کالمز

صفائی نصف ایمان ہے

 شجاعت علی

گذشتہ دنوں کسی کام کے سلسلے میں گلگت شہر سے دنیور کی طرف جا رہا تھا راستے میں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے نیچے گلگت اور دنیور کو ملانے والی ایک آر سی سی پُل آتی ہے جس کے نیچے سے دریائے ہنزہ بل کھاتی ہوئی گزر جاتی ہے اور پھر آگے جا کر دریائے گلگت میں شامل ہو جاتی ہے اسی پُل کے کنارے ایک سوزوکی گاڈی کھڑی تھی جس میں پولٹری شاپ میں بچ جانے والی آلائشیں لادی گئی تھی اور ایک آدمی انہیں دریا بُرد کر رہا تھا اُسے دیکھتے ہی دل میں خیال آیا کیا یہ ایک احسن اقدام نہیں کہ دُوکاندار خود ہی اپنے دُکان میں موجود گندگی کو ٹھکانے لگا رہا ہے ہاں دریا میں گندگی کو پھینکنا قابل اعتراض نکتہ ہے جس پر بحث ہو سکتی ہے۔ پھر سوچا۔ کیا گندگی کو ٹھکانے لگانے کا انتظام کرنا اور موزوں جگہ کا انتخاب کرنا سرکار کا کام نہیں۔ اگر عوام نے یہ کام خود ہی کرنا ہے تو پھرمیونسپل کمیٹی اور بلدیہ کس کام کی۔

آج سے دو مہنیے قبل اپنے گاؤں میں سکاؤٹس کے ساتھ ایک نشست میں بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ چونکہ سکاؤٹس میں اکثریت سکول اور کالج میں پڑھنے والی بچوں کی ہوتی ہے اس لئے موقع کو غنیمت جان کر بچوں کو صفائی کی اہمیت، فوائد اور نقصانات کے بارے میں کُچھ مفید مشورے دیے۔ ایک ہفتے بعد گاؤں میں دُوکانوں، عوامی مقامات اور چوراہوں میں مجھے جگہ جگہ کوڈا دان نظر آتے ہیں جن پر متاثر کُن پیغامات تحریر کئے گئے تھے۔ دستیاب محدود وسائل کی وجہ سے بچوں نے ڈالدا کے پانچ کلو والے استعمال شدہ خالی ڈبے کے اردگرد غلاف چڑھا کر اُسے کوڈے دان جیسا بنایا تھا۔ بچوں کے اس تخلیقی کام کو کافی پذیرائی مل رہی تھی لوگ گاؤں میں اچانک کوڈا دانوں کے نظر آنے پر جہاں خوش تھے وہاں سکاؤٹس کو اس انوکھے کام پہ داد بھی دے رہے تھے اور اُن کی اس اقدام کی تعریف بھی کر رہے تھے۔ کسی شاعر نے سچ ہی کہا ہے۔ نصیحت بے اثر ہے گر نہ ہو درد۔ یہ گُر ناصح کو بتلانا پڑے گا۔ شُکر ہے میری نصیحت کا کچھ اثر تو ہوا تھا جو ان سکاوٹس کی عملی اقدام سے صاف نظر آرہا تھا۔

ہم عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ گھر کے اندر سے کوڈا کرکٹ باہر نکالا تو بس صفائی ہوگئی ۔ پتہ نہیں یہ بات ہم کیوں بول جاتے ہیں کہ پورا پاکستان ہمارا گھر ہے یہاں کی شاہراہیں، پارکس، چڑیا گھر، تعلیمی ادارے ، کھیل کا میدان ، بازار، تفریحی مقامات سمیت ہر قطعہ اراضی ہماری ہیں اور ہمیں اس کی ملکیت لینی ہوگی۔ یہاں کے چپھے چھپے کو اپنا سمجھنا ہوگا تب ہم پورے پاکستان کو صاف ستھرا رکھ پائیں گے۔ سِوِک سینس کا نہ ہونا، ناقص نظام صفائی، گندگی کو ٹھکانے لگانے کا مناسب انتظام نہ ہونا، احساس ذمہ داری کا فقدان اور دیگر عوامل کی وجہ سے ہمارے ہاں دھیرے دھیرے ذمینی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے جس کا اگربروقت تدارک نہیں کیا گیا مسقبل قریب میں بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

جس معاشرے میں لوگوں کو صفائی کی اہمیت کاادراک ہو وہاں کوڈا کرکٹ جمع ہی نہیں ہوتا کیونکہ ہر شخص اپنے حصے کا کام کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم کی بدولت لوگوں میں شعور ہے اور ہر شخص اپنی سماجی اور اخلاقی ذمہ داری سے آشنا ہے ۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم صفائی کو ایمان کا آدھا حصہ تو مانتے ہیں مگر اس پر عمل کم ہی کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے عمل سے صفائی نصف ایمان کا مظاہرہ کیا جائے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button