کالمز

اظہار رائے کا حق

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اقتصادی راہداری کانفرنس میں ان لوگوں کو مدعو کیا جاتا اور بات سنی جاتی جو گذشتہ طویل عرصے سے اس راہداری میں گلگت بلتستان کو نظرانداز کئے جانے کا گلہ اور احتجاج کرتے رہے ہیں۔ مگر ان کو اس اہم موقع پر حوالات میں بند کر کے کانفرنس میں ان لوگوں کو بٹھایا گیا جو پہلے سے ہی بغیر کچھ سوچے سمجھے وفاقی حکومت کی ہر بات پر لبیک کہتے رہے ہیں ۔

عوامی ایکشن کمیٹی گذشتہ تین چار سالوں سے عوامی حقوق کے لئے جدو جہد کرتی رہی ہے ۔ ہزاروں لوگ ان کے جلسے جلوسوں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ خاص طور سے گذشتہ پی پی پی کے دور حکومت میں گندم کی سبسڈی کے حوالے سے کامیاب تحریک کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا تھا۔ مختلف سیاسی جماعتوں کایہ اتحاد اقتصادی راہداری میں اپنا جائز حصہ سمیت گلگت بلتستان کے مسائل کے حل کے لئے اپنا ایک چارٹر آف ڈیمانڈ رکھتے ہیں اور اس کے حصول کے لئے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ اپنے جلسوں میں انہوں نے کبھی تشدد کی تبلیغ نہیں کی ہے اور نہ ہی ملکی سا لمیت کے خلاف کبھی کوئی بات کی گئی ہے۔ ان کے جلسے منظم، پر امن اور تہذیب کے دائرے میں رہے ہیں۔ پی پی پی کے دور حکومت میں ان کے جلسوں میں مسلم لیگ ن کے راہنماء بھی شریک ہوتے رہے ہیں۔ موجودہ وقت میں ضرورت اس امر کی تھی کہ ان کی بات سنی جائے اور ان کو مذ اکرات کے میز پر بٹھایا جائے ان سے بات چیت کی جائے اور ان کے جائز مطالبات کے حل کے لئے لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ مگر بیوقوفی کی انتہا ء دیکھئے کہ ایک ایسے وقت میں عوامی ایکشن کمیٹی کے راہنماوں کو گرفتار کیا گیا ہے جب ساری دنیا کی نظریں گلگت بلتستان پر جمی ہوئی ہیں۔ ان راہنماوں کی گرفتاری سے باقی دنیا کو یہ تاثر مل رہا ہے جیسے گلگت بلتستان میں جنگل کا قانون ہے یہاں کسی کو بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ آزادی اظہار رائے مفقود ہے۔ راقم سے اسلام آباد اور لاہور میں کئی لوگوں نے دریافت کیا کہ گلگت بلتستان میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیونکہ انٹرنیٹ کے اس دور میں بات چند لمحوں میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔

عوامی اجتماعات اور پر امن مظاہرین پر مقدمات بنانے کی ریت گذشتہ پی پی پی کہ حکومت نے ڈالی تھی جس پر موجودہ حکومت من و عن عمل کر رہی ہے۔ گذشتہ حکومت کے دور میں علی آباد ہنزہ کے مقام پر ایک پر امن احتجاج میں مظاہرین پر گولیاں برسائی گئیں اور اس کے بعد لوگ مشتعل ہوئے تو ان پر دھشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات بنائے گئے اور آج تک اس کیس کو ایک عجوبہ بنا کر رکھا گیا ہے۔ جس سرکاری اہلکار کی ایک غلظی سے اتنا بڑا حادثہ ہوا اس پر نہ کوئی بات کرتا ہے اور نہ ہی کوئی اس کو برا کہتا ہے۔ گذشتہ تین سالوں میں درجنوں لوگوں پر محض اس لئے مقدمات بنائے گئے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے جائز مطالبات کے حق میں احتجاج کیا تھا۔ گزشتہ سال غذر میں سیلاب میں گھر اور زمینیں تباہ ہونے پر ریلیف کے لئے احتجاج کرنے پر سنگل اور تھنگئے کے مقام پر متاثرین پر مقدمات بنائے گئے۔ اسی طرح بہت سارے لوگوں پر محض کسی احتجاجی ریلی اور جلسے میں شرکت کرنے کی پاداش میں مقدمات بنائے گئے ہیں۔ مقدمات بنانے کا یہ عمل جمہوریت اور ملک کی کوئی خدمت نہیں ہے۔ ملک کی اگر کوئی خدمت کرنی ہے تو لوگوں کی بات سنی جائے اور اس کا حل نکالاجائے۔ کیونکہ مقدمات سے لوگوں میں غصہ بڑھ جائے گا وہ کم کبھی نہیں ہوگا۔اور ملک کی بہت ہی اچھی خدمت یہ ہوسکتی ہے کہ لوگوں کے مسائل دن رات ایک کر کے حل کئے جائیں۔ اداروں کو ٹھیک کیا جائے، انصاف کا نظام درست کیا جائے۔ بے روزگاری اور غربت جیسے مسائل پر قابو پایا جائے۔

