کالمز

فیضان علی فیضان

کھوار موسیقی میں جب غزل داخل ہوئی تو غزل گو شعراء نے کبھی اس بات پہ دھیان نہیں دیا کہ ہر غزل گانے کے لئے نہیں ہوتی ۔۔اور نہ کلاکاروں نے اس بات پہ دھیان دیا کہ ہر غزل کو گائی نہیں جاتی ہے ۔۔غزل کس طرح اور کیوں کر گائی جا تی ہے اس پر کسی نے توجہ نہ دی ۔۔ حالانکہ غزل گانے والے کو پتہ ہونا چاہئیے کہ تغزل کیا ہوتی ہے کس بند کو گانا چاہئیے کس کوچھوڑنا چاہیئے۔۔غزل گائیگی ایک الگ دنیا ہے ایک الگ جہان ہے ۔ایک شعبہ ہے۔ کلاسیک کا ایک شرین انداز ہے ۔کھوار موسیقی کے دو ا نداز’’ دھنی‘‘ اور’’ ساوز‘‘.ایک کلا سیک او ر ایک نیم کلاسیک اور’’ پوپ‘‘ہیں ۔غزل اکثر دھنی یعنی کلاسیک میں راگ درباری میں لطف دیتی ہے ۔۔کبھی کبھی کسی کی غزل سننے کا موقع ملتا ہے ۔محسن حیات شاداب کی آواز غزل کے لئے اچھی ہے ۔میرے کمپیوٹر میں کسی منچلے نے دو کھوار غزلیں ڈال دی ۔ان میں سے ایک فیضان علی فیضان کی غزل ہے ۔۔۔ہجران وصالو سار اچھی لمحاں نیویری تائے۔۔۔۔۔۔عیچھار مہ انگاہے تغو خوشپان نیویریتائے ۔۔۔۔۔مجھے غزل کے لفظ لفظ شرین لگے ۔۔خیال کی بلندی اور شرین الفاظ کے چناؤ پہ دھنگ رہ گیا ۔۔فنی سقم بھول گیا ۔۔فیضان سے کبھی ملنے کا شرف حاصل نہیں ہوا فیضان نے اس سمے مجھے اتنا تڑپایا کہ میں نے اپنے بیٹے کو فون کیا اس نے مجھ سے اس کا تعارف کرایا ۔۔اور ان کی دو اور غزلوں کا حوالہ دیا ۔میں اس کی اس غزل کے سحر میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔میں نے فون بند کیا ۔اسلام آباد سے فون پھر بجا کہنے والے نے کہا ۔۔۔ابو یہ چیرمین شوکت علی استاد کے بیٹے ہیں ۔۔میں نے کہا ۔۔بس کافی ہے ۔۔

