کالمز

برآمد ی مال گدھا 

خبر آگئی ہے کہ گدھا برآمد ی مال ہے جب پنجاب میں گدھے کا گوشت فروخت ہونے کی اطلاعات موصول ہونا شروع ہوگئیں تب سے ہمارے چینی اور کوریائی دوستوں کے منہ میں پابی بھر آیا چینی سرمایہ کاروں نے خیبر پختونخواکے بر آمد کنندگان سے رابطہ کیا ہے کہ بڑے پیمانے پر گدھے ان کو منہ مانگے داموں فراہم کی جائیں یہ بات سن کر یہاں کے برامد کنندہ گان کی رال ٹپکنے لگی مگر ظالم سماج کی طرح ظالم بیوروکریسی آڑے آگئی حکومت کے کا غذات میں گدھے کی برآمد کے اصول ،قواعد و ضوابط اور ٹیکسوں کا اندراج نہیں تھا قانون بنانے والوں نے گائے ،بیل اور بھیڑ بکری وغیرہ کا کا ذکر کیا اونٹ اور بھینس کا نام لیا کتے اور گھوڑے کا نام لیا مگر گدھے کا نام نہیں لیا خیبر پختونخواکی بیور کریسی کہتی ہے کہ وفاق کی اجازت کے بغیر صوبے میں براہ راست سرمایہ کاری نہیں ہوسکتی سرمایہ کاری کا مطلب ہے کہ چینی حکومت اپنے دولت مند اور ثروت مند لوگوں کے ذریعے خیبر پختونخوا میں گدھوں کی افزائش کے لئے وسیع منصوبے پر کام کرے گی اگر ہم اس وقت دو لاکھ گدھے برآمد کرسکتے ہیں تو اگلے 5سالوں میں ہم 5لاکھ گدھے برآمد کرنے کے قابل ہونگے ہمارے زمینداروں کو بہت فائدہ ہوگا مگر عوام کا فائدہ بیورکریسی کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اس لئے بابووں نے کہہ دیا کہ وفا ق کی اجازت کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا اس میں تفنن طبع کے بہت سے پہلوہیں مثلاً یہ کہ گدھا اب معتبر ہونے لگا ہے گویا گھوڑے کی جگہ لینے کے درپے ہے غنی خان نے حکومت اور اقتدار لینے سے معذرت کر کے بارگاہ خداوندی میں درخواست کی ہے

چرتہ غٹ خر تہ پہ شا کہرہ دا دِ سرو لعلونو کتہ

او نصبحت ورتہ او کیڑہ ربہ زمالہ با بتہ

گورہ پام کوہ ددے لہ خرہ

چرتہ غنی اونہ وہے یہ لتہ ۔

غنی کہتا ہے ’’اے خدا ‘‘اقتدار سرخ نعلوں سے بناہوا زین ہے یہ کسی موٹے گدھے کی پیٹھ پر کس دے اور اُس کو نصیحت کردے کہ دیکھو میرے اس دوست کا خیال رکھو ایسا نہ کہو کہ تم غنی کو لات مارو ‘‘فارسی اد ب میں شمس الدین تبریزی کے کلام بڑا حصہ پیش گوئیوں پر مبنی ہے ان پیش گوئیوں میں ایک پیش گوئی گدھے کے بارے میں بھی ہے

اسپ تازی شدہ مجروح بزیر پالان

طوق زرین ہمہ در گردن خرمی بینم

شاعر مستقبل میں دیکھتا ہے کہ اصیل گھوڑا بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور گدھے کی گردن میں سنہرا ہار پہنا یا گیا ہے علامہ اقبال کے کلام میں بھی گدھے کو جگہ ملی ہے مفکر پاکستان کہتا ہے

گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو

کہ از مغز دو صد خر فکر انسانے نمی آید

شاعر کہتا ہے کہ تم جمہوری طرز حکمرانی سے دو ر رہو ایک تجربہ کار کی پیروی میں وقت گزارو وجہ یہ ہے کہ دو سو گدھے جمع ہوجائیں تو ایک انسان کی فکر اور سوچ ان کے اجتماع سے پیدا نہیں ہو سکتی گدھوں میں سرمایہ کاری کا نقصان یہ ہے کہ ہمارے زمیندار بھینس دنبے اور بکرے کی جگہ گدھے پالینگے اور بازار میں گوشت کی شدید قلت پیدا ہو جائیگی اس کا فائدہ یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ کو گدھوں سے پاک کیا جائے گا سارے گدھے چین بھیجے جائینگے تو یہاں سیاسی بلوغت اور پختگی آئیگی ہماری بیورکریسی اس بات سے خائف ہے کہ سیاست میں بلوغت اور پختگی آگئی تو افسر شاہی کس طرح موج مستی کرے گی یہ سنجیدہ مسئلہ ہے خبر کی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ ہمارے چینی دوستوں کو حکومت کے نامناسب جواب سے بہت مایوسی ہوئی ہے اور وہ ناراض ہو کر واپس چلے گئے اندر کی خبر لانے والے سماجی اور سیاسی حلقوں نے تجویز دی ہے کہ چینی دوستوں کی ناراضگی سے بچنے کا فوری حل ہمارے پاس موجود ہے گزشتہ 3سالوں میں محکمہ صحت نے آوارہ کتوں کی افزائش کی ہے صوبے کے 25اضلاع میں 10لاکھ سے زیادہ آوارہ کتے نظرآتے ہیں جب تک محکمہ صحت کا پرانا نظم و نسق بحال نہیں ہوتا تب تک چینی دوستوں کو آوارہ کتوں کی تجارت پر امادہ کیا جائے اور فی الحا ل چین کے ساتھ کتوں کی برآمد کا معاہدہ کیا جائے چینی دوستوں کو ’’لذیذ گوشت ‘‘چاہئے چاہے گدھے کا ہو یا کتے کا سر دست امریکی انتخابات کا مرحلہ سر پر ہے گدھا امریکہ کی بڑی سیاسی جماعت کا انتخابی نشان ہے ڈونلڈ ٹرمپ کی تصویر کے ساتھ گدھے کی تصویر پوسٹروں میں آرہی ہے انتخابات کا مرحلہ سر ہونے تک گدھے کو نہ چھیڑو ورنہ سی پیک CPEC)کا سارا سلسلہ خطرے کی زدمیں آجائے گا اور چینی سرمایہ کاری کے مواقع سے ہم ہاتھ دھو بیٹھینگے برآمدی مال کے طور پر گدھا کتنا کامیاب ہوگا اس کا انحصار ان ’’گدھوں ‘‘پر ہے جن کو ہم ’’گدھے ‘‘نہیں سمجھتے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button