہے۔ یہاں بھی ٹراوٹ مچھلی مشہور ہے چونکہ اس مچھلی کا گوشت لذیز ہونے کے علاوہ اس میں دوسرے مچھلیوں کی طرح کانٹے نہیں ہوتے ہیں۔اس مچھلی کی نسل کو انگریزوں نے کشمیر سے لاکر پھنڈر میں اس کی افزائش نسل کیا تھا جو اب پھیل کر پورے ضلع غذر کے دریاوں میں ملتاہے۔

تہوار:

یاسین میں مختلف قسم کے تہوار اور مذہبی تہوار منائے جاتے ہیں مثلاََ دو عیدین کے علاوہ بہت سے لوکل رسوم ورواج ہیں جو تہوارکے طور پو منائے جاتے ہیں جو کہ مندر جہ ذیل ہیں۔

نمبر ۱ :سالغرک

یہ ایک چھوٹا لیکن دلچسپ رسم ہے اورفروری کی کسی تار یخ کو دیسی سالوں کا نیا سال شروع ہو تا ہے اور اس روز دیسی حلوہ یعنی مکوتی (درم) پکایا جاتاہے ۔ اس روز تھوڑا سا مکو تی لے کر عورتیں بچیاں بھیڑ بکریو ں کے پاس جاکر تھوڑہ سا ان کو کھلا کر یہ چیک کرتی ہیں کہ کتنی بکریا ں اس سال بچے جنم دینگی۔ اسی روز مرد حضرات ہل،بلچہ، گنتی اور دوسرے اوزاروں کیلئے دستے درختوں سے کاٹ کر گھر لا کر مکان کے چھت کے ساتھ بنے ہو ے جگہ پر رکھتے ہیں تاکہ موسم بہار تک سُکھا کر استعما ل کے قابل بنایا جاسکے۔

نمبر۲: تھمو بو(راجہ کی رسم تخم ریزی ) جشن بہاراں

چونکہ سردیوں میں عام طور پر زمینداری کا کام بند ہو تا ہے۔ اسلئے تخم ریزی کی رسم بہت اہمیت اختیار کرجاتی تھی۔ پرانے زمانوں میں لاقے کا راجہ تخم ریزی کی رسم کا اہتمام کر تے تھے۔ علاقے کے تمام لوگوں کو اطلاع دے کر اکٹھا کیا جاتا تھا اور راجہ خود یا کوئی بزرگ معتبر ہل چلاتا اور راجہ گندم کابیج بو تااور اس طریقے سے نئے سرے سے نئے سال کے کام کا آغاز کیا جاتا اور اس رسم کو ایک نیک شگون سمجھا جا تا تھا۔ عموما تخم ریزی کی رسم میں شامل ہونے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہو جاتے تھے اور اجتماعی طور پر دعا ئے خیر کیا جاتا اور ناچ ، رقص وغیرہ پیش کیا جا تا اور مختلف کھیلیں ، پولو ، رسہ کشی، دھپ (فٹبال) اور کشتی وغیرہ کے مقابلہ ہو تے، اورپھر اس روز تمام پولو کے کھلاڑی اپنے اپنے گھوڑے کس کر آجاتے اور گھڑسواری اور گھوڑوں کی لانگ اور ہائی جمپ کا مقابلہ کرایا جاتا۔ راجہ کی طرف سے کھانے پینے کا بھی بندوبست ہو تا اور سہ پہر کو پولو کھیلنے سے پہلے ایک رسم شوارن دیخرچُم کا ادا کیا جاتا۔

اس رسم کا افتاع اس تخم ریزی کا جو ، رسم ہے یہ بہت قدیم ہے کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں جب بروشال حکومت تھی تو یہ زمانہ ایک قیاس کے مطابق قبل مسیح کا زمانہ تھا اور زمینداری کا کام دسمبر کے ماہ میں دشٹی، (نسالو) دیشکی (آٹے کا ذخیرہ) اور پھر فوتو اہویاچوم کے ساتھ سردی کی بنا پر ختم کیا جاتا تھا کسی قسم کا زمینداری کا کام نہیں ھو سکتا تھا۔ اب بھی یہی حال ہے۔ اس وقت کے رسم رواج کے مطابق نیک شگون کے طور پر اس رسم کو منایا جاتا تھا شاید یہ رسم تیلی تی تھم اور ایش تھم کے زمانے سے یا اس سے بھی پہلے سے رائج ہو لیکن جیسا کہ تخم ریزی کا اٖفتتاح جس رسم سے کیا جاتا رہا ہے یہ آج بھی کیا جاتاہے اس کو ہیماز کہا جاتا ہے اور اس کے الفاظ اس طریقے سے شروع کیا جاتا ہے۔
تیلی تی تھمے بو ینی می ،
ایش تھمے بو غاییا دوسی می ،
ایش ببلی گازے غیند یشے حشھ نل نییا اسکل چے دییمو،

