کالمز

شدت پسندی کے اثرات

تحریر : بشارت ظہیر

شدت پسند کم وبیش دینا کے ہر معاشرے ، مذہب اور تہذیب میں پائے جاتے ہیں لیکن ان کی تعداد مٹھی بھرپورے معاشرے کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتی ہے وہ اپنے اصولوں پر اپنی زندگی بسر کرتے رہتے ہیں اور اپ نی درسگاہوں تک محدود رہتے ہیں اس کی مثال ہمیں آج کی ترقی یافتہ یورپ میں بھی ملتی ہے جہان پر کچھ لوگ سیکولر معاشروں میں جہاں شخصی آذادی اپنی انتہا پر ہے وہاں بھی سختی سے اپنی شدت پسند ادانہ خیالات پر کاربند ہیں ہاں وہریاست اور نظام سے متصادم نہیں بلکہ اپنی مذہبی مقامات تک ہی محدود ہیں

تشویش ناک صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ شدت پسندانہ عناصر ریاست اور نظام پر اثر انداز ہو کر پورے معاشرے میں اپنا وجود متعلق ایک خوف اور دہشت پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ پاکستان گزشتی چند ہائیوں اسی طرح کے صورت حال سے دو چار دکھائی دیتا ہے۔یہاں شدت پسندوں نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور وہ ریاست اور اس کے نظام کو چلینج کر رہے ہیں

آج بھی پاکستان کا نظام تعلیم ایسا کوئی کرادار ادا کرنے میں ناکام ہے جس سے عوام میں قرار واقعی سماجی شعور اور انسانی رویے فروخت پا سکے اور ہم تعصبات کی تنہائی سے نکل کر عالمگیر معاشرے کا باوقار حصہ بن سکے ۔ آج بھی ہمارا نظام تعلیم روا داری انسان دوستی اور مسلمہ امسانی قدار پر خاموش ہے اور ہم خطے میں امن سلامتی اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہیں آج کے ہمارے نصاب کے مضامین اپنی کمزریوں کو زیر بحث لانے کے بجائے غیر ضروری معاد سے بھرے پڑے ہیں ان سے زیادہ ضروری تھا کہ ہمارے قومی نصاب تعلیم میں نوجوانوں کو یہ پڑھایا اور سمجھایا جاتا ہے کہ ہم ایک ہم ایک الگ مملیکت قائم کرنے کے باوجود غربت جہالت مانیاز کے رواج وڈپر ستاہی اور جاگیرانہ نظام کو ختم کیوں نہ کر سکے ہم آج جددیاں کے ساتھ چلنے کے قومی تقاضے کیسے پورے کر سکتے ہیں ترقی یافتہ معاشرے کی جدید صنعت و حرفت سائنس علوم مہارتیں اپنے ہاں کیسے منتقل کی جا سکتی ہیں دیگر ممالک نے سماجی انصاف کے حصول اور معاشی نا ہمواریوں کو ختم کرنے کے لئے کیا تجر بات کئے ہیں ان سے کیسے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں

جیسا کہ اس امر کا ذکر پہلے آچکا ہے کہ مغربی ممالک میں جتنے بھی مذاہب کے پروکار ہیں ہر کوئی اپنے اندار ایک شدت پسندانہ خیالات بسائے ہوئے ہیں لیکن اپنے شدت پسند انہ خیالات کے اظہار سے کس بات نے روکا ہوا ہے ؟؟ ہم کبھی یہ کیوں نہیں سوچتے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں بسنے والے بھلے ہی شدت پسند کیوں نہ ہوں اپنے جذبات اپنے ملک اور اپنے قوم کی خاطر اپنے قابو میں رکھتے ہیں اور اس کے انجام سے بخوبی واقف ہیں اور یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ شدت پسندانہ خیالات سے حاصل تو کچھ نہیں ہونے والا جو کچھ حاصل ہے اسے بھی کھو کر زمانے رسوا ہو کر پستی اور زبوں حالی کا شکار ہونا پڑے گا ۔

