کالمز

مسلم لیگ بمقابلہ پیپلزپارٹی

تحریر ۔ منظر شگری

چین کے خلائی مشن نے دعوٰی کیا ہے کہ مدار میں موجود انکا خلائی سٹیشن اگلے ماہ میں زمین پر گرجائے گا ۔ اسکے ٹکڑے بھی زمین پر ایسی ٹھنڈی حالت میں گرجائینگے کہ اسکا کوئی پتہ نہیں چلے گا ۔سال2009 میں مہدی شاہ کی سربراہی میں گلگت بلتستان میں پہلی بااختیار پیپلز پارٹی اور اتحادیوں کیساتھ بھی 2015 جون کے الیکشن میں کچھ ایسا ہی ہوا ۔ آسمان سے اترنے والی پیپلز پارٹی ایسے زمین پر گری کہ اسکے ٹکڑے اب تک تلاش کرنے کے باوجود کہیں نظر نہیں آتے ہیں ۔ وہ اس قدر ٹھنڈے کیوں پڑے ان کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔

ماضی میں پیپلز پارٹی کو گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کا پاسبان کہنے والے عوام سے جب اس حوالے مختلف سوالات دریافت کرنے کی کوشش کی تو ایک جیالے نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ ٹکے والی جماعت ثابت ہوئی جس کی وجہ سے اب بھی قانون سازاسمبلی کے ایوان میں پیپلزپارٹی کی نمائندگی کرنے والا رکن اسمبلی ایسا شخص ہے جس کی پارلیمانی سیاست کے آغاز سے اب تک کسی بھی سیاسی جماعت کیساتھ وفاداری نہیں نبھا سکا ہے ۔ جبکہ پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں رکن کونسل کو پارٹی کا نیا صدر بنایا گیا اورسابق صوبائی وزیر کو جنرل سکریٹری۔ ان دونوں اہم عہدیداروں کو یہ علم تھا اور ہے کہ پیپلزپارٹی ٹکے کی جماعت کیوں ثابت ہوئی ۔ اس جیالے نے کہا کہ ٹکے کی خاطر نوکریاں فروخت ہوئی ۔ٹکے کی خاطر ترقیاتی منصوبوں کے نام پر ٹھیکے فروخت ہوئے ۔ ٹکے کے خاطر ہی من پسند افراد کے تبادلے اور تعیناتیاں ہوتی رہی ۔پیپلز پارٹی کے اقتدار میں یہ سب کچھ مہدی شاہ کی کچن کیبنٹ کرتی رہی جس میں کچھ مہدی شاہ سرکار کے ایسے دلفریب اور دلکش دوست بھی شامل تھے جوکہ ہرحکومت میں اپنے مفادات کے لئے شامل ہوجاتے ہیں ۔ اس جیالے نے یہ بھی کہا کہ اب پیپلزپارٹی کی موجودہ صوبائی قیادت بھی اس لئے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے کیونکہ مہدی شاہ سرکار میں زیادہ نہیں تو ٹکے کی خاطر انہوں نے بھی کچھ نہ کچھ کردار ادا کیا ہے ۔اب نہ تو اخبارات میں اور نہ ہی عوامی جلسوں میں موجودہ قیادت اپنی صفائی پیش نہیں کرسکتے ہیں ۔ اس لئے گلگت شہر کا سیاسی میدان چھوڑ کر پیپلزپارٹی نے ایک حلقہ انتخاب دنیور میں یکم نومبر کا جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اگر یہ ٹکے میں فروخت ہونے والی جماعت نہ ہوتی تو گلگت کے گھڑی باغ کے سیاسی میدان میں حکمران جماعت کا مقابلے کے میدان سجاتے ۔گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن کے لئے میدان کیوں چھوڑا جاتا ہے اس میں اپوزیشن جماعتیں کھل کر سامنے کیوں نہیں آتے ؟

ن لیگ کے اقتدار کا تقریبا ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوگیا حفیظ الرحمان کی سرکار نے ٹکے کی بجائے لاکھے کا کھیل شروع کیا ہے ۔ اس حوالے سے ن لیگ کے ایک سینئر اور دیرینہ رہنماء کیساتھ بھی تفصلی گفتگو ہوئی اسکا زکر بھی لازمی ہے ۔ن لیگ کا ورکر کہتا ہے ہماری قیادت ٹکے والی نہیں کروڑوں ایک ساتھ کمانے والی ہے اور کمائی اپنی جگہ اسکے ثمرات عوام کو پہنچا کر کماتے ہیں ۔ میں جب نہیں سمجھا تو انہوں نے بتایا کہ گلگت شہر کی سڑکوں کی مرمت کے نام پر بغیر ٹینڈر کام شروع کرایا ، قانون سازاسمبلی کے ہال کے توسیعی منصوبے پر بغیر ٹینڈر کام مکمل ہونے کے قریب ہے جبکہ دیگر میگا پراجیکٹس میں بھاری رقم کمائی جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم میں میرٹ کی پالیسی عوام کو دیکھائی گئی عوام خوش ہوئے لیکن من پسند محکموں پر اپنے من پسند افراد کی تعیناتی اور کنٹریکٹ پر بھرتیاں بھی ہورہی ہے ۔ کیونکہ وزیراعلٰی حفیظ الرحمٰن نے مہدی شاہ کی طرح اپنی کچن کیبنٹ بھی تشکیل دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی کیونکہ کابینہ میں شامل تمام وز راء جی ہاں یعنی یس سر کہنے والے وزراء پر مشتمل ہیں ۔اگر حکمران جماعت غلط کام کررہی ہے تو ایوان کے اندر تو اپوزیشن ماشاء اللہ ایسی ہیں جو موزن کی اس آزان کو سنتے ہیں خواہ اس نے وقت سے پہلے آزان دی بھی ہے تو لوگ بھی وقت سے قبل ہی نماز ادا کرتے ہیں ۔ان کو یہاں تک علم نہیں کہ ایوان کے اجلاس کی کاروائی کیسے ہوتی ہے، اس میں اپوزیشن نے کس وقت پر کس ایشو کو اٹھانا ہے ۔

پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے جیالوں سے بات چیت کے بعد غیرجانبدار تجزیہ کار سے بات چیت کرنے کی کوشش کی تو ایسا ممکن نہ ہوسکا البتہ ایک دوست مہمان سیاح گلگت آیا اور اس نے شناء زبان کے معروف شاعر عزیزالرحمٰن ملنگی سے ملنے کی خواہش کی پھر ان سے مختصر سی ملاقات کا وقت ملا ۔ ملنگی نے دونوں کی مثال یوں بیان کیا کہ دھرتی ماں اور اس میں پرورش پانے والے اولاد ( یہاں کے عوام) سے کسی جماعت اور کسی حکمران کی کوئی دلچسپی نہیں ۔ یہ برسراقتدار آتے ہیں اپنے عزیز اقارب کو ملازمتوں اور ٹھیکوں سے نوازنے ، اپنے زاتی محلات بنانے اور قومی خزانے میں جمع ہونے والی عوام کی رقم کو اپنے جیبوں میں ڈال کر مستقبل میں سیاست کی دوکان کو چمکانے کے لئے کام کرتے ہیں ۔لیکن تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت تحریک انصاف کا بھی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی لوٹ مار کی اس منڈی میں خاموش تماشائی کا کردار بھی عوام میں پسند نہیں کیا جارہا ہے ۔

مالاکنڈ سے ڈیرہ اسماعیل خان اور لاہور اور کراچی تک پی ٹی آئی کے کپتان نے دونومبر کے اسلام آباد کو بند کرنے کے لئے مہم چلائی لیکن گلگت بلتستان کو اپنی اس مہم کا حصہ نہیں بنایا جس کی وجہ سے بھی حکمران ن لیگ اور ماضی کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی باری باری کا کھیل جاری رہنے کا اندیشہ ہیں ۔اگر اب سی پیک ، آئینی ایشو اور عوام کو بجلی ،تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے لئے اگر ن لیگ کام نہیں کریگی اور ٹکے کی بجائے لاکھاں دا کام شروع کریگی تو شاید آئیندہ کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی طرح موجودہ حکمران مسلم لیگ بھی خوردبین سے دیکھنے پر بھی گلگت بلتستان کے ایوان میں نظر نہ آئے ۔

چونکہ آج کل بعض اخبارات اور بعض تحریریں کرنے والوں نے خوشامدی تحریروں کا نہ صرف ایک سلسلہ شروع کیا ہے بلکہ عوام کو درپیش مسائل جوکہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے پیش آرہے ہیں ان کو ترک کرکے اسکی بجائے سیاستدانوں کے جھوٹے وعدوں اور حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ کی تعریفوں پر مشتمل ایک مقابلہ مضمون نویسی منعقد کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے ۔ اب اگر صحافت بھی عوام کے مسائل کو ایک طرف ترک کرکے عوام دشمن طاقتوں کی حمدوثناء شروع کردے تو اپنی صحت ، تعلیم ، روزگاراور اپنے بنیادی حقوق کے لئے محرومیوں کے شکار گلگت بلتستان کے عوام کو اسی انداز میں ووٹ دینا ہوگا جیسے گزشتہ الیکشن میں پیپلزپارٹی کو اپنے ووٹ کا تحفہ دیکر آج گلگت شہر کا میدان کو تنگ کرکے دنیور کی جانب دکھیل دیا ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ مسلم لیگ ن بھی اپنے مستقبل کے سیاسی میدان کو گلگت سے چھوڑ کر سئی جگلوٹ کی جانب موڑنا پڑے ۔

لہذا لکھاریوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ خودنمائی اور اجلاسوں کے نام پر حکمرانوں کے ٹیبل اور دفتر تک جانے کے ارادوں کو ترک کریں اور عوام کے ان مسائل پر توجہ دیں جوکہ تانگیر سے سیاچن اور خنجراب سے شندور تک کے عوام کو درپیش ہیں ۔ عوام کو شعور دینا لازمی طور پر لکھنے والوں کا کام ہے ۔ ان دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی تونائیاں اجلاسوں کی بجائے تحریروں پر خرچ کریں ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

ایک کمنٹ

  1. ایک لکھے کا دوسرا ٹکے کا ٹیکہ لگاتا ہے مگر ٹیکہ دونوں ہی لگاتے ہیں

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button