ترجمہ( تیلی تی تھم راجہ نے رسم تخم ریزی ادا کیا اورعیشتھم راجہ نے اس کا نظا رہ کیا اور اعیش ببلی گازشہزادی ھل اور نل ( جو بیلوں کو جوتا جاتا ہے ) لے کر ان کے سا منے نکلی،

قبل مسیح سے یہ رسم چلا آرہا ہے اور یاسین میں راجگی نظام کی خاتمے کے با وجود بھی یہ رسم راجہ جہانذیب کی سرکردگی میں ادا کیا جاتا ہے ۔ ہیماز کے موجودہ بول کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ یہ یاسین کے برو شاسکی بولنے والے راجے تھے اور تیلی تی تھم نے عیش تھم کی بیٹی عیش بوبلی گاز کی جوانی اور خو بصورتی کے بارے میں سنا ،یا دیکھا تو اس نے اپنے لئے رشتہ لینے کے لئے کسی کو بیجا ااور عیش تھم نے پہلی دفعہ تو انکا ر کیا اور پھر اپنے معتبرین سے اور اپنے اہل و عیال سے مشورہ کے بعد جب بار دیگر تیلی تی تھم کی جانب سے پیغام آیا تو آعیش تھم نے کہا کہ ٹھیک ہے ہمیں یہ رشتہ منظور ہے لیکن تخم ریزی یا آج کے زمانے کے مطابق جشن بہاراں کے بعد یہ رشتہ طے ہوگا ، تو کہتے ہیں کہ تیلی تی تھم سے صبر نہ ہو سکا اور ماہ جنوری میں جو کہ یہاں کا سرد ترین مہینہ ہے راجہ کی تخم ریزی کی رسم یا تھمو بو یا یوم کے رسم کو ادا کیا تو آج بھی اسی نسبت سے یاسین میں ماہ جنوری کو تھم بو کُس کہا جاتا ہے یعنی راجوں کی تخم ریزی کا مہینہ ، تو رسم تخم ریزی کے موقع پر یہ بول اد ا کر دیا گیا تھا اور آج بھی یہ بول یا الفاظ ادا کر کے رسم تخم ریزی ادا کیا جاتا ہے۔

تختو ختان ’’اجارو ( ہیماز)‘‘ :

تختو ختان منیچ یاسین میں یاسین کا ایک روایتی لیکن بہت بڑا دیسی گھر ہے اس گھر کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی راجے کی ملکیت تھی اور اس گھر میں اس راجہ کی تخت نشینی کیا گیا تھا جی کی وجہ سے اس گھر کو تختو ختان کہا جاتا ہے ، ختان کھوار زبان میں گھر کہ کہا جاتا ہے ،اس گھر میں سب لوگ جمع ہوتے ہیں اور پھر گھر کا مالک کو ایک دلہا کی طرح سجایا جاتا ہے پھر وہ خشک کانٹوں اور سرو کے درخت کے خشک پتوں یا ٹہنیوں کی ایک بڑ ا ،الاؤ جلاتا ہے اور پھر ہیماز کرتا ہے یہ ایک نیک شگون کی طور پر جانا جاتاہے اس ہیماز میں راجوں کے سامنے راجوں کی زوال کی اور پیروں کی دور دورہ کی دعا مانگی جاتی تھی اور انتہائی باریک پسی ہوئی آٹا اس آگ کے الاؤ پر اس طرح پھینکا جاتا ہے کے یہ آگ پگڑ کر ایک نیم دائرے میں آگ کا ایک بگولا بن کر مکان کے چھت سے ٹکراکر چھت والے روشندان سے باہر نکلتا ہے اس رسم کے بعد کچھ کھانا وغیرہ ہو تا ہے پھر اجارو لے کر نکلتے ہیں اور لوگ لکڑی کے باریک لمبے لمبے بہت سارا لکڑی کے ٹکڑوں کو آگ جلا کر ہاتھ میں اٹھاتے ہیں

AJARO (HEAMZ)
’’تختو ختان کا مالک (دلم خان ولد محمد نگین )آگ کا الاؤ ( اجارو)سلگا کر ہیماز کی تیاری کررہا ہے ‘‘

اور پھر قلعہ یعنی راجہ کے گھر کی طرف ایک خاصا فاصلہ پیدل چل کر جاتے ہیں اور گھڑ سوار ایک جلوس کی صورت میں روشانوٹ ( راجہ کے گھر ) پہنچتے ہیں، جہاں دیر تک رقص کی محفل جم جاتی ہے، اور پھر محفل برخاست ہو تا ہے