پاکستان میں شدت پسندی کی تاریخ ضیاالحق کے آمرانہ دور سے شروع ہوا ضیاالحق نے شدت پسندی کو حوصلہ بخشا جس کے باعث شدت پسندوں کو سیاست سمیت اہم معاملات میں مداخلت کا موقع ملا اور شدت پسندی روز بہ روز بڑھتی گئی ضیاالحق کے دور سے شروع ہونے والی شدت پسندی کے اس بنیادی پودے کی زرخیزی میں کچھ سیاسی جماعتوں کا بھی کردار ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے بعد اذاں شدت پسندی کی شدید شہری کا نام دے کر سیاست کا سہارہ لیا ملک کے دیگر حصوں کی طرح بلآخر گلگت بلتستان کا پر امن خطہ بھی شدت پسندی کے زد میں آگیا اور اب یہ آگ بلتستان کے پر امن مقامی معاشرے میں بھی سرابت کرتی جا رہی ہے بلتستان کے پرامن فضا کی ،مثالیں دی جاتی ہیں مجالس عزا ء کا مقامی ماحول ہوتا ہے اہل تشع کے علاوہ دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد بھی مجالس عزاء مین شرکت کر کے ساتھ ساتھ مجالس کے انتظامات سبلیں لگانے اور دیگر معاملات میں بھی حصہ لیتے ہیں اللہ کرے بلتستان کی اس پر امن فضا کو کسی کی نظر نہ لگ جائے لیکن بد قسمتی سے حالیہ سالوں میں مجلس عزاء کو سیاسی رنگ دینے کی کو شش کرنے والے کچھ عناصر نے مجالس عزاء میں سیاسی تقریریں شروع کر دی ہیں جس سے مجالس کی روح متاثر ہو رہی ہے

حال ہی میں ہمارینامی گرامی عالم دین جن کا تعلق اک سیاسی جماعت سے بھی ہے نے ایک انتہائی حساس موقع پر شدت پسندی کے آخری حد کو پار کرتے ہوئے بہت سے سیاسی رہنماوں اور عوامی نمائیندوں کو انتہائی نا زیبہ الفاظ کا ستعمال کرتے ہوئے ان کو نشانہ بنایا اور بغیر سوچے سمجھے ان پر شدید نقطہ چینی کی باوجود اس کے یہی لوگ ایک ہی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے ایسے رد عمل سے عوام میں شدید اختلافات پیدا ہو سکتی ہیں اور شدت پسندی کے آگ میں بلتستان کو بھی اپنے لپیٹ میں اس طرح لے گی جو حالات اس وقت پاکستان کی ہے۔اس موقع پر انتظامیہ لاچار اور بے بس ہو کر تماشا دیکھتی ہوئی نظر آتی ہے اگر یہی صورت حال رہا تو حاصل تو کچھ بھی نہیں ہوگا لیکن جس مقام پر آج ہم کھڑے ہیں ہمیں اس سے بھی پیچھے ہٹنے پر مجبورہونا پڑے گا بجائے اس کے ہم علاقے کی فلاح کیلئے اپنے ذاتی مفادات کو پس بشت ڈلاتے ہوئے کام کریں بلکہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھیچنے میں لگے ہوئے ہیں ایسے لوگوں کو یہ بات ہر صورت سمجھنا ہوگا کہ انہیں بجائے شدت پسندی استعمال کرنے کے ان سیاسی رہنما اور عوامی نمائندوں کو کامیاب کرئینمائندوں کو عوام چنتی ہے اور عوام ہی اگر آپ سے اختلاف کرتے ہیں تو ایسے خیالات آپ کو کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا موسوائے نقصان کے ۔علماء کو ایسا رویہ زیب نہیں دیتا اورعلماء کو دین اور شریعت کے پروکاروں میں رول ماڈل کی حییثت حاصل ہے اگر علماء ہی ایسے عمل کا ارتکاب کر بیٹھیں تو معاشرے کا کیا ہوگا تعلیم کے فروغ میں ذمہ دار حضرات کے ساتھ ہر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء سیاسی قائیدین اور جماعتیں جب تک ایک ہو کر متفیقہ طور پہاپنے خیالات کو پس پشت ڈال کر علاقے کے لئے مخلص ہو کر نہ سوچیں ہم ترقی کرنے کے بجائے پشتی اور زبوں حالی کا شکار ہوتے رہیں گے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button