کالمز

ترک خاتون اوّل اور مفتی عبدالقوی 

اسلام آباد میں ہلال احمرپاکستان کے صدر دفترمیں ترک خاتون اوّل محترمہ آمینہ طیب رجب اردوان کے اعزازمیں ایک پروقارتقریب کا اہتمام تھا۔ ہمیں اس تقریب میں شرکت کی دعوت ایک روز قبل دی گئی تھی تو شیڈول کے تحت صبح ساڑھے نو بجے ہلال احمرکے دفتر پہنچ گئے۔ اس موقع پر پاکستانی روایات کے مطابق کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کی خاطر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ استقبالیہ پر تمام مہمانوں کے موبائل فون اٹھائے گئے اور واک تھرو گیٹس کے زریعے آڈیٹوریم میں داخل کرایاگیا۔

آڈیٹوریم کے اندر پہلی چند نشستیں خاص مہمانوں کے لئے مختص کی گئی تھیں، جن میں ترک خاتون اوّل کا سرکاری وحفاظتی عملہ، ہلال احمرپاکستان کی اعلیٰ انتظامیہ، غیرملکی سفارتکار، ارکان پارلیمنٹ ودیگر شخصیات شامل تھیں۔ جبکہ باقی ماندہ نشستوں پر پہلے آئیں پہلے پائیں کی بنیادپربراجماں ہونا تھا۔ آڈیٹوریم کے اندرونی وبیرونی حصوں کو بینرز اور دونوں ممالک کے قومی پرچموں سے خوب سجایاگیا تھا۔ بینرز پر پاک ترک دوستی زندہ باد، ’دو ممالک میں ایک ہی قوم‘ وغیرہ کے الفاظ درج تھے۔ اسٹیج پر ملٹی میڈیا کے زریعے مہمانوں کو پاکستان اور ترکی کے باہمی اشتراک سے ملک میں جاری عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں کی جھلکیاں دیکھائی جارہی تھیں۔

سب لوگوں کی نظریں مہمان خصوصی کی تشریف آوری کی منتظرتھیں کہ اچانک ایک صاحب آڈیٹوریم میں داخل ہوگئے توایک ساتھ سب کی ہنسی نکل آئی اور ہلال احمر کا ہال ہرطرف سے قہقہوں سے گونج اٹھا۔ میرے دائیں بائیں جانب ہلال احمر کے کولیکس آپس میں کسی موضوع پر محوگفتگو تھے ، جو شرکاء کی مشترکہ ہنسی کا رازمعلوم نہ کرپاسکے۔ ان میں سے ایک نے مجھ سے اس ہنسی کا رازمعلوم کرنا چاہا تو میں نے عرض کیا کہ ذرا کھڑے ہوکے دیکھ لو جو ہورہا ہے نظرآئیگا۔ میری بات پر وہ بھی دیگران مہمانوں کی طرح اٹھ کھڑے ہوئے جو مسکراہٹ بھری چہروں کے ساتھ تالیاں بجاکر ہال میں داخل ہونے والے صاحب کا استقبال کررہے تھے۔

اچانک میرے دوست کی نظریں بھی ان صاحب پر پڑی اور وہ بے ساختہ طورپر کہنے لگے ’بھائی یہ تو مولانا قندیل بلوچ ہیں‘ ۔ ان کی اس بات پر میری بھی ہنسی نکل آئی اور آہستہ سے اپنے دوست کو بتانے لگا کہ یہ ہمارے ملک کے معروف عالیم دین اور رویت ہلال کمیٹی کے رکن مفتی عبدالقوی ہیں، جو چندماہ قبل مشہورماڈل گرل قندیل بلوچ(مرحومہ) کے ساتھ سیلفی لینے کے باعث ملک بھرمیں مقبول ہوئے تھے۔ بہرحال مفتی صاحب کے بیٹھ جانے کے بعد شرکاء کی ہنسی بھی ختم ہوئی اور اب سب کو مہمان خصوصی کی آمد کا انتظار ہی تھا۔ کچھ دیربعدترک خاتون اوّل محترمہ آمینہ طیب اردوان سخت سیکورٹی کے حصارمیں ہلال احمرپاکستان کے چیئرمین ڈاکٹرسعیدالٰہی کے ہمراہ آڈیٹوریم میں تشریف فرما ہوئیں توتمام شرکاء ان کے احترام میں اپنی نشستوں پرکھڑے ہوگئے اورزوردارر تالیاں بجاکر ان کا استقبال کیا۔

