کالمز

اظہار تشکر اور اپیل برائے دعائے صحت یابی

گل حماد فاروقی

میں ان تمام دوست، احباب اور میرے چاہنے والوں کا دل کی اتاہ گہرائیوں سے مشکور ہوں جنہوں نے میرے جواں سال بیٹے محمد فرحان مرحوم کے المناک موت کے موقع پر ان کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے، خود آکر فاتحہ خوانی کی یا ٹیلیفون، فیس بک ، نیٹ یا دیگر ذرائع سے میرے ساتھ اظہار ہمدردی کرکے مجھے تسلی دی۔

یقینی طور پر یہ غم اتنا بڑا اور درد ناک تھا کہ میری قوت برداشت سے باہر تھا مگر آپ سب دوستوں کی ہمدردی نے میرا حوصلہ بڑھا یا اور مجھے آپ لوگوں کی اخلاص نے یہ احساس دلایا کہ اس غم میں صرف میں اکیلا نہیں ہوں بلکہ آپ سب لوگ میرے غم میں برابر کے شریک ہیں۔

میں انتہائی ناچیز بندہ ہوں اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جن سے آپ لوگوں کا شکریہ ادا کروں کیونکہ میرے بیٹے کے المناک موت پر مجھے امریکہ، جرمنی، یورپ، سعودی عرب، دوبئی اور دنیا بھر کے محتلف ممالک سے میرے دوستوں اور چاہنے والوں نے فون کرکے میرا حوصلہ بڑھایا۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اولاد کی غم سے بچاکر رکھے اور نہ صرف اولاد کی غم آپ کو نہ دکھائے بلکہ ہر قسم کی غم، رنج اور بیماری سے اللہ تعالیٰ آپ سب کو نجات دے امین۔

آحر میں ایک گزارش ضرور کروں گا۔ کہ میرے بیٹے کے موت کے بعد میری اہلیہ کو اچانک تکلیف محسوس ہوئی جسے ہسپتال لے جاکر پتہ چلا کہ ان کی پیٹ میں چار عدد رسولی ہیں ۔ جن کا ایک نجی ہسپتال میں بڑا آپریشن ہوا اور ان کی پیٹ سے ایک بڑا اور تین درمیانے ساحت کے رسولی نکالی گئیں۔اب وہ انتہائی تکلیف سے گزر رہی ہے اور بستر پر پڑی ہے آپ سب سے درخواست ہے کہ میرے بیٹے کی مغفرت، ہمارے لئے صبر جمیل اور میری بیوی کیلئے صحت کاملہ کی دعا فرماکر مشکور فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو جزائے خیر دے۔

اگر کوئی صاحب حیثیت شحص میری یہ التجا پڑھ رہا ہو تو اتنا عرض کروں کی میرے جواں سال بیٹے محمد فرحان کی پیٹ میں درد تھا جسے صوبے کے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اسے یہ کہہ کر ٹرکھایا کہ اس کی معدے میں زحم ہے ۔

رات کو بچے کا چھوٹا پیشاب بند ہوا اور رات گیارہ بجے ایک بار پھر اسے لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے جایا گیا جہاں اسے پچکاری کرائی گئی اور سرجیکل وارڈ کو ریفر کیا گیا مگر وہاں جو پیسے کی پجاری بیٹھے تھے انہوں نے اتنا زحمت نہیں کیا کہ بچے کی صحیح طور پر چیک اپ کرکے اپنڈکس کی بروقت اپریشن کرے۔

وہاں ایک اور مریض بھی تڑپتا رہا اس کے ورثاء نے کہا کہ یہ ڈاکٹر نہیں بلکہ سوشل ڈاکوؤں ہیں جو پیسے کی بغیر کچھ نہیں کرتا۔ کیونکہ ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر کے کلنک میں انہوں نے مریض دکھا یا تھا اور اس ڈاکٹر نے اسے مشورہ دیا کہ اس مریض کا اپریشن ان کے کلنک میں پیسے دیکر کرائے ورنہ ہسپتال میں وہ خود آپریشن نہیں کرے گا اور جونئیر ڈاکٹر کریں گے۔