AJARO K BAD
’’ اجارو ،، میں لکڑی کا چراغ یعنی دؤ یا گریکی لے کر تختو ختان سے نکل کر راجہ کے گھر کی طرف جاتے ہوے‘‘

شوارن دیخر چُم(پولو گراونڈ کو چیرنا) جو کہ ایک خطر ناک مہم تصو ر کیا جاتا تھا کیو نکہ لوگوں کو یہ باور تھا کہ سردیو ں میں پولو نہیں کھیلا جاتا تھا اور اس لئے پولو گراونڈ میں پریوں کا مسکن ہوتا تھا تو یہ رسُم سے ان پریوں وغیرہ کو وہاں سے ہٹایا جاتاتھااور ہو تایو ں تھاکہ کسی ایک نمبردار کو راجہ کا حکم پہلے ہی مل چکا ہوتا تھا کہ اس نے تھمو بو یایُم کے مو قے پر شوارن دیخرچُم کرنا ہے تو وہ نیک شگون کے تحت گھر سے نکلتے وقت اس کے گھر کا کوئی بزرگ قرآن پاک کوپھتک کے اوپر رکھ کر ہاتھ میں لے کردروازے پر کھڑا ہو تا اور نمبردار جھک کر قرآن کو

RAJA JAHAN ZEB SHAWARAN DEKHARCCHUM KI TYARI MAY NUMBERDAR K SATH
( راجہ جہان ذیب درمیان میں اور بائیں طرف نمبر دار پیر ولی ( بولی جان) پکڑی باندھے چپن پہن کر شوارن دیخرچم کے لئے تیا ر ہے اور دائیں جانب نمبردار کریم خان نظر آرہے ہیں ( مہتری بی گنیک یعنی موسم بہار کی جشن کا آغاز))
نمبردار پولوگراونڈ کو پریوں وغیرہ سے آزاد کرانے کے لیے جینالی ترچک یعنی شواران دیخرچم کے لئے تیا ر ہے، 
نمبردار پولوگراونڈ کو پریوں وغیرہ سے آزاد کرانے کے لیے جینالی ترچک یعنی شواران دیخرچم کے لئے تیا ر ہے

چوم کر آنکھوں سے لگا لیتا اوروہ بزرگ گندم کے آٹے کی ایک چٹکی اس کے کاندے پر رکھتا اور خدا کے حوالے جیسے دعائیہ کلمات کے ساتھ رخصت کرتا تھا اور پھر سہ پہر کو پولو کھیل شروع ہونے سے قبل راجہ اس نمبر دار کو ایک دلہا کی طرح نئے سفید کپڑے پہناتا ، سر پر پگڑی باندھتا ، نئے بوٹ پہناتا اور ایک خوبصورت قسم کا ریشمی جومو(چپن) یعنی چوغہ پہناتا اور پھر اس نمبردار کی مرضی ہوتی وہ دوڑانے کیلئے جس گھوڑے کو پسند کرتا چن لیتا مگر اس کے مالک کا جرات نہ ہو تا کہ وہ نہ کر ے پھر راجہ سے اجاذت لیکر راجے کا احتراماََ ہاتھ چومتااور وہ دلہا (نمبردار) اس گھوڑے پر سوار ہوتا سب لوگ انتہائی انہماک سے اور بڑی خاموشی سے انتظار کرتے اور نمبردار بسم اللہ پڑھ کر گھوڑے کو

SHWARAN DEKHARCHUMBY
شواران دیخرچم ( پولوگراونڈ کو چیرنا)

ایڑ لگاتا ، چابک کو لہراتا اور اسپ کو دونوں اطراف سے چابک مارتا انتہائی تیزرفتاری سے گراونڈ کے دوسرے کنارے پہنچ جاتا ہے، اور پھر اسی رفتار سے گھوڑے کو دوڑاتا ہوا واپس راجے کے نزدیک آکر اتر جاتاہے۔ جس کے بعد ہر طرف سے مبارک سلامت کی آوازیں گونجتی اور اس نمبردار کے رشتہ داروں کو بھی مبارکبادی دیا جاتا اور وہ خوشی سے جھومتے ہیں۔

YASEEN POLO

پھر پولو کھیلا جاتا اور شام کو تختو ختان یعنی تخت کی گھر میں رسم ہیماز اد کیا جاتا۔

اس رات کو روشنی کے مشعل بھی جلائے جاتے ہیں، اور  ان مشعلوں سمیت یاسین کا تقریباََ چکر لگایا جاتا ہے اور بالاخر یہ رسم اختتام پزیر ہوتا اورلوگ راجہ کی طرف سے دیا گیا کھانا کھا کر اپنے گھروں کی راہ لیتے ہیں۔ (جاری ہے۔۔۔۔۔)

 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button