سیاست

تھور اور ہربن میں حالات کشیدہ، ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ

کوہستان (شمس الرحمن کوہستانیؔ )کوہستان، دیامر بھاشا ڈیم باونڈری تنازعے پر ایک بار پھر ہربن اور تھور کے قبائل آمنے سامنے آگئے،کشیدہ حالات میں الزام تراشی اور املاک کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ جاری ، دونوں جانب کے ہزاروں قبائل طے شدہ معاہدے کی خلاف وزری کے باعث آپے سے باہر ہوگئے ہیں ،ہربن کوہستان کے ہزاروں قبائل نے 360افراد پر مشتمل گرینڈ کمیٹی بناکر ان کو مکمل اختیار دیدیا، تھور (دیامر) کے قبائل بھی ڈٹ گئے۔ حالات کشیدہ ۔

12اگست2016 کو تھور کے قبائل کی جانب سے مبینہ طور پر وعدہ خلافی کے باعث ایک بار پھر ہربن بھاشا ( خیبر پختونخواہ) اور تھور دیامر(گلگت بلتستان ) کے علاقوں کے قبائل کے مابین حالات کشیدہ ہوگئے ہیں ۔ذرائع کے مطابق 2014میں باونڈری تنازعے پر جھڑ پ کے دوران ہربن کے جاں بحق تین افراد اور چھ زخمیوں کے خون کی معافی کے سلسلے میں تھور کے قبائل نے ہائی سکول شتیال آنا تھا ،جس کا پروگرام بارہ اگست کی رات بارہ بجے دونوں جانب کے قبائل کی باہمی رضامندی سے طے پاگیا تھا،جس میں تھور کے قبائل کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ہرن والے پانچ سو افراد کے لئے کھانے کا بندوبست کریں،تھور کے قبائل آئینگے ،جس پر اقوام ہربن نے جمع ہوکر کئی بھینسیں ذبح کرکے پروگرام ترتیب دیا مگر مبینہ طور پر بیرونی طاقتوں کے باعث تھور کے قبائل ہربن آنے سے قاصر رہے ، ادھر ہربن کے لوگ شام گئے تک نتظار کرتے رہے مگر کوئی نہ آیا ، پھر شام گئے پیغام آیا کہ تھور کے قبائل نہیں آئینگے ۔

ادھر ایکشن کمیٹی کوہستان کے ترجمان اسداللہ قریشی نے الزام لگایا کہ دلبر خان عرف بزدل خان چند آوارہ گردوں کے بہکاوے اور گلگت بلتستان حکومت کے وزیر خوراک جانباز اور تانگیر کے امیر جان کی بھونڈی سازش کا شکار ہوئے اور اقوام ہربن کے ہزاروں قبائل کے ساتھ دھوکہ دے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ تھور کے قبائل میں واضح گروپ بندی ہے اور وہ آپس میں ہر روز بھاری ہتھیاروں سے حملے کرکے ایک دوسرے کے املاک کو نقصان پہنچارہے ہیں، اپنے مکانوں کو جلاتے ہیں اور ایف آئی آر مقامی پولیس کی ملی بھگت سے ہربن کے قبائل کے خلاف کاٹ رہے ہیں جس کی مذمت کرتے ہیں ۔

اُدھر تھور کی جانب سے سیف اللہ سمدانی نے سوشل میڈیا پر الزام لگایا کہ اسداللہ قریشی سستی شہرت کے حصو ل کیلئے دونوں جانب خون خرابا کروانا چاہتا ہے اور وہ انٹی پاکستانی ہے او روہ دیامر بھاشا ڈیم کے خلاف ہیں ۔ انہوں نے تردید کی کہ تھور کے قبائل میں نہ کبھی اختلافات تھے نہ ہیں اور نہ رہیں گے ۔‘‘ واضح رہے کہ دونوں جانب کے ہزاروں قبائل اس وقت کشیدگی کی صورتحال میں ہیں ۔ ان قبائل کے مابین پچھلے کئی سالوں سے حدود تنازعہ چلا آرہاہے ۔ یہ حدود تنازعہ مجوزہ دیامر بھاشا ڈیم کی زد میں آنے والی آٹھ کلومیٹر زمین کا قطع ہے ،جس پر ایک رکنی کمیشن بھی بنا مگر رپورٹ نہیں آئی ۔ دونوں قبائل کے مابین اس تنازعے پر 2014میں خونریز تصادم بھی ہوا اور دونوں جانب کے چار افراد جاں بحق اور سات زخمی ہوئے ۔ متعدد جرگے ، حکومتی مداخلت اور خود ساختہ مذاکرات تمام آپشنز آج تک ناکام ثابت ہوئے ۔ 4500میگاواٹ کا میگاپروجیکٹ دیامر بھاشا ڈیم اسی تنازعے کے باعث تاخیر کا شکارہے جبکہ کنٹریکٹرز کو روزانہ لاکھوں روپے خسارے کا سامنا ہے جبکہ پاکستان کے خزانے سے پچانوے ارب روبے دیامر کے زمینوں کے حصول کیلئے خرچ کی جاچکی ہے ۔ مسلئے کا حل نہ نکلنا حکمرانوں کی غیر سنجیدگی ثبوت اور لمحہ فکریہ ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button