کالمز

جشن شندور پھر متنازعہ

کریم اللہ

جشن شندور کی تاریخوں میں ایک مرتبہ پھر تبدیلی کی گئی یہ تیسرا موقع ہے کہ اس جشن کی تاریخوں میں ردوبدل کیاگیا ذرائع ابلاع میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق 29 ،30اور 31 جولائی کو جشن شندور منعقد کیاجائے گاسال روان کا یہ تیسرا موقع ہے جبکہ جشن شندور کی تاریخوں میں مسلسل ردوبدل کیاجارہاہے بارہ ہزارتین سوپچیس فٹ پر واقع دنیا کی بلند ترین پولوگراؤنڈ شندور میں روایتی طورپر ہرسال جولائی کے سات سے نو تاریخ تک تین روزہ جشن منعقد ہوتاتھا جس میں چترال اور گلگت بلتستان کی پولو ٹیمیں فری اسٹائل میچ کھیل کر قدیم روایات کو تازہ کرتے تھے جشن شندور میں صرف پولو کا کھیل ہی منعقد نہیں ہوتاتھا بلکہ دونوں خطوں کے موسیقار وں ، گلوکاروں اور فنکاروں کو بھی ایک اسٹیج میں آکر اپنے فن کا مظاہر ہ کرکے ادب وثقافت اور امن دوستی وبھائی چارگی کے فروع میں کردار اداکرنے کا بھی موقع ملتا تھا ،ساتھ ہی سولہ ہزار فٹ کی بلندی سے اڑان بھرنے والے ہواباز/پیراگلائیڈر بھی اس موقع پر دنیا کے سامنے اپنے فن وہمت کا مظاہرہ کرکے دادوصول کرتے تھے ۔ جبکہ رسی کشی، گدھا پولو اور رات کے وقت آتش بازی وموسیقی کی محفلیں جشن شندور کی رونق کو دوبالا کرنے میں کلیدی کردار اداکرتے تھے اس سارے تناظر میں اگر جشن شندور کو گلگت بلتستان اور چترال کی مشترکہ ثقافتی اقدارکا امین کہاجائے تو بے جانہ ہوگا کھیل کود، موسیقی، رقص وسرور کی محفلین دراصل مختلف پس منظر کے حامل افراد کو یکجاکرنے، بھائی چارگی اور امن پسندی کے فروع میں اہم کردار اداکرتے ہیں شندور کے بلندترین میدان میں ہرسال دونوں خطوں کے لاکھوں افراد جمع ہوکر بیرونی دنیا کو امن وآشتی اور بھائی چارگی کا پیغام دیتے ہیں لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران سیاست دانوں کی مداخلت کی بنا پر یہ عظیم ثقافتی ورثہ متنازعہ حیثیت اختیار کرگئی ہے پچھلے سال پہلے رمضان المبارک کی وجہ سے جشن شندور کی مقررہ تاریخ میں رد وبدل کیاگیا پھر چترال میں داخل ہونے والی خون آشام مون سون کی بارشوں نے جب ہر طرح تباہی پھیلا دی تو جشن شندور کو مکمل طورپر منسوخ کرنا پڑا اور اس سال امید یہ بنی تھی کہ جولائی کے دوسرے ہفتے جشن شندور کا انعقاد ہوگا اخباری رپورٹوں کے مطابق اس جشن کے لئے جولائی کے سترہ سے انیس تاریخ مقررکیاگیا تھاجسے بعد میں جولائی کے چوبیس سے چھبیس تاریخ میں تبدیل کیاگیا اب اطلاع آئی ہے کہ ان تاریخوں میں ایک مرتبہ پھر تبدیلی کرکے اب انتیس سے اکتیس جولائی کو جشن شندور منعقد ہوگا اس ساری صورتحال میں صوبائی حکومت اورضلعی انتظامیہ کی تذبذب نمایاں ہے حالانکہ اگر صوبائی حکومت اور وزارت کھیل وثقافت جشن شندور کے حوالے سے مخلص ہوتے تو رمضان المبارک میں اس سلسلے میں لائحہ عمل تیار کیاجا تا اور عید کے فوراََ بعد جشن شندور کا انعقاد کرتے لیکن لگتایوں ہے کہ نہ تو چترال سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندوں کو اس جشن کی کوئی فکر ہے اور نہ صوبائی حکومت اسے منعقد کرنے میں مخلص ہے ، جشن کی تاریخوں میں مسلسل تبدیلی اس امر کا واضح مظہر ہے۔

