کالمز

کس سے منصفی چاہئیں۔؟

کہتے ہیں جمہوری نظام میں حکومت قوم کے مفاد میں تمام مصلحتوں سے بالا تر ہور کر عوامی دکھ درد کا خیال رکھتے ہیں اسی لئے عوام اور حکومت کا جو ایک رشتہ ہے جسے چولی دامن کہا جاتا ہے ۔ کسی بھی ملک یا خطے کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام میں اعتماد پیداکرنے کیلئے عوام اور حکومت کے درمیانی رشتے کو مضبوط تر بنائیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں چونکہ گنگا جس طرح نظام زندگی کے دوسرے معاملات میں الٹی بہتی ہے بلکل یہی مسلہ سیاست کے ساتھ بھی ہے۔ سیاست دانوں کی کامیابی کا راز جمہور سے ذیادہ چمچے ہوتے ہیں جو عوام کو جھوٹے جھانسے اور مکر فریب کے ذریعے ایک پھنسایا جاتا ہے جسے ہمارے ہاں الیکشن کہتے ہیں ۔ یوں جب سیاست دان جمہور سے ذیادہ چمچہ گیری اور جھوٹ فریب کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرکے ایوان اقتدار کے مکین بنتے ہیں یقینی طور پرجمہور سے ذیادہ اپنے حواریوں کو خوش کرنا مقصود ہوتا ہے، جس کیلئے ہمارے ہاں ایک بہترین تخفہ مخصوص سرکاری فنڈز ہیں جسے عوامی نمائندکہلانے والے نام نہاد لو گ دوستی ،چمچہ گیری کے عوض بانٹتے ہیں۔ آج اسیحوالے سے ایک عوامی مقدمہ اس امید کے ساتھ پرنٹ میڈیا کی وساطت سے تخت گلگت کے مکینوں کی نذر کرنا چاہوں گا ۔ وزیر اعلیٰ چونکہ ریاست کا سربراہ ہے اور انکا کہنا ہے کہ وہ تمام اخبارات کا باقاعدہ مطالعہ کرتے ہیں اور مسائل کی نشاندہی کرنے پر بروقت ازالہ کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، تو جناب حافظ صاحب بڑے ادب و احترام اور اس احساس کے ساتھ کہ آپکے پاس وقت کی بہت کمی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے وقت کی ضیاع کو بچانے کیلئے تمام وزراء پارلیمانی سکریٹریزاور ممبران کونسل کو ہدایت جاری کی ہے کہ ملاقات کیلئے ایک دن پہلے وزیر اعلیٰ سیکٹرٹریٹ سے اجازت نامہ اور وقت مانگاجائے۔ لیکن اس بحیثیت عوام اس امید کے ساتھ آپکی توجہ ضلع کھرمنگ موضع منٹھوکھا کے مسائل کی طرف دلانا چاہوں گا۔ جناب عالی ویسے تو یہ ایک چھوٹا مسلہ ہے مگر اس مسلے کے پیچھے سیاست دانوں کی من مانی ، ادارے کی نااہلی اور ادارے میں کام کرنے والے نچلی سطح کے ملازمین کی کرپشن کہانی چھپی ہوئی ہے۔جناب حافظ صاحب المیہ یہ ہے کہ ایک معمولی سی عوامی مسائل کیلئے راقم نے ذاتی طور سپیکر ناشاد،وزیرتعمیرات ڈاکٹر اقبال،ڈی سی کھرمنگ، چیف انجینئر،کمشنر بلتستان سے لیکر لوکل افسران تک کے دروازوں کو کھٹکھٹایا لیکن جب رہنما ہی رہزنی کرنے والوں کی معاونت کرے توعام آدمی کی فریاد کون سُنے؟۔ یوں لگتا ہے کہ یہاں کام کروانے کیلئے پارٹی کا بندہ یا کرپشن میں تجربہ ہونا ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے راقم ان دونوں کاموں کیلئے ان فٹ ہوں۔عرض یہ ہے کہ محکمہ پی ڈبلیو ڈی اور پی ایچ ای کے تحت ایک واٹر شیڈ پروگرام منٹھوکھا ندی ڈسٹرک کھرمنگ بلتستان میں منظور ہوا لیکن اس واٹر شید کی تعمیر کیلئے سرکاری قواعد ضوابط اور عوامی ضرروریات کو پس پشت ڈال کر مکمل سیاسی بنیاد وں پر کچھ عناصر نے سپیکر ناشاد کی ملی بھگت سے متاثرہ مقامات کو نظرانداز کرکے سرکاری پیسوں کو ذاتی مفاد کیلئے ہدیہ سمجھ کر استعمال کیا۔