کالمز

انجینئر سجاداللہ خان رُستُم۔۔۔ سیاسی اُفق پر ہمہ گیر شخصیت

تحریر: شمس الرحمن کوہستانیؔ

نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی۔۔۔

 وہ لوگ جو اپنے سینوں میں قوم کادرد رکھیں انہیں’’ سلام‘‘ نہیں کیا تو کیا ؟جو اپنے آج کو کسی کے کل پر قربان کریں وہ’’ ہیرو ‘‘نہیں تو کیا؟ وہ قرض چکا دیں جو واجب نہ ہووہ ’’امین ‘‘نہیں تو کیا؟وہ بہتان بھی سہے جس کا اصلیت سے ناطہ ہی نہ ہووہ ’’صابر‘‘ نہیں تو کیا؟ وہ عمارت جس کی بنیاد کی پزیرائی بھی کرے وہ ’’مدبر‘‘نہیں تو کیا؟وہ دل جس سے مجبوروں و لاچاروں کی آہیں کم ہوں وہ ’’سخی ‘‘ نہیں تو کیا؟

ex-mpa-sajjad-ullahیہ جملے ہر وہ دل تسلیم کرے گا جس کا موصوف سے گہری شناسائی ہو اور وہ دل گواہی دے گا کہ الفاظ کی ہیرا پھیری نہیں حقیقت کا برملا اظہار ہے۔ سوچتاہوں کہ لکھوں یا نہ لکھوں ؟ میں اکثر یہ شعر کہتا آیاہوں کہیں کوئی الٹ مطلب نہ لے ،خیر لکھ لیتاہوں کیونکہ اب موصوف اقتدار میں نہیں ۔مسلہ تو اقتدار والوں سے ہے چلوں ریسک لے ہی لیتے ہیں ۔ محافل میں راقم کہا کرتاتھا۔۔۔۔

اور سب بھول گئے حرف بغاوت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
ہم نے بھولے سے کبھی شاہ کا قصیدہ نہ لکھا
شائد آیا اسی خوبی کے بدولت لکھنا۔‘‘

عام انتخابات سے قبل کی بات ہے پہلی ملاقات محترم سجاداللہ سے اُن کے چچا حضرت مولانا عبیداللہ مرحوم کے اچانک دل کا دورہ پڑنے پر اسلام آبادکے پمز ہسپتال کے باہر ہوئی جہاں ایک نوجوان کالی سی کرولا میں آکر ہسپتال کے باہر کوہستان عیادت کیلئے آنے والوں سے محوگفتگو تھا۔ قریب سے سننے کا موقع ملا تو لرزتی دھکتی آواز میں دکھ اور غم ہم پلہ تھے۔ حضرت مولانا عبیداللہ مرحوم کے انتقال کے بعد ایبٹ آباد میں اُن کی اشتراکی گھر میں مہانوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک انجینئر صاحب اُٹھ کر قبرستان کی طرف چلے دئے ، ذرا جھانک کر دیکھا تو اپنے والد محترم حضرت مولانا عبدالباقی مرحوم کی قبرپر فاتحہ خوانی کے دوران آنسوں بہا کر رورہے تھے شائد کہ اسی دن سے ہی عزم کرلیا ہو کہ ’’اے والد محترم تیرا مشن جاری رکھونگا‘‘۔ مولنٰا عبدالباقی مرحوم (سابق وزیر) کی اس صوبے کی عوام کیلئے کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اُن کے دوراقتدار میں ضلع کوہستان کا قیام ، ایوب تدریسی ہسپتال جیسے اہم مراکز کا قیام وغیرہ بنیادی ترقی کے آثار ہیں جن کے ناقدین بھی معترف ہیں(ان پر بھی مفصل بات ہوسکتی ہے مگر پھر کبھی)۔ضمنی الیکشن کے دوران بطور صحافی مختلف تقاریب و محافل میں انجینئر سجاداللہ کے ساتھ شریک سفر رہا اور بہت قریب سے دیکھنے اور جانچنے کاموقع ملااور بعدازاں عوام کی اکثریت نے موصوف کو ایم پی اے بھی چنا۔ کیفیت یہ تھی کہ لوئر کوہستان کی اکثریتی عوام اُن کے ہمراہ شریک سفر تھی اور پشاور کے ایم پی اے ہاسٹل کے دونوں کمرے ہمہ وقت مہمانوں سے کھچاکھچ بھرے ہوا کرتے تھے۔ کسی کو بھی یہ کہتے نہیں سنا کہ آپکا فلاں کام نہیں کرسکتا۔