پہلے ہی خیبر پختونخواہ حکومت اور حکومت گلگت بلتستان کے درمیان گلگت کی اس جشن میں شرکت کے حوالے سے مزاکرات ہوئے لیکن حکومت گلگت بلتستان کی نمائندگی کرنے والی پارلیمانی سیکٹری فداخان فدا کی جانب سے بیان سامنے آیا کہ مطالبات منظور نہ ہونے کی وجہ سے جشن شندور کے حوالے سے جاری مزاکرات ناکام ہوگئے ہیں اور اب گلگت بلتستان علیٰحدہ سے شندور میں اپنا تین روزہ جشن منعقد کرے گی۔ ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ اس مزاکرات میں گلگت بلتستان کے کیامطالبات تھے البتہ ماضی میں یہ ہوتارہاہے کہ شندور کے زمین کی ملکیت سب سے اہم مسئلہ رہاہے اس کے علاوہ جشن شندور کے لئے جاری ہونے والی وفاقی فنڈ کو دوبرابر حصوں میں تقسیم کرکے ادھاحصہ گلگت بلتستان کی ٹیموں کو دینے ، شندور میں گلگت بلتستان کے گھوڑوں کے لئے اصطبل تعمیر کرنے اور گلگت بلتستان کے کھیلاڑیوں کے لئے بھی رہائش کا بندوبست کرنے کے مطالبات شامل تھے ۔دیکھاجائے تو ماسوائے شندور کے زمین کی ملکیت کے دعوے کے باقی مطالبات معقول ہے لیکن آفسوس ناک امر یہ ہے کہ جونہی جشن شندور کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہے ٹھیک اسی وقت حکومت گلگت بلتستان کی جانب سے شندور کی ملکیت کا تنازعہ کھڑا کرکے جشن شندور کو متنازعہ بنا کر اس اہم ثقافتی ورثے کو ناکام بناکے دم لیاجاتاہے ۔۔

تاریخی لحاظ سے دیکھاجائے تو جشن شندور میں شرکت کرنے والا پہلا نمایاں شخص سابق ڈیکٹیٹرجرنیل ضیاء الحق تھے۔ اسکے علاوہ محترمہ بے نظیر بھٹو اورآمرجرنیل پرویز مشرف بھی جشن شندور کے مواقع پر یہاں تشریف لاکر نہ صرف ٹورنامنٹ کی کامیابی میں اپنا کلیدی کردار اداکرتے رہے بلکہ چترال میں شروع کئے جانے والے اکثر بڑے منصوبے جیساکہ لواری ٹنل، مستوج گلگت روڈ، نیٹکو بس سروس وغیرہ کا آغاز اس جشن کے موقع پر کیا گیا ۔شروع میں یہ جشن چترال کے ضلعی انتظامیہ کے زیرِ کمان منعقد ہوتی تھیں جب اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتاگیا تو خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت نے اسے صوبے کے بڑے تہواروں کی لسٹ میں شامل کردیا اور اس کے لئے صوبائی وزارت کھیل وسیاحت بڑی مقدار میں فنڈبھی ریلیز کرتی ہے۔ ایک دور ایسا بھی آیا کہ فائنل کے دن پاکستان ٹیلی ویژن اس ٹورنامنٹ اور دوسری تقریبات کو پورے دن براہ راست نشرکرتے تھے جس کی وجہ سے جشن شندور ایک معمولی پولو ٹورنامنٹ کی بجائے ایک بین الاقوامی معیار کے جشن میں تبدیل ہوگیا۔میڈیا کے اس نشریات کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاح زیادہ سے زیادہ اس علاقے بالخصوص جشن شندور کی جانب متوجہ ہوگئے یوں خطے میں سیاحت کے شعبے میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ جونہی شندورمیلہ شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگا اوراس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مالی مفادات وابسطہ ہوگئے تو گلگت بلتستان کی طرف سے اپنے لئے حصے داری کا مطالبہ سامنے آیا جب ان کے مطالبات منظور نہ ہوئے تو گلگت بلتستان اس ٹورنامنٹ کا بائیکاٹ شروع کردیاجس سے اس کی اہمیت وشہرت میں خاطر خواہ کمی آئی۔ ایک دور تھا جبکہ صدر پاکستان جرنیل پرویز مشرف سالانہ اس ٹورنامنٹ میں شرکت کرتے تھے دوربرس قبل ایک وقت وہ آیا جب گلگت بلتستان نے ٹورنامنٹ میں شرکت سے معذرت کر لی توبیرونی سیاح تو دور کی بات چترال کے لوگ بھی ٹورنامنٹ دیکھنے نہیں گئے۔میڈیا کے اس دور میں جبکہ چند برس قبل پی ٹی وی گھنٹوں اس جشن کو براہ راست نشرکرتے تھے اب اسکی خبرین مقامی میڈیا تک محدود ہوکررہ گئی۔

