کالمز

’’گولڈن چانس‘‘

تحریر: ایمان شاہ

چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور(CPEC)کے حوالے سے گلگت بلتستان کے عوام بھی ملک کے دوسرے صوبوں کے عوام کی طرح گومگو کی کیفیت سے دوچار ہیں کہ اقتصادی راہداری منصوبے کے ثمرات سے وہ کب، کیسے اور کس حد تک مستفید ہوسکیں گے۔۔۔۔۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کی یہ ذمہ داری تھی کہ گلگت بلتستان کے عوام کو اقتصادی راہداری منصوبے کی اہمیت، افادیت اور اچھے اور برے اثرات سے آگاہ کرنے کیلئے وکلاء، تاجر تنظیموں، میڈیا، سول سوسائٹی اور قابل ذکر سیاسی، مذہبی اور قومی پارٹیوں سے مشاورت کے بعد لائحہ عمل کیلئے اقدامات ترتیب دیتے تاکہ اس انتہائی اہمیت کے حامل منصوبے کے گیٹ وے پر بیٹھے 15لاکھ سے زائد عوام کے تحفظات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ اس اہم منصوبے سے خوفزدہ ہوکر منفی پروپیگنڈہ کرنے والی دشمن قوتوں کے عزائم کو بھی ناکام بنانے میں مدد مل سکتی ۔

قراقرم ہائی وے کی تعمیر سے قبل 60کی دہائی میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے ہنزہ اور گلگت کے عوام کے تحفظات دور کرنے کیلئے گلگت اور ہنزہ کا دورہ کیا۔

شاہراہ قراقرم کی اہمیت آج کے سی پیک جتنی نہیں تو اس سے کم بھی نہیں تھی۔ فیلڈ مارشل نے گلگت بالخصوص ہنزہ کے عوام کے تحفظات سنے تاہم میر آف ہنزہ میر محمد جمال خان نے عوامی تحفظات سے انہیں آگاہ کیا یا نہیں اس بارے میں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کیوں کہ میر آف ہنزہ سیاہ وسفید کامالک تھا اور کسی عام آدمی کی کیا مجال تھی کہ وہ اس کے سینے کو چیر کر گزرنے والی شاہراہ کے بارے میں کوئی سوال اٹھا سکتا۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ میر محمد جمال خان ہنزہ کے عوام کیلئے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان سے جو بھی مانگتا، وہ دیا جاتا ، تاہم ایسا نہیں ہوسکا ہے اور میر جمال نے بھی اپنے ذاتی مفاات کو ترجیح دی ہوگی ہنزہ سے گلگت کے عام آدمی کی فلاح و بہبود کیلئے بات بھی کرنا گوارا نہ سمجھا جس کی وجہ سے ہنزہ کے لوگوں کو ’’مال کے بدلے مال‘‘ کے تجارت سمیت بین الاقوامی سرحدی تجارت میں بارڈر ایریا میں رہنے والوں کو دی جانے والی سہولتوں سے محروم رکھا گیا۔

میر محمد جمال خان (وائی ریاست ہنزہ) اگر چاہتا تو نہ صرف ہنزہ بلکہ نگر اور گلگت کے علاقوں کیلئے بھی میگا پروجیکٹس کی منظوری لے سکتے تھے کیوں کہ شاہراہ قراقرم کی تعمیر جیسے منصوبے پر میر آف ہنزہ کی رضا مندی کے بغیر کام شروع نہیں ہوسکتا تھا۔

ایک اور ناد رموقع گلگت بلتستان کے عوام کے پاس سی پیک(CPEC)کی شکل میں موجود ہے پاکستان میں1960ء کی طرح نہ تو مارشل لاء ہے اور نہ ہی گلگت بلتستان میں بادشاہت یا شہنشاہیت کا کوئی تصور ہے۔

وفاق اور گلگت بلتستان میں منتخب عوامی نمائندوں پر مشتمل جمہوری حکومتیں موجود ہیں۔۔۔۔۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اقتصادی راہداری منصوبے میں گلگت بلتستان کے عوام کو ان کا جائز حق دلانے کیلئے مقدمہ لڑسکتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں انرجی، ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کے منصوبوں پر فوری کام ہوسکتا ہے، ریجنل گرڈ کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے، گلگت بلتستان کے عوام کو علاج کی بہترین سہولتوں کی فراہمی کیلئے انٹرنیشنل سطح کے ہسپتال کی تعمیر(CPEC)کے ذریعے ممکن ہے۔ زراعت کے شعبے کو ترقی دینے کیلئے میگا پروجیکٹس کا آغاز ہوسکتا ہے۔

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سے وابستہ عوامی توقعات سی پیک(CPEC)کے ذریعے پوری ہوسکتی ہیں، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے پاس یہ ’’گولڈن چانس‘‘ ہے ۔ اگست کے آخری ہفتے میں ممکنہ طور پر پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت گلگت بلتستان پہنچ رہی ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کی نظریں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان پر لگی ہوئی ہیں کہ اس نادر موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی صلاحیت، اہلیت اور قابلیت کا امتحان ہے، اگست کے آخری ہفتے میں فوجی و سیاسی قیادت کے سامنے گلگت بلتستان کا مقدمہ لڑنے کیلئے پوری قوم تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر آپ کی پشت پر کھڑی ہے،آپ سے صرف اتنی سی گزارش ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو مایوس نہ کیجئے گا۔

حسب معمول جمشید خان دکھی کے ان اشعار کے ساتھ اجازت۔۔۔۔۔

دیکھو سورج کو ہے زوال جس کا
کام ہر شام ڈوب جانا ہے
جو بھی مغرب کی سمت جائے گا
اُس کا انجام ڈوب جانا ہے

اور

گلدستہ رنگ برنگ کا ہم کو قبول ہے
شیعہ گلابِ رنگ تو نُور بخش پھول ہے
اسماعیلی و اہل سُنن کا ہر اک جواں
اصحاب دوست خادم آلِ رسولؐ ہے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button