کالمز

قصور کس کا؟

قصور کی ایک کہانی ہے اور قصور ملک پاکستان کا ایک شہر ہے   قصور کی بات ہورہی ہے تو قصور کس کا ہے  ۔اس کا جس نے شہر کا نام قصور رکھا ہے یا شہر قصور کا کہ قصور میں رہتے ہوئے ایک ماں  کو پھر قصور میں دفن ہونے پر مجبور کر دیاگیا۔قصور تو پھر قصور ہے   قصور ہو ہی جاتا ہے لیکن اس قصور کو ایک واقعہ سمجھ کر نظر انداز کیا جائے تو شائد یہ بہت بڑا قصور ہے اور اس سے بھی بڑا قصور یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری کوئی قبول نہ کرے۔۔یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی کے ساتھ موت بھی ہے اور زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ  میں ہے۔ اس  فانی دنیا سے سب نے جانا ہے یہاں تک تو کسی کا قصور نہیں   کیونکہ یہ قانون قدرت ہے۔ لیکن اس قانون قدرت  کو جب کوئی انسان  توڑ دیتا ہے اور خود کو موت کی آغوش میں  پناہ لینے کی کوشش  یا چلا جاتا  ہے  تو اس کا قصور کس کے سر ڈالا جائیگا۔مرنے والے کے سر یا  اس معاشرے میں رہنے والوں  کے جنہوں نے اس مرنے والے کو اس مقام تک پہنچایا۔واقعات کے مطابق  عید کے لئے بچوں کو  نئے کپڑے خرید کر  دینے کی مالی سکت  نہ رکھنے والی ماں  روتے چلاتے بچوں کو نہ دیکھ سکی  اور دلبرداشتہ ہوکر  اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا ۔یہ خاتون موضع لاکھو کی رہنے والی تھی  اس جواں سالہ خاتون جس کا نام ریحانہ  تھا شادی کے بعد  اس کا ہاں دو بچوں کی پیدائش ہوئی  مگر اس کا خاوند ایک حادثے میں معذور ہوگیا  جس کے بعد بد قسمتی نے اس کے گھر میں ڈیرے ڈال لئے اس ناگہانی مصیبت  سے نبٹنے اور اس کی گزر اوقات کے لئے اس کے والدین  کھانے کی اشیا اور کچھ  تھوڑی بہت نقدی دیتے رہتے تھے لیکن بیٹی اور بیٹے کو تعلیم نہ دلوا سکے ۔حالیہ دنوں   میں جب بچے عید کے لئے نئے کپڑوں کی ضد کرتے چلے آرہے تھے  تو خاتون نے کسی نہ کسی طرح ان کو بہلانے کی کوشش کی اور بہلاتی رہی لیکن عید سے ایک دن پہلے  محلے کے دیگر بچوں  کی خریداری دیکھ کر  جب اس خاتون(ریحانہ) کے  بچوں کی ضد میں اضافہ ہوا   اور  مسلسل رونے اور ضد کرنے لگے تو  بے بس  ریحانہ نے زہریلی گولیاں  کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ۔ماں نے جان تو دے دی مگر  بچوں کے کپڑوں کا پھر بھی بندوبست نہ ہوسکا۔بچوں کے لئے جینے والی ماں  کو بچوں کی ضد نے مارڈالا یا  بے حس معاشرے نے یا  حکومت وقت اور ظالم نظام نے؟

ماں آخر ماں ہوتی ہے اور ماںمجبور ہو تو اس کے لئے اور کیا رہ جاتا ہے بس اس کے سوا کہ وہ اپنے بچوں پہ جاں نچھاور کرے  ۔کیا اس ماں کے لئے اس بے حس معاشرے میں ایسا کرنے کے سوا کچھ باقی رہ گیا تھا ۔کیا یہ اس معاشرے کا قصور ہے جس معاشرے کے ہم فرد ہیں؟ اور کیا یہ معاشرہ خود سے ایسا کرسکتا تھا ؟بلکل نہیں ۔یہ ہم ہی لوگ ہیں جنہوں نے اس ماں کو اس مقام تک پہنچایا۔۔۔جو انسانیت کا درس دیتے نہیں  تھکتے اور اپنے بچوں کے ساتھ دوستوں کے ساتھ اور عزیز و اقارب کے ساتھ قسم بہ قسم کے لوازمات ترتیب دیکر سیلیفیاں بنا بنا کر اور  اور ایک ہزار کا نوٹ کسی کو دیتے ہوئے مختلف زاویوں سے تصاویر کھینچ کر  سمجھتے ہیں کہ بس ملک سے غربت کا خاتمہ ہوا ہے۔۔۔ذرا سوچئے اس بارے  ۔۔۔قصور کس کا ہے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button