کالمز

باباغندی کی زیارت اور کمپیردیور

سوست میں ٹھٹھرتی سردی کے ساتھ پہاڑوں پر ہلکی ہلکی برفباری جاری تھی، موسم سرد مگر بہت خوشگوار لگ رہا تھا ۔رات کو طے شدہ پروگرام کے تحت ہم صبح ریوریا ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد سات بجے کے قریب وادی چپورسن کی طرف روانہ ہوئے۔ ہماری ٹیم میں بعض لوگوں کو چپورسن کے راستے کا علم ہونے کے باوجود،میں راستے میں ملنے والے راہگیروں سے چپورسن کی مسافت جاننے میں بضد تھا۔ وہ اس لئے کہ میں بھی ان بدنصیب لوگوں میں شمار ہوں جو دوران سفر طبعیت ناسازی کے باعث منزل کی تلاش میں بے تاب رہتے ہیں۔

اسی بے تابی نے مجھ سے چپورسن کی حسین وادی کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی چھین لیا۔ تاہم گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر تانگے کے گھوڑے کی مانند سیدھے راستے نظر آنے والی ہرشے پرنگاہ ڈالتا رہا اور جہاں رکنا مقصود تھا وہی پر تو گاڑی سے اترکرچپورسن ویلی کاجی بھرکے نظارہ کیا۔ خزاں کے پت جڑ کا موسم،ٹھنڈی ہوائیں، طرح طرح کے فالتو وپالتو جانور، گھنگناتی ندیاں، برف کی سفیدچادرسے ڈھکے پہاڑاور جفاکش لوگ وادی کی خوبصورتی کے بہترین عکاس تھے۔

آدھے سے زائد سفر کاٹنے کے بعد راستے میں ایک چپوترا نما عمارت دیکھائی دینے پرہمارے ڈرائیورنظیم اللہ بیگ نے بڑی اطمینان سے اگاہ کرنے کی کوشش کی کہ جناب یہ ’ پنجی شاہ کی زیارت‘ کہلاتی ہے۔میرے استفسار پر بتانے لگا کہ جس بابا غندی کے مزار شریف کی زیارت کا ہم لوگ تہیہ کرکے آئے ہیں ، یہ زیارت بھی اسی سے منسلک ہے۔ کیونکہ اس جگہ وسط ایشاء کے بزرگ محمد باقر عرف باباغندی نے صدیوں پہلے یہاں سے سفرکے دوران جب ایک بڑے پتھرپر ہاتھ رکھ دیا تو اس پتھرپرانکی انگلیوں کے نشانات واضع ہوگئے، جسے بعد ازاں مقامی لوگوں نے ’ پنجی شاہ ‘ کی زیارت کے نام سے منسوب کردیا۔ جائزہ لینے پر واقعاً ہمیں بھی اس پتھر پر انسانی انگلیوں کے نشانات واضح نظرآئے۔

آگے چل کے ایک اورسیلاب زدہ نما گاؤں میں داخل ہوئے تو نظیم نے پھر ایک کہانی سنانی شروع کردی جو تاریخی اعتبار سے اسی گاؤں سے متعلق تھی۔ اس گاؤں کا نام ’کمپیردیور‘ بتایا گیا،جوکہ وخی زبان میں رکھا گیا ہے۔ وخی میں کمپیرکامطلب بوڑھی عورت جبکہ دیورگاؤں کو کہا جاتا ہے، تو کمپیردیورکا مطلب بوڑھی عورت کا گاؤں۔ اس گاؤں کی کہانی بڑی دلچسپ اورحقائق پر مبنی ہے۔

انٹرنیٹ پر دستیاب وسائل اور مقامی بزرگوں کے بقول زمانہ قدیم میں اس گاؤں میں بہت سنگدل لوگ رہا کرتے تھے، جنہیں اپنی جان ومال کے علاوہ دوسروں کے دکھ درد اور تکالیف کی کوئی پراہ نہ تھی۔ ہوا یوں کہ ایک دن ایک بزرگ نما اجنبی شخص اچانک اس گاؤں میں نمودار ہوا،جو بھوک سے نڈھال تھا۔ وہ اپنی بھوک مٹانے کے لئے دال روٹی کی خاطرا س گاؤں کے ہرگھرکا دروازہ کھٹکھٹایامگر کسی کو بھی اس کی بھوک کی شدت کا احساس ہوا نہ کسی نے ان کی کوئی مدد کی۔ بالآخر وہ دردر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد ایک بوڑھی عورت کی جونپڑی میں داخل ہوا جو اس گھر میں تن وتنہا آباد تھی۔

