کالمز

اپنے بچو ں کے بارے میں جاننا – دوسری قسط

۱: بچے خد ا کی تخلیق کا ایک معجزہ ہیں

بچے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سب سے عظیم نعمت ہیں یہ ایک انسان کیلئے کسی معجزے سے کم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے جیسے چاہے اس نعمت سے یا اس معجزے سے نواز تا ہے ۔ بچے جوکہ معصوم ہو تے ہیں وہ اپنے گھر سے ہی اور ماں کی گود سے بلکہ یہ کہا جائے کہ ماں کے پیٹ سے ہی تر بیت پا نا شروع کر تے ہیں ان کی نشو ونما پر ماں کی صحت اور خو شگوار ماحول کا بڑا اثر پڑتاہے۔ بی بی سی والے ایک تحقیقاتی مسلہ کے بارے میں بتا رہے تھے کہ ایک ماں کو جب معلوم ہو ا کہ وہ ماں بننے والی ہے تو شروع دن سے ہی وہ ایک میو زک جو ا سے بہت پسند تھی ہر وقت سننے لگی وہ جدھر جاتی وہ کیسٹ پلیر پاکٹ میں رکھتی اور وہ کیسٹ سنتی یہاں تک کہ اس کے ڈیلوری کے دن آگئے اور وہ ہسپتال میں ایڈمٹ ہو گئی اور اس کے ہاں ایک چاند سا بیٹا ہو ا لیکن اُس نے پیدا ہو نے کے بعد رونا شروع کیا اور چپ نہیں ہو رہا تھا ڈاکٹر پریشان ہو گئے کہ بچے کو کئی گھنٹے گذر گئے مگر اس کا رونا بند نہیں ہوا ۔ آ خر اس کے ماں نے ڈاکٹر سے اس بات کا ذکر کیا تو ڈاکٹر نے فوراََ اس کیسٹ کو منگواکر سنا نے کو کہا اور اس طر ح جونہی اس کی ماں نے ٹیب ریکاڈر آن کیا اور گانے کا ساز سنتے ہی بچہ چپ ہو گیا اور اس با ت سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بچہ جنم سے پہلے ہی تربیت حاصل کر تا ہے ۔ اس سے یہ بھی ایک سبق ملتا ہے کہ ماں کو دوران حمل ہر وقت خوش رہنا چاہیے۔اور ساتھ ساتھ اچھی خوراک بھی لینا چاہیے اور ماں اگر صحت مند ہے تو بچہ بھی صحت مند ہو گا ۔

لہٰذا ہمیں اپنے بچوں کے بارے میں جاننا نہایت ضروری ہے کسی پرو فیسر نے کیا خو ب کہا