اپنے حق کے لئے پر امن طریقے سے آواز اٹھانے کا اختیار عوام کو کسی شخص نے نہیں دیا بلکہ پاکستان کے قانون اور آئین نے دیا ہے ۔ آئین پاکستان کا باب نمبر ۲ میں درج حقوق میں سے آزادی اظہار رائے ، پر امن احتجاج اور اجتماع کا حق اہم حقوق میں سے ہیں۔ مگر آئین میں یہ بھی درج ہے کہ عوام کو اپنے ان حقوق کے استعمال کے دوران دوسروں کے جان و مال، ملکی سا لمیت اور انتشار سے گریز کرنا ہوگا۔نیز انتظامیہ کی طرف سے خاص اوقات میں عوام کو اس حق کے استعمال سے روکا جاسکتا ہے۔ جیسے ہمارے ہاں دفعہ 144 کا نفاذ مخصوص وقت کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس دوران بھی انتظامیہ سے اجازت لے کر احتجاج یا اجتماع منعقد کیا جاسکتا ہے۔ مذکورہ باتوں کا خیال رکھتے ہوئے کیا جانے والا ہر احتجاج قانون کے مطابق لوگوں کا حق ہے۔ دنیا بھر میں نہ صرف اس حق کو تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ اس کو جمہوریت کے فروغ کے لئے اچھا سمجھا ہے۔ کیونکہ جمہوریت کا یہ حسن ہے کہ لوگوں کواپنی رائے کے اظہار کا موقع دیا جائے۔

گذشتہ دنوں گلگت بلتستان حکومت کے ایک وزیر ڈاکٹر اقبال نے یہ کہا تھا کہ کے کے ایچ پر جو بھی احتجاج کرے گا ان کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمات قائم کئے جائیں گے۔ یہ بیان دراصل غیر جمہوری رویے کی علامت تھی۔ مگر ڈاکٹر اقبال کے اس بیان کے بعد وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے اپنے ایک بیان میں کہا تھاکہ احتجاج جمہوریت کا حسن ہے ہم احتجاج کرنے والوں کی بات سنیں گے۔جس سے ثابت ہوتا تھا کہ وزیر اعلیٰ ایک سیاسی کارکن ہیں اور ان کو جمہوری رویوں کاا دراک زیادہ ہے۔ کیونکہ ہمیں یاد ہے کہ جب اپوزیشن میں تھے تو وہ خود بھی کئی دفعہ احتجاج کرتے رہے ہیں اور دوسروں کے احتجاجی جلسوں میں شرکت بھی کرتے اور حکومت مخالف تقاریر بھی کرتے رہے ہیں۔آج اچانک ایسی کونسی قیامت آئی ہے کہ لوگوں سے احتجاج کرنے کا حق بھی اٹھا لیا گیا ہے؟ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کو چائیے کہ وہ اس مسلے پر غور کریں اور اپنے بیان کی رو سے لوگوں کو اپنے جائز مطالبات کے لئے کیا جانے والا پر امن احتجاج حق واپس لوٹانے کا اہتمام کریں۔ دنیا بھر کے جمہوری معاشروں میں احتجاج اور اجتماع جمہوریت کا حسن تسلیم کیا جاتا ہے اور اس مقصد کے لئے بڑے شہروں میں مخصوص جگہیں مختص کی جاتی ہیں تاکہ لوگ وہاں جمع ہو جائیں اور اپنے مطالبات حکومت تک پہنچادیں۔ضروری نہیں ہے کہ حکومت لوگوں کا ہر مطالبہ من و عن تسلیم کرے صرف احتجاج اور اجتماع کا حق ملنے سے بھی لوگوں کو تسلی ہو جاتی ہے ۔ وہ اپنے دل کی بات کرتے ہیں اور ان کی فرسٹریشن دور ہوجاتی ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی اور اینٹی ٹیکس موومنٹ گذشتہ تین چار سالوں سے پر امن احتجاج ہی کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کبھی حکومت یا نظام کے لئے نہ کوئی خطرہ پیدا کیا ہے اور نہ ہی حکومت کو گرانے کی کوئی سازش کرتے رہے ہیں۔ احتجاج اور اجتماع معاشرے کے افراد کو اظہار رائے کی آزادی فراہم کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ حقوق انسانی حقوق کے عالمی منشور اور پاکستان کے آئین میں تسلیم کیے گئے ہیں ۔گلگت بلتستان کا نظام جس امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر کے تحت چلتا ہے اس کے آرٹیکل ۸ اور ۱۱ میں بھی ان حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ یا تو قانون ، آئین اور گورننس آڈر میں درج ان حقوق کی پاسداری کی جائے اگر اایسا ممکن نہیں ہے تو قانون اور آئین کی دستاویزات سے ان حقوق کو خارج کیا جائے۔ آئین نے جو حق عوام کو دیا ہے وہ حقیقت میں ان کو نہ دینا دہرا معیار ہے جو کہ کسی بھی طرح سود مند نہیں ہے۔ ہمارے یہاں اب ہر احتجاج پر لوگوں کے خلاف مقدمات بنانے کی روا یت شروع ہوئی ہے جو کہ جمہوریت کش ہے۔ اس سے فرسٹریشن میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جمہوریت میں ایک پارٹی ہمیشہ حکومت نہیں کیا کرتی ہے ۔ آج کی حکمران جماعت کل کی اپوزیشن بھی ہوسکتی ہے۔ اس لئے اچھی جمہوری روایات کی بنیاد رکھی جائے تا کہ کل آپ جب حکومت میں نہیں ہونگے تو وہ روایات آپ کے لئے وبال جان نہ بن جائیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button