بوڑھی عورت نے فوراً اس بزرگ کے تکلیف کو محسوس کیا اور پوچھنے لگی کہ بابا جی میں آپ کی کیا خدمت کرسکتی ہوں۔ جواب میں بزرگ نےعرض کیا آماں جی میں بھوک سے نڈھال ہوں ، برائے مہربانی میری بھوک مٹانے کا بندوبست کیا جائے۔ بوڑھی عورت نے احتراماً عرض کیا بابا جی میرے پاس سوائے ایک کالی بھیڑ کے اور کچھ بھی نہیں اور یہی میرا زریعہ معاش ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں اس کادودھ آپ کی خدمت میں پیش کرسکتی ہوں۔

بزرگ نے بخوشی کالی بھیڑکا دودھ قبول کیا اور اسے نوش فرما کر اپنی بھوک مٹادی۔ جاتے جاتے بزرگ نے بوڑھی عورت سے کہا کہ وہ کل شام تک اس گاؤں کے لوگوں کے پاس پڑا ہوا اپنا سامان سمیٹ لے اور گاؤں سے اوپر کسی اونچی جگہ آرام کرلے، کیونکہ یہاں کل تک ایک معجزہ ہونے جارہا ہے۔ بوڑھیاں نے بزرگ کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے اگلی شام تک اپنا سارا سامان سمیٹ کرایک اونچی جگہ پہنچ گئی( جہاں ابھی عبادت خانہ تعمیر کیا گیا ہے)۔

پھر اچانک وہ بزرگ ہاتھ میں لاٹھی لئے دوبارہ نمودارہوا ۔ جونہی بزرگ نے اپنی لاٹھی زمین پر دے ماری تو اچانک ایک خوفناک سیلاب اْمڈ آیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سارے گھر منہدم ہوئے، سب لوگ غرق ہوگئے، سارا گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گیااوربوڑھی عورت اکلوتی بچ نکلی اور یوں یہ اس گاؤں کا نام کمپیردیورپڑگیا۔ گاؤں میں صدیوں قبل رونما ہونے والے اس معجزے کی گواہی کے طور پر سیلاب ٹیلے اور مٹی کے تودے اب بھی نمایاں ہیں۔

کمپیردیور میں ہم تھوڑی دیرکے لئے رکنے کے بعد باباغندی کی جانب روانہ ہوئے۔ بابا غندی وادی چپورسن کے راستے پاک افغان سرحدپر سطح سمندرسے کم وبیش پانچ ہزار میٹرکی بلندی اور سوست کے مقام پر شاہراہ قراقرم سے ستر کلومیٹر کی مسافت پرواقع ہے۔ چپورسن کی مرکزی سڑک کچی مگرصاف ستھری ہونے کی بدولت مسافروں کو راستے میں کسی قسم کی تکلیف اٹھانی نہیں پڑتی، تاہم طویل سفرکے دوران راستے میں ہوٹلوں اور قیام گاہوں کی عدم دستیابی کے سبب تھکاوٹ ضرورمحسوس ہوجاتی ہے۔

بہرحال ساڑھے تین گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد ہم باباغندی کے مزارشریف پر پہنچ گئے۔ انٹری پوئنٹ پر پاکستان آرمی کے کچھ جوان سرحدی حفاظت کی ڈیوٹی پر معمور تھے جو بابا غندی کے مزارپر آنے والے عقیدت مندوں اور سیاحوں کی انٹری بھی کررہے تھے۔ سرد موسم اور آف سیزن کے باوجود بابا غندی کے مزارپر سیاحوں کا کافی رش تھا۔ کچھ دیرآرام کے بعد بابا غندی کے مزارشریف کی زیارت کی باری آگئی تو احترام کے ساتھ مزار شریف کے احاطے میں داخل ہوئے ۔ مزارشریف پر فاتحہ خوانی کرکے باہر نکل آنے پر ایک خوش اخلاق نوجوان پیارعلی نے استقبال کیا۔یہ نوجوان باباغندی کے مزار کی دیکھ بال کا ذمہ دارتھا۔

پیار علی صاحب نے ہمیں زیارت کے پس منظرسے متعلق مختصراً بریف کرنے کے بعد ساتھ ہی ایک جونپڑی نما سرائے میں چائے پر دعوت دیدی۔ سرائے میں ایک بزرگ خاتون مہمانوں کا خندہ پیشانی سے استقبال کررہی تھی مگر وخی زبان سے ناواقفیت کے سبب ہمیں انکی گفتگو سمجھ نہیں آرہی تھی۔

چائے کی نشست پرمیں نے پیارعلی صاحب سے بابا غندی سے متعلق مذید معلومات جاننے کی غرض سے کوئی تحریری مواد کا تقاضا کیا تو گوجال کی معروف شخصیت خلیفہ عصمت اللہ مشفق کی رواں سال شائع شدہ کتاب’ حضرت باباغندی، احوال وآثار‘ پیش کردی۔ خلیفہ صاحب کی یہ کتاب اگرچہ باباغندی کی اہمیت سے انجان لوگوں کے لئے بنیادی معلومات کی فراہمی کے حوالے سے ایک اہم کاوش ہے، مگر یہ کتاب صرف اورصرف سینہ بہ سینہ چلنے والے قصوں پر مشتمل ہے ۔