مہمان خصوصی کی آمدکے ساتھ ہی تقریب کا باقائدہ آغازہوا۔ اسٹیج سے جب تلاوت کلام پاک کی سعادت کے لئے مولانا مفتی عبدالقوی کا نام لیا گیا تو شرکاء ایک بارپھر چونک گئے اور سب نے بمشکل اپنی ہنسی پر قابوپالیا، تاہم آڈیٹوریم کے اردگرد کھڑے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے چہروں پرپھر بھی مسکراہٹ نظرآرہی تھی۔ مفتی صاحب نے نہایت خوبصورت اندازمیں قرآنی آیت کی تلاوت کی اور مختصراً اس کا خلاصہ بھی بیان کیا۔

بعدازاں ہلال احمرپاکستان کے سیکریٹری جنرل غلام محمداعوان نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں بتایا کہ یہ تقریب ترکش انٹرنیشنل کواپریشن اینڈ دیولپمنٹ ایجنسی(ٹیکا) کی جانب سے ہلال احمر پاکستان کو معذورافراد کے لئے الیکٹرک وہیل چیئرز اور کمزورمعدافیت کے حامل نومولود بچوں کی نگہدشت کی مشینوں(انکوبیٹرز)کی تقسیم کے سلسلے میں منعقدکی گئی ہے، جس میں ترک خاتون اوّل کا خصوصی تعاون و دلچسپی شامل ہے۔

ہلال احمرپاکستان کے چیئرمین ڈاکٹرسعیدالٰہی نے پاک ترک دوستی کو یک جان دوقالب کی مانند قراردیتے ہوئے پاکستان میں وقوع پذیرہونے والی قدرتی آفات کے متاثرین کی امدادوبحالی اور عوامی فلاح وبہبودکے منصوبوں میں حکومت ترکی، ترکش ریڈکریسنٹ اور ٹیکاکی خدمات کو شاندارالفاظ میں سراہا اور ساتھ ہی ساتھ مختصرسی دعوت پر تقریب میں شرکت پر ترک خاتون اوّل کا شکریہ بھی اداکیا۔ تقریب کی مہمان خصوصی ترک خاتون اوّل محترمہ آمینہ طیب نے اپنی تقریرمیں کہا کہ پاکستان اور ترکی دونوں اسلامی ممالک ہونے کے ناطے باہمی تعاون اور بھائی چارے کے بندھن میں بندھے ہوئے اور دونوں ملکوں کی دوستی انتہائی گہری اور مضبوط ہے۔ دونوں نے ہرآڑے وقت، قدرتی آفت اور ایمرجنسی کی صورتحال میں ایک دوسرے کی بھرپورمددکی۔ یہ دوستی روایتی نہیں عملی ہے، جسے مذیدمضبوط بنانے کیلئے بھرپوراقدامات کئے جائیں گے۔

اس موقع پر ترک خاتون اوّل نے معذورافراد میں الیکٹرک وہیل چیئرز بھی تقسیم کئے اور فرداً فرداً ان افراد کے مسائل سے متعلق بھی دریافت کیاجبکہ انکوبیٹرزانہوں نے ہلال احمر پاکستان کے سپردکئے۔یوں تقریب شاندارانداز میں اختتام کو پہنچی اور مہمانوں کی روانگی شروع ہوئی ۔ باہر نکل کر دیکھا تو مفتی عبدالقوی کے ساتھ سیلفیاں لینے کے لئے نوجوانوں کی لائن لگی ہوئی تھی اور مفتی صاحب کوہرطرف سے گیر لیا گیا تھا۔ یہ سماں دیکھ کر سب لوگ قہقہے لگا کرہنس رہے تھے حتیٰ کہ ارکان پارلیمنٹ اور بیوروکریسی کے افسران بھی۔ جبکہ مفتی صاحب خود بھی مسکراہٹ اور سیریس اندازمیں سیلفیاں دیتے نظرآرہے تھے ۔ یہ منظر کافی دیرتک جاری رہا پھر سب نے واپسی کا رخ کرلیا۔

