گلگت بلتستان

تعلیمی اداروں میں ہر قسم کے مذہبی تقریبات کے انعقاد پر پابندی لگائی گئی ہے، حکومتی نمائندوں کا پریس کانفرنس

گلگت(ارسلان علی) پالیمانی امن کمیٹی کے ممبران نے کہاہے کہ یوم حسین منانے پر کسی نے کوئی پابندی نہیں لگائی ہے بلکہ تعلیمی اداروں میں ہر قسم کے مذہبی تقریبات کے انعقاد پر پابندی لگائی گئی ہے اس پابندی کے پیچھے بہت سارے محرکات ہیں اور یہ پابندی صوبائی حکومت نے نہیں بلکہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت اورقراقرم یورنیوسٹی انتظامیہ کی درخواست پر لگائی گئی ہے۔یونیورسٹی انتظامیہ نے آج سے پہلے ہمیشہ پر امن اور سب کیلئے قابل قبول تقریب کے انعقاد کی کوشش کی لیکن حالات ہمیشہ انتظامیہ کے کنٹرول سے باہر ہوتے رہے اور فسادات کا باعث بنتے رہے اور ان فسادات نے پوری گلگت بلتستان کو اپنے لپیٹ میں لے لیا اور کہیں بے گناہوں کے جانیں ذائعہ ہوگئی تھی۔

ہفتہ کے روز صوبائی وزیر تعمیرات ڈاکٹر اقبال ،پالیمانی سیکریٹری برائے قانون اورنگزیب ایڈووکیٹ،وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی عابد بیگ اور فاروق میر نے گلگت پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کی نظر آئندہ کے الیکشن پر نہیں بلکہ آئندہ کی نئی نسل کے روشن مستقبل پر ہے ،پر امن ،روشن مستقبل اورخوشخال گلگت بلتستان کیلئے ہمیں سخت فیصلوں کئے ہیں ، مناور میں پیش آنے والے واقعہ میں کسی ایک فریق کے طلبہ کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی ہے بلکہ اہلسنت کے 11 طلبہ،اہلہ تشعیہ کے 18طلبہ خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانون پر عملدر آمد انتظامیہ کی ذمہ داری ہے حکومت کسی ایک مسلک کیلئے نہیں پوری قوم کے لئے فیصلے کرتی ہے اگرہر فرد کی مرضی کے مطابق قانون بنائے جائیں تو ملک کیسے چلے گا دنیور کیلئے الگ بسین کیلئے الگ قانون کیسے بنایا جاسکتاہے۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ معاملات حکومت سلجھانا چاہتی ہے اور الیکشن میں شکست خوردہ عناصر معاملات کو الجھا رہے ہیں اور عوام کو بھڑکاکر امن کو نقصان پہنچارنے کی کوشش کر رہے ہیں،حکومت لاشیں گرانا نہیں چاہتی ہے لوگوں کے جانوں کا تحفظ چاہتی ہے ہمیں امن اور عوام کی جانیں عزیز ہیں آج سے پہلے کا ریکارڈ ہم سب کے پاس موجود ہے آج تک کی تقریبات کے دوران ہمیشہ امن کو نقصان پہنچتا رہا اور لاشیں گرتی رہیں اور بے گناہ افراد زخمی ہوئے گزشتہ کئی سال سے یونیورسٹی سمیت دیگر تعلیمی اداروں میں مذہبی تقریب کے انعقاد پر حالات خراب ہوتے رہے صوبائی حکومت ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو لاشوں کے تحفے نہیں امن وترقی اور خوشحالی کا تحفہ دیناچاہتی ہے ۔

ڈاکٹر اقبال نے کہاکہ میرے حلقہ کے زیادہ تر لوگ کے کے ایچ پر دھرنا پر ناراض ہیں لوگوں کے بچے سکول نہیں جاسکتے ہیں دکانیں بند ہیں۔کے کے ایچ پر دھرنا سے خطے کی بدنامی ہو رہی ہے چائینہ سروے ٹیم نے اپنی حکومت کو گلگت بلتستان پر امن خطہ ہونے کی رپورٹ پیش کی ہے سی پیک شروع ہوتے ہی کے کے ایچ پر دھرنا سے گلگت بلتستان کا امیچ خراب ہو رہاہے اور اس سے گلگت بلتستان کا دنیا کو منفی امیج جارہاہے۔

اورنگزیب خان ایڈووکیٹ نے کہاکہ حکومت صبر وتحم سے کام لے رہی ہے اور یہی وجہ ہے معاملات کو سلجھانے کا عوامی ایکشن کمیٹی کو بھی ہم نے موقع دیا لیکن وہ آپس کے اختلافات کا شکار ہوگئی اب پارلیمانی امن کمیٹی بہتر انداز میں معاملات کو نمٹائے گی اور بہت جلد حل نکالا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ کوئی ریاست کو کمزور نہ سمجھے ریاست کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتی ہے جس سے امن یا کسی کی مال جان کو خطرہ لاحق ہو اور 4،5ہزاروں لوں کو منتشر کرنا ریاست کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔انہوں نے کہاکہ پاک آرمی نے وانا وزیررستان جیسے حالات کو کنٹرول کیا ہے ریاست کیلئے کسی بھی حالات سے نمٹنا کوئی مشکل نہیں ہوتا ہے ہم خون خرابہ نہیں چاہتے دھرنوں میں موجود خواتین ہماری مائیں بہنیں اور نوجوان ہمارے بھائی ہیں اس سردی میں انکا سڑکوں پے بیٹھانا ہم کبھی پسند نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ شاہراہ قراقرم کے بجائے KIUکے سامنے ،چیف منسٹر ہاوس کے سامنے یا گلگت شہر میں دھرنہ احتجاج کرنے سے گلگت بلتستان کا اچھا امیج جاتا لیکن شاہراہ قراقر اور سی پیک پر احتجاجی دھرنہ دینا منا سب نہیں ہے ۔انہوں نے کہاکہ موجودہ صورت حال کا حل نکالنے کیلئے ہم آغا راحت اور قاضی انثار احمد کے ساتھ رابطے میں ہیں بہت جلد حل نکالاجائے گا ۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے مزاکرات کا دروازہ بند نہیں کیا ہے اور ابھی مزاکرات کے دروازے کھلے ہیں اوردنیور دھرنے کو ختم کرانے کے لیے صوبائی حکومت نے مذاکرات کے لیے سپیکر قانون ساز اسمبلی کی قیادت میں پالیمانی کمیٹی تشکیل دیدی ہے وزیر اعلی کی زیر صدارت کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا اور اس اجلاس میں دنیور دھرنے کے شرکاءء کے نمائندے بھی شریک ہونگے۔

معاون خصوصی برائے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان فاروق میر نے کہاکہ صوبائی حکومت گلگت بلتستان کو ترقی کے عروج پر لیکر جاناچاہتی ہے دیگر سیاسی پارٹیوں کے لوگوں کی نظریں آئندہ کے الیکشن پر ہے جبکہ صوبائی حکومت کی نظر گگلت بلتستان کے روشن اور پر امن مستقبل پر ہے صوبائی حکو مت ماڈل سکول اور اسکے بعد ماڈل کالجز کے قیام کا منصوبہ رکھتی ہے ایسے حالات میں اگر گلگت بلتستان کی اکلوتی یونیورسٹی ہی بد امنی کا شکار ہوجائے تو آئندہ کے تعلیمی منصوبوں پر کام کرنا مشکل ہوجائے گا عوام سے مطالبہ ہے کہ اپنے بچوں کے روشن مستقبل کیلئے بھائی چارہ اور رواداری کا ثبوت دیں

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button