محمد فرحان کو رات ایک بجے دوبارہ گھر بھیج دیا گیا اس نے کافی الٹیاں کی اور پیٹ میں کافی تکلیف تھی۔ ایل آر ایچ ان کا ایکسرے بھی کرایا گیا اور ڈاکٹر نے یہ کہہ کر اسے گھر بھیجا کہ اس کی معدے میں معمولی زحم ہے

اسے کوہاٹ روڈ پشاور میں نصیراللہ خان بابر میموریل ہسپتال جسے سٹی ہسپتال کہا جاتا ہے وہاں لے جایا گیا

جہاں ان کا الٹرا ساؤنڈ بھی کرایا گیا مگر پیسے کے پجاری ڈاکٹروں نے جن کو اس دکھی مریض نے سوشل ڈاکوؤں کا نام دیا تھا انہوں نے ایک بار پھر اسے نظر انداز کیا اور یہ کہہ کر گھر بھیج دیا کہ اس کی معدے میں زخم ہے۔

وہ گھر آیا تو حالت بد سے بد تر ہوتی رہی جب حالت نہایت بگڑ گئی تو پانچویں روز اسے حیات آباد میڈیکل کمپلکس ہسپتال لے جایا گیا جہاں ایک ڈاکٹر میرے چھوٹے بھائی کا دوست تھا انہوں نے اس کا معائنہ کرکے بتایا کہ اس کا اپنڈکس ہے میں نے وہاں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صدیق احمد کو بھی فون کرکے بتایا کہ میرا بیٹا سرجیکل وارڈ میں داحل ہے انہوں نے تصدیق کی کہ سرجیکل وارڈ ان کی زیر نگرانی چلتا ہے مگر انہوں نے بھی بچے کے خود آپریشن نہیں کیا بلکہ اس کے پاس جانے کا بھی زحمت گوارا نہیں کیا۔

بچے کے پیٹ میں ناک کے ذریعے پائپ لگایا گیا اسے صبح ہسپتال لے جایا گیا تھا مگر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آپریشن تھیٹر میں کسی سیرئیس مریض کا اپریشن ہورہا ہے لہذا محمد فرحان کو شام پانچ بجے آپریشن تھیٹر لے جاکر اس کا بڑا اپریشن ہوا ۔

رات تین بجے اس کی حالت انتہائی حراب ہوئی مگر اس وقت ICUانتہائی نگہداشت کے وارڈ میں کوئی بیڈ حالی نہیں تھی۔ بہر کیف چھوٹے بھائی نے خیبر ٹیچنگ ہسپتال جاکر آئی سی یو میں بیڈ حالی پاکر فرحان کو کے ٹی ایچ لے گئے مگر وہاں وہ جانبرد نہ ہوسکے اور اللہ کو پیارے ہوگئے۔

دکھ اس بات کا ہے کہ اگر ڈاکٹر ان کا بروقت اپریشن کرتے تو پانچ دن وہ زندگی اور موت کے کشمکش میں مبتلا نہ ہوتے اور وہ تڑپ تڑپ کر نہ مرتے۔

اس کے بعد میری بیوی کو انتہائی تکلیف ہوئی۔ اسے سٹی ہسپتال کوہاٹ روڈ لے گئے۔ وہاں میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر مہراللہ کاکا خیل کو دکھایا اس نے الٹرا ساؤنڈ کرایا مگر یہ کہہ کر ٹال دیا کہ کوئی حطرے کی بات نہیں ایک ماہ تک یہ دوائی کھاتی جائے اس کے بعد دوا تبدیل کی جائے گی۔

اسے ایک بار پھر ڈاکٹر صدیق کو دکھایا دوبارہ ڈبگری گارڈن میں ڈاکٹر غلام مصطفےٰ چترالی سے الٹرا ساؤنڈ کرایا جو 700 روپے چارج لیتا ہے انہوں نے بتایا کہ اس کی پیٹ میں رسولی ہیں پھر ڈاکٹر کو دکھایا جنہوں نے کہا کہ اگر میرے کلینک میں 45000 روپے دے سکتے ہو تو پیر کے روز میں خود اپریشن کروں گا اور اگر حیات آباد میڈیکل کمپلکس کے سرکاری ہسپتال میں کرانا چاہتے ہو تو ایک ہفتہ انتظار کرنا پڑے گا اور اس کے بعد اپریشن کیلئے وقت دیا جائے گا ۔

میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے اور مریض کی حالت بھی حطرناک تھا اس کے بعد ڈاکٹر اکبر شاہ آف دروش کے کلنک میں گیا انہوں نے رعایت کرکے 25000 روپے فیس بتائی اور حمزہ سرجیکل ہسپتال پشاور میں نجی کلنک میں اپریشن ہوا۔

اب مریض کی حالت قدرے بہتر ہے ۔ مگر میرا چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ، چیف منسٹر پرویز خٹک اور عمران خان سے پر زور اپیل ہے کہ میرے بیٹے فرحان کی موت میں جوڈیشل تحقیقات کرے کہ ڈاکٹروں نے پانچ دن تک اسے کیوں تڑپایا۔ اگر اس کی برقت اپریشن کرواتے تو شائد ان کی جان بچ جاتی۔

میرا یہ بھی اپیل ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے ان سینئر ڈاکٹروں کے خلاف بھی کاروائی کی جائے کہ جو مریض ان کے کلینک میں جاکر ان کو پیسہ دیتا ہے وہ کلینک میں خود ان کا اپریشن یا علاج کرتا ہے اور جو مریض غربت یا کسی مجبوری کی وجہ سے ان کو پیسہ نہیں دے سکتے یہ لوگ ہسپتال ان کو تڑپاتا ہے اور خود نہ ان کا پریشن کرتا ہے نہ ان کا علاج بلکہ ان کو لمبی تاریح دیکر ان کو ٹھرکاتے ہیں۔

حکومت کو چاہئے کہ یا ان نجی کلنک، نجی ہسپتالوں کو بند کرے یا ان سرکاری ہسپتالوں کو بند کرے یا سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ان ڈاکٹروں پر پابندی لگائے کہ وہ نجی کلینک میں کام نہ کرے۔

ایک دوست نے اپنے موبائل میں ایک رسید دکھایا جو انہوں نے سکین کیا تھا کہ یہ ڈکٹر دوا ساز کمپنیوں کو تحریری شکریہ بھی ادا کرتے ہیں جو دوا ساز کمپنیاں ان کو تحفے میں اے سی، موٹر کار، کارپٹ دیتے ہیں یا ان کے بچوں کی تعلیمی اخراجات برداشت کرتے ہیں اور اس کے بدلے یہ ڈاکٹر جن کو سوشل ڈاکووں بھی کہا جاتا ہے یہ لوگ مریضوں کو دھڑا دھڑ دوائی لکھتے ہیں چاہے وہ بندہ اتنی دوائی خرید سکے یا نہیں یا وہ دوائی ان کی صحت کیلئے ضروری ہو یا نہیں۔

چترال کے سابق ڈپٹی کمشنر رحمت اللہ وزیر صاحب نے اپنے بیٹے کا مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر ہے اور ایک سرکاری ہسپتال میں وہاں کا پروفیسر ڈاکٹر جو وارڈ کا انچارج بھی تھے نے ایک غریب مریض کو ہزاروں روپے کا نسحہ تھمایا تھا جو اس دوا ساز کمپنی کی تھی جو کمپنی ان کو تحفے تحائف دیتا تھا ا ن کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے نے اس مریض کو دوسرا نسحہ لکھ کر چند سو روپے کا دوائی لکھا جس پر وہ پروفیسر ڈاکٹر نہایت برہم ہوئے اور میرے بیٹے کے ساتھ بدکلامی کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر میں ہوں یا آپ؟۔

میرے بیٹے نے بتایا کہ میں ایک مسیحا ہوں اور آپ پیسے بنانے کا مشین اور ایک بے ضمیر انسان ہو۔ جس پر ان کو نکالا گیا مگر بعد اعلےٰ حکام کی مداخلت پر میرے بیٹے کو دوبارہ اپنا فرائض سنبھالنے کا موقع دیا گیا۔ یہ ہیں سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ان نام نہاد مسیحاؤں کی حالت زار جو صرف پیسے بنانا جانتے ہیں مگر ایک معصوم کی اپینڈکس کی مرض کو نہیں جانتے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

ایک کمنٹ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button