کوہستان کی سیاست عام طورپر دو پہلو وں کے گردگردش دوراں رہی ہے جس میں ایک گروپ دوسرے گروپ کو بالواسطہ یا بلا واسطہ نقصان دینے پر سبقت لیتا رہاہے اور دھڑ ے بندیوں اور گروپوں کی شکل میں سینکڑوں دشمنیاں بھی جنم دے گئی جو کئی سو زندگیوں کو نگلنے کا باعث بنی ۔کوہستان کے لیول پہ اگر سوچ لیا جائے تو آر پار، زبان ، رنگ ونسل ، امیر و غریب، ڈوم ،جولا،نصف ٹولوں کے جھرمٹ میں پھنسی عوام کو کشتی نیا پار کرانے میں باقی خاندان کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ۔یہاں تک کہ اپنے سیاسی حریفوں کو مفادات دئے نقصان نہیں جس کا ریکارڈ گواہ ہے۔

جب مولانا عبیداللہ مرحوم انتقال کرگئے تو چہ مگوئیاں ہورہی تھیں کہ اب یہ خاندان سیاسی یتیم بن گیا مگرمحبو ب اللہ جان صاحب اور انجینئر سجاداللہ کی صورت میں یہ خاندان سر چڑھ کر بولنے لگا، سجاداللہ کی صورت میں ایک ایسا چمکتا ستارہ ملا جو چمکتے چمکتے چھاگیااور جو علاقائی سیاست تو کیا قومی افق پر بھی ہمہ گیر بن رہاہے۔معاملہ فہمی ، حالات کا ادراک ، صبر و استقامت ، مدلل انداز گفتگو،جذبہ اخوت وبھائی چارگی سے سرشار اس فرد کو رب ذولجلال نے بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے ۔کوہستانی قوم کی حالت زار پر انتہا درجے کا درد رکھنے والے اس فرزند نے متعدداعلیٰ مقامات پر حکومت وقت کی سرزنش بھی کی اور اپنے مختصر دوراقتدار میں تاریخ ساز تعمیراتی کام بھی کئے جس پر اُن کے حریف بھی معترف ہوکر دنگ رہ گئے۔مولانا فضل الرحمن اور علماء دیوبند کے بڑے فین ہیں اور ہر محفل میں تنقید کا ڈت کر مقابلہ کرتے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ حالات کا کیسے مقابلہ کیا جاتاہے ۔ دوراقتدار کے دنوں کاروبار زندگی مفلوج رہا ۔ امداللہ صاحب نے سرتوڑ کوشش کی مگر پھر بھی اچھی طرح سمبھل نہ سکے ۔ حالات یہاں تک آئے کہ راقم سے بھی چند دنوں کیلئے مالی مدد لی گئی جوبہت معمولی تھی۔اندازہ کیجئے کہ کیسے دلیری،جواں مردی او ر ہمت سے حالات کا مقابلہ کیاگیا، پھر وہی پوزیشن بحال جس پر پہلے فائیز تھے ۔ اب ایم پی اے نہیں مگر معاشی استحکام میں کوئی کمی نہیں ، نظام زندگی بہترین لائف سٹائل ، گھر پر مہمانوں کا رش اور قوم کی خدمت کا مشن لئے اپنے آج کو کسی کے کل پر قربان کرنے والے اس بے ضرر فرد کو ’’ہیرو‘‘ نہ کہیں تو کیا کہیں؟

دوسری بات ، یاریاں و دوستیاں بدلنے کاز مانہ عام ہے کسی سے کیا گلہ ؟طاقت ور کی طاقت ، بااثر کا اثر اور جابر کا ظلم کا اندازہ اُسے خود کہاں؟اس کا اندازہ و ادراک تو اس معاشرے کے افراد کو ہی ہوتاہے ۔ یہ گلہ کہ عوامی مسائل میں اُن کے شانہ بشانہ نہ ہونا اور الیکشن کے دنوں حاضر ہونا بجا ہے ، عوام سے روابط کا تسلسل نہ رکھنا اور غمی خوشی میں بذات خود شریک نہ ہونا ،جس کا راقم کے پاس کوئی جواب نہیں ۔ مصروفیات اپنی جگہ مگر قوم کا لیڈر قوم کے دکھ درد میں شریک ہوتاہے میرے پاس کوئی جسٹفیکیشن نہیں۔۔ (خیر کوئی اسے قصیدہ کہے یا حقیقت میرے نزدیک یہ’’ احساس‘‘ ہے )

میری دُعا ہے کہ آپ سدا سلامت رہیں ۔۔ آمین ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button