اس دوران میرے زہن میں یہ سوال باربارگردش کررہا تھا کہ مفتی عبدالقوی صاحب بظاہر تو بڑے مہذب اور سلجھے ہوئے مولانا لگ رہے ہیں لیکن نہ جانے انہوں نے کیوں ایک ماڈل گرل کے ساتھ سیلفیاں لیکرخودکو متناذعہ کردیا۔تاہم ان کی خوشگوار اندازمیں نوجوانوں کو سیلفیاں دینے کا منظردیکھ کر مجھے کم ازکم یہ تو معلوم ہوا کہ مفتی صاحب سیلفیاں بنوانے کے بڑے شوقین ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ماڈل گرل قندیل بلوچ کی موت مفتی عبدالقوی کے ساتھ سیلفی لینے کا سبب بنی؟ یا پھروہ ریٹنگ کے چکرمیں پڑے پاکستانی ٹی وی چینلز کی جانب سے ان سیلفیوں کے حوالے سے غیرضروری پروپگنڈے کا شکار ہوئی؟ کیا حسب روایت قندیل بلوچ کا مفتی قوی کے ساتھ سیلفیاں بنوانا بھی کوئی درپرد ہ سا زش تھی؟ اگر سازش تھی تو اس کے پیچھے محرکات کیا تھے؟ کیا مفتی قوی اور قندیل بلوچ کی جانب سے ایک دوسرے پر لگائے گئے الزامات درست تھے ؟ آخر وہ کونسے عوامل تھے جنہوں نے ایک بھائی کو اپنی سگی بہن کی جان لینے پر مجبور کردیا؟

ان سب سوالوں کا طلب جواب ہونا اپنی جگہ لیکن دیکھا جائے تو اس وقت ہمارا پورا معاشرہ سیلفیوں اور تصاویر بنوانے کے چکرمیں ڈوباہوا ہے۔ ہرفرد چاہے مردہو یا عورت کی یہ خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ نئے نئے لوگوں کے ساتھ سیلفیاں اور تصویرں بنواکر مین اسٹریم اور سوشل میڈیا کے توسط سے خوب داد وصول کرے۔کسی کو بھی یہ احساس تک نہیں ان سیلفیوں اور تصاویر کا کوئی ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔

اگر معاشرے میں ایک طرف لبرل طبقہ موجود ہے تو دوسری طرف توہم پرستی اور قدامت پسندی کا بھی دوردورہ ضرورہے۔اگر ایک طرف کسی نامحرم مردکے ساتھ کسی عورت کی تصویر کو میڈیا پر خوب پزیرائی حاصل ہوسکتی ہے تو دوسری طرف اس خاتون کے اہل وعیال کے لئے اس طرح کا منظرناقابل برداشت بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے وہ اپنی عزت وناموس کی خاطرکوئی بھی اقدام اٹھاسکتا ہے، جیسا کہ قندیل بلوچ کے بھائی کو اٹھانا پڑا۔

کاش اگر ہمارے ٹی وی چینلزپراخلاقیات کا درس دینے والوں کو ہرعمل کا ردعمل اور کسی بھی عمل کے منفی اور مثبت پہلوں کا احساس ہوتا تو عین ممکن تھا کہ آج نہ مفتی عبدالقوی جیسے عالیم دین کو دیکھ کر لوگوں کی ہنسی نکل آتی اور نہ قندیل بلوچ جیسی دوشیزہ غفوان شباب میں موت کے گلے لگ جاتی!

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button