کالمز

اثر تاج کا سانحہ ارتحال، رب مغفرت کرے

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں کے مصداق لکھنے میں مزید دیر ہوجاتی اگر آج خالق تاج صاحب سے ملاقات نہ ہوتی۔ آج کسی کام کے سلسلے میں جب میں نے ان کو کال ملائی۔ ہیلو اور سلام دُعا کے ساتھ ہی مسکراہٹیں اور چٹکلے بکھیرنے والے تاج صاحب آج خلافِ معمول بڑے گلوگیر آواز میں میرے سلام کا جواب دے رہے تھے۔ میری لوکیشن کا پوچھا جب میں نے گلگت کہا تو اپنے دولت کدے میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ میں اب ان کے دوت کدے میں تھا۔ ظفر صاحب موجود نہیں تھے جبکہ تاج صاحب حاضر تھے۔ غم کا بار کتنا گراں ہے آج مجھے اندازہ ہوا۔ خالق تاج صاحب جو ادبِ شمال کے بھی تاج ہیں، لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرنے والے تاج آج جب مجھ سے ملے تو نہ جانے کیوں ان کے چہرے پر غم و اندوہ کا طوفان اُمڈ آیا تھا۔ سچ کہا ہے کسی نے کہ اولاد کا غم انسان کو کھا جاتا ہے۔ اور اس غم کو سمجھنے کے لیے صاحب اولاد ہونا ضروری ہے۔

aser-pic ننھے اثر تاج جس کو مرحوم لکھتے ہوئے قلم لرزاں، دل پریشاں اور تخیل حیراں ہے، تاج صاحب کے پوتے اور ظفر صاحب کے صاحبزادے تھے۔ ان کی بے وقت موت نہ صرف ان کے خاندان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے۔ چودہ سالہ اثر تاج ایک عرصے تک کینسر جیسے جان لیوا مرض سے بڑی ہمت کے ساتھ لڑتے رہے۔ اس دوران وہ آغاخان یونیورسٹی ہسپتال کراچی میں تقریباً ایک سال اور بعد ازاں پمز اسلام آباد میں بھی ایک عرصے تک زیرِ علاج رہے۔ کراچی میں قیام کے دوران میں ایک دو بار ان کی عیادت کو بھی گیا تھا اور ننھے اثر تاج کی مسکراہٹ اور ہمت کو داد دیتا رہا کہ اتنے مہلک مرض کے باوجود وہ انکل کہہ کے بڑے ادب سے مجھ سے ملتے تھے، مسکراہٹیں بکھیرتے تھے۔ ظفر صاحب اور تاج صاحب نے ان کے علاج کے حوالے سے پوری کوشش کی لیکن وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ میں اکثر اپنے لیکچرز اور وعظ میں کہتا رہتا ہوں کہ جہاں ہماری کاوشیں ختم ہوجاتیں ہیں، جہاں ہماری عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے اور ہاں جہاں ہم تھک جاتے ہیں وہاں سے آگے خدا کا تصور موجود ہوتا ہے۔ پھر انسان بے بس ہو جاتا ہے اور رب ذوالجلال کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے۔ اور شاید اسی کا نام ہی زندگی ہے کہ زندگی کو فنا ہے اور قرآن پاک کے مطابق ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ گویا زندگی اذاں اور نماز کے درمیاں وقفے سے زیادہ کچھ نہیں۔ کسی دل جلے نے کیا خوب کہا ہے؎

آنکھ کھولی تو اذاں، بند ہوئی جب تو نماز

اتنے وقفے میں بشر کیا کرے اور کیا نہ کرے

آج جب میں تاج صاحب کے ساتھ بیٹھے اثر تاج کی یادوں کے البم کو دیکھ رہا تھا تو مجھے یقین ہورہا تھا کہ واقعی شیروں کے پسر شیر ہی ہوتے ہیں جہاں میں۔ ننھے اثر کی انگریزی، اردو اور شنا شاعری مجھے حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی تھی۔ اتنی کم عمری کی شاعری میں یہ اٹھان، یہ گہرائی اور یہ گیرائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچ پوچھئے تو ادب شمال کا ایک روشن ستارہ طلوع ہونے سے پہلے ہی غروب ہوا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ان کا یہ سانحہ ارتحال پورے خطے کے لیے صدمہ ہے۔ ان کی وفات کے بعد ہم اسماعیلی کونسل کی طرف سے تعزیت کے لیے گئے تھے جہاں ہم ظفر صاحب اور تاج صاحب سے اظہار تعزیت کی وہاں ہم اثر کی والدہ صاحبہ جو ہماری بہن ہیں، سے بھی الگ سے اظہار تعزیت کی۔ ان تمام کا غم ہم سے دیکھا نہ گیا۔ لیکن وقت بڑا مرہم ہے ان کے زخم بھی وقت کے ساتھ بھرتے جائیں گے لیکن بقول شاعر؎

گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن

بہت اُداس، بہت بے قرار گزرے گی

اللہ پاک اس ننھے فرشتے کو غریقِ رحمت کرے اور پسماندگان خصوصاً ظفر صاحب، تاج صاحب اور ہماری بہن (اثر کی والدہ) کو اس ناقابلِ فراموش سانحے کو برداشت کرنے کی توفیق دے۔ آمین!

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button