اس بات میں شک کی گنجائش نہیں کہ شندور کی زمین چترال بالخصوص لاسپور کے عوام کی ملکیت اور ان کا گرمائی چراگاہ ہے اگر گلگت بلتستان مشترکہ پولوٹورنامنٹ میں شرکت سے انکا رکرکے اپنی جانب سے شندور میں ٹورنامنٹ منعقد کرے توکئی قسم کے پیچیدہ مسائل پیداہوسکتے ہیںیہ کہ چونکہ شندور کی زمین لاسپور کے عوام کی ملکیت اور ان ہی کے قبضے میں ہے یعنی شندور صوبہ خیبر پختونخواہ کا آئینی حصہ ہے اب گلگت بلتستان اگر وہاں ٹورنامنٹ منعقد کرنا چاہے تو اس کے لئے حکومت خیبر پختونخواہ سے اجازت درکارہے کیا صوبائی حکومت گلگت بلتستان کو علیٰحدہ سے ٹورنامنٹ منعقد کرنے کی اجاز ت دے سکتے ہیں؟ اگر کے پی حکومت اس کی اجازت بھی دیا تو کیا لاسپور کے عوام اس بات کوتسلیم کریں گے کہ ان کی ملکیتی زمین کو ٹورنامنٹ کی آڑ میں متنازعہ بنایا جائے؟ ان سارے پیچیدہ مسائل کی جانب توجہ دئیے بغیر حکومت گلگت بلتستان اس ٹورنامنٹ کو سیاسی رنگ دے کر علیٰحدہ سے شندور فیسٹول منعقد کرنے کی کوشش کرے اور اس کے خلاف عوام کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے آیا تو اس کا مداوا کس طرح سے کیاجائے گا؟ گلگت بلتستان کا یہ طرز عمل انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور امن وامان میں خلل کا موجب بن سکتی ہے ۔یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہے اگر گلگت بلتستان شندور کی زمین کو اپنا حق سمجھتی ہے تو پھر وہ پورے سال خاموش رہنے کے بعد صرف جشن شندور کے موقع پر اس مسئلے کو اچھالتے ہوئے جشن شندور کو متنازعہ بنا کرپھر سے کیوں خاموش ہوجاتے ہیں؟ اگر گلگت بلتستان کی حکومت شندور کو اپنی ملکیت خیال کرتی ہے تو اس کے حصول کے لئے عدلیہ کا رخ کریں پھر اگر اعلیٰ عدلیہ میں کیس جیت جائے تو کوئی انہیں روکنے والا نہ ہوگا لیکن فی الحال شندور لاسپور کی ملکیت ہے جو لاسپور کے عوام کے قبضے میں ہیں ۔ اس جشن کے انعقاد کے لئے جو فنڈجاری ہوتے ہیں نہ تو گلگت بلتستان اور نہ ہی چترال کے عوام کی اس سے کوئی سروکار ہے کیونکہ عوام کے لئے شہزادہ سکندر الملک یا امیر اللہ خان یفتالی کو ملنے والی رقم سے کوئی دلچسپی نہیں نہ ہی بلبل جان، سردار ارسطو ااور راجہ ذوالفقار علی کو ملنے والی انعامات اور پیسوں سے گلگت کے عوام کوئی دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ عوام جب رحمت علی اور منصور شباب، متاز علی انداز اور سلطان مراد کو ایک اسٹیج آکرگاتے دیکھتے ہیں تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا ۔جشن شندور کے بعد کہوار زبان چترال اور گلگت بلتستان کے مشترکہ ورثہ کی نمائندگی کرتے ہیں ہمیں اختلافات کو پس پشت ڈال کرمشترکہ ثقافتی استعاروں کو بچانے کے لئے تعصبات سے بالاتر ہوکرسوچنا ہوگا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button