بات غزل کے معیار اور خوبصورتی کی ہے ۔۔محسن حیات شاداب نے جس سوز سے اس کو گایا ہے ۔۔بس اس کا حق ادا کیا ہے ۔۔سننے کی چیز ہے ۔۔اس میں خاص کر تشبیہات کا جو کمال ہے قابل تعریف ہے ۔۔البتہ ایک جگہ ’’لوچ گانیتائے ‘‘کی جگہ ’’لوچ جوشیتائے ‘‘کہتا تو ٹھیک تھا کیوں کہ’’ لوچ گانیتائے ‘‘اردو روزمرہ ہے ۔۔میں ٹرپ اٹھا جب ایک جگہ انگلیوں سے بال بنانے کی تشبیہ سنی ۔۔پھر ’’چاول صاف کرنے کی‘‘ تشبیہ ،پھر آنکھوں سے ’’خواب چھیننے کی‘‘ بات۔۔اور پھر جب ہجر کا وصال کے لمحے الگ کرنے کی بات ۔۔پھر شاعر کا محبوب کے حسن کی تعریف کے لئے الفاظ ڈھونڈنا بہت ہی بلند پایا تشبیہات ہیں ۔۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ غزل اپنی تمام تر تونائیوں کے ساتھ جلوہ دے رہی ہے ۔۔یہی غزل کا حسن ہے کہ اس میں تشبیہات اور استعارات کا شیش محل تعمیر کیا جائے ۔۔اور خیال بلند سے بلند تر پرواز کرے ۔۔پتہ نہیں کہ اس غزل کے لکھنے کے سمے فیضان کا قلم کیوں برق بن گیا ہے ۔۔اور موتی چننے پہ کیوں آگیا ہے ۔۔فیضان کو اپنے فن سے محبت ہوگی اس لئے ایسا ہوا ہے ۔۔ہمارے ہاں دل سوزی کم ہے ۔۔اگر کسی کام کو آب و تاب سے کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو وہ کام شاہکار نہیں بن سکتا ۔۔فیضان ادب کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ۔۔ادب اس کی رگ رگ میں سمایا ہوا ہے ۔۔ہمارے ہاں لکھاری کا اتنا احترام نہیں جتنا ان پڑھ دولت مند کا ۔۔ہمارے ہاں پیسہ ہی سب کچھ ہے اس لئے اہل قلم بے حوصلہ ہیں ۔۔انگلینڈ میں جب کیٹس کی شاعری آئی تو اس کے مداح اس کے دیوانے بن گئے ۔۔وہ معذوری کی وجہ سے لنگڑا کے چلتے تھے نوجوان اس کی دیکھا دیکھی لنگڑا کے چلنے لگے ۔۔ہمارے ہاں لکھنے کی اس عظیم صلاحیت کو خدا کی دین نہیں سمجھا جاتا ۔۔ہمارے جوانوں میں صلاحیت بہت ہے مگر ان کی حوصلہ افزائی کے لئے ماحول نہیں ۔۔۔میں چمک اٹھا جب فیضان کی غزل سنی ۔۔اور دسیوں بار سنی ۔اس نوجواں میں توانائی ہے ۔۔خیال میں بلا کی بلندی ہے ۔بس اس کو اپنی کھوار زبان کا خیال رکھنا ہے ۔۔اس کے خوبصورت الفاظ کو چننا ہے ۔۔نئے تشبیہات کی فکر کرنی ہے ۔۔کھوار زبان میں اس سلسلے میں کم کام ہوا ہے ۔۔بڑے بڑے شعراء کو اس کی فکر نہیں ۔۔وہ اردو اور فارسی تراکیب بڑی طمطراق سے استعمال کرتے ہیں ۔۔اور کھوار میں لاپرواہی سے داخل کر رہے ہیں ۔۔مثلا ’’بے وفا‘‘کی جگہ کھوار میں ’’کوچاگار‘‘ کتنا خوبصورت مرکب ہے ۔۔سابقہ کی جگہ یہ لاحقہ ہے ۔۔لالچی کی جگہ کھوار لفظ’’ہسکی باد‘‘ کتنی خوبصورت ترکیب ہے ۔۔فیضان شاہکار تخلیق کر رہا ہے ۔۔دلسوزی سے محنت کرے تو کھوار شاعری کے آسمان کا چاند بن جائے گا ۔۔الفاظ استعمال چاہتے ہیں ۔اور خیال الفاظ چاہتا ہے ۔۔فن ہنر ہے سیکھا جا سکتا ہے ۔۔شاعر کا وژن جتنا مضبوط ہوگا وہ اتنا شاہکار تخلیق کرے گا ۔۔شاعری سخت محنت چاہتی ہے ۔۔علم چاہتی ہے ۔۔ماحول چاہتی ہے ۔۔پھر انمول لمحے بھی چاہتی ہے ۔۔شاعر کا حساس دل جب ٹوٹ کر بکھر جائے اس آواز سے جو شاعری کی صورت بنے گی ۔۔کمال کی ہو گی ۔۔جی چاہتا ہے ۔۔کہ فیضان کی شاعری اور پڑھوں اب سے پڑھنے کی جستجو کروں گا ۔۔۔۔

مہ سوم کیچہ مہ سوم ہسے نایور کیچہ مہ سوم۔۔

تن چھیر چموٹین موژتو کی پھوران نیوریتائے۔۔۔۔۔۔ واہ۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button