یوں متاثرہ کاشتکاران منٹھوکھا چھلونگ کا شک یقین میں بدل دیا کہ یہاں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا قانون چلتا ہے۔اس بات کو تو ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ کہ ہمارے خطے میں قانون کا نفاذ ایک مذاق سے کم نہیں لیکن پھر بھی جس نظام کے تحت معاشرہ کام کرتا ہے کم از کم کچھ تو عوام کومعلوم ہونا چاہئے کہ یہاں حکومت نامی کوئی چیز وجود بھی رکھتی ہے۔ حافظ صاحب منٹھوکھا آبشار سے تا لب دریا ئے سندھ چار کلو میٹر پر محیط اس ندی پر گزشتہ دہائیوں سے واٹر شیڈ کی تعمیر کے نام پر سرکاری اور غیر سرکاری فنڈز کی بندر بانٹ ہورہی ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ۔یہ مقام چونکہ سیاحت کے حوالے سے بھی ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں اور پاکستان بھر سے لوگ گرمیوں کے موسم میں یہاں سیاحت کی غرض سے آتے ہیں یہ الگ بحث ہے کہ محکمہ سیاحت کی نااہلی کے سبب مقامی لوگوں اور معاشرے پر اس حوالے سے کس طرح کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔لیکن اگر اس ندی کے اطراف ایک جامع پالیسی کے تحت حفاظتی واٹر شیڈ لگائیں تو یہاں زراعت اور فروٹ نرسری اور فیشنگ کے حوالے سے کثیر ذرائع موجود ہیں مگر کچھ افراد کیلئے چونکہ اس ندی پر گرمیوں کے موسم میں طوفانی طغیان کا آنا ایک نعمت سے کم نہیں لہذا عوامی املاک اور زرعی زمینیں پانی برد ہونے پر شادیانے بجانایہاں ایک عام سی بات ہے کیونکہ انہی افراد کیلئے یہ ندی ایک فکس ڈپازٹ پروجیکٹ کی طرح ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس ندی کے کاشتکار ہر سال محنت کرکے سیلاب زدہ زمینوں کو بحال کرتے ہیں اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے سرکاری فنڈز کا دکھاوے کیلئے استعمال کرکے گرمیوں کے سیزن ساری زمینیں پھر زیر آب آجاتی ہے۔ لہذا گزارش ہے کہ حالیہ پروجیکٹ کے حوالے سے متاثریں کے خدشات اور شکایات کے پیش نظر بے ضابطگیوں کے حوالے سے ذمہ دارن سے انکوائری کیاجائے ۔اوراس ندی پر گزشتہ بیس سالوں میں خرچ ہونے سرکاری اور غیر سرکاری فنڈز میں کرپشن کے حوالے سے محکمہ نیپ کے ذریعے تحقیقات کرائیں اورسرکاری خزانے کو ذاتی مفاد کیلئے استعمال کرنے والوں اور عوامی نمائندے سے پوچھا جائے کہ کیا سرکاری فنڈز صرف چند افراد کیلئے مختص ہیں یا سرکاری پروجیکٹ عوامی فلاح پر خرچہ کرنا اور اس حوالے سے دیانتداری کے ساتھ فرائض کی انجام دہی بھی محکمہ پی ڈبیلو ڈی کے افسران کی ذمہ داریوں میں شاملہیں۔ کیونکہ موجودہ صورت حال میں ایسا لگتا ہے کہ یہاں ذمہ دار افسران اپنی ذمہ داریوں کو سیاسی اثررسوخ اور دوستی دشمنی کی بنیاد پر نبا رہے ہیں۔ایسے میں عوام کسے وکیل کریں اور کس سے منصفی چاہئیں ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button