خلیفہ صاحب کے بقول ’غْند ‘ ایک علاقے کا نام ہے،جس کا ایک حصہ تاجکستان جبکہ دوسراحصہ افغانستان یعنی واخان کی جانب ہے اورمحمدباقرصاحب وہاں کے رہنے والے تھے، جس وجہ سے وہ باباغندی کے نام سے مشہور ہوئے۔ خلیفہ صاحب نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ بابا غندی ایک سن رسیدہ بزرگ تھے ، جن کا شمار بلندپائے کے اولیاء اللہ میں ہوتا تھا، مگرانٹرنیٹ پر اس بات کی تصدیق کے حوالے کوئی مواد دستیاب نہ ہوسکی۔ اسی لئے اس دعویٰ کو بھی سینہ بہ سینہ قصوں کی کڑی سمجھا جاسکتا ہے۔

زمانہ قدیم میں وسطی ایشیائی ممالک کے لوگوں کااکثر گلگت بلتستان آنا جانا رہتا تھا تو باباغندی بھی ایک دن ہنزہ کے سفر پر روانہ ہوئے ۔ واپسی پر راستے کی تکالیف اور شدید سردی کے باعث وہ بیمار پڑگئے اوراس دارفانی سے رحلت فرماگئے۔ جن کی جست خاکی کو خلیفہ صاحب کے بقول چپورسن کے آخری گاؤں استمن میں سپردخاک کیا گیا،جہاں پر آج باباغندی کی زیارت موجود ہے۔

مقامی لوگوں کے بقول اس مزارکی شناخت بھی معجزاتی طورکی گئی، جس کے پیچھے ایک طویل کہانی بیان کی جاتی ہے، لیکن قصہ مختصر یہ کہ شناخت کے وقت بابا غندی کا مزار انتہائی خستہ حالی کا شکار تھا، جس کی بیس ویں صدی میں میرآف ہنزہ نے تزئین وآرائش کرکے ایک زیارت نما مقام بنادیا۔ اس کے بعد اس زیارت کی اہمیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہنزہ کے میروں نے اپنے اپنے ادوار میں اس کی دیکھ بال اور تزئین وآرائش کا اہتمام کیا۔

سال 2009ء سے محکمہ سیاحت گلگت بلتستان اور آغاخان رورل سپورٹ پروگرام نے باہمی اشتراک سے باضابطہ طورپر ہرسال ستمبرکے مہینے میں باباغندی فیسٹیول منانا شروع کردیا۔ اس فیسٹیول میں نہ صرف پاکستان بلکہ بالائی ہنزہ کی سرحد سے ملحقہ افغانستان، تاجکستان، کرغزستان اور دیگروسطی ایشیائی ممالک کے سیاح بھی جوش وخروش سے شرکت کرکے اپنی اپنی علاقائی ثقافت اور کھیل کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔

ہنزہ گوجال کے مقامی لوگوں کے علاوہ باباغندی کی زیارت پر جانے والے عقیدت مندوں کاماننا ہے کہ خلوص نیت اور پختہ عقیدے کے ساتھ اس بزرگ ہستی کے مزارشریف کی زیارت کرنے والے افراد کی دعائیں اللہ کی بارگاہ میں قبول ہونے میں دیر نہیں لگتی۔

دوردراز سے آنے والے عقیدت منداپنی من مرادیں پوری ہونے کی غرض سے باباغندی کی زیارت پر مال کا صدقہ پیش کرتے ہیں، جو زیارت کی دیکھ بال پر معمورافراد موقع پر ہی زبح کرکے گوشت عقیدت مندوں اور سیاحوں میں تقسیم کرتے ہیں، جبکہ اور نقد رقوم کی شکل میں موصول ہونے والی عطیات سے بابا جی کے مزار شریف کی تزئین وآرائش کاکام کیا جاتا ہے۔

باباغندی کی زیارت نہ صرف من مرادیں لے کرجانے والے عقیدت مندوں بلکہ ملکی وغیرملکی سیاحوں کے لئے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، مگراس زیارت تک جانے والی سڑک کی نا پختگی، راستے میں قیام گاہوں کی عدم تعمیراور اس معجزاتی زیارت کے تاریخی پس منظرسے متعلق تحقیقی مواد کی عدم دستیابی علاقائی سیاحت کو فروغ دینے کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بن رہی ہے۔ جس کے لئے حکومتی ونجی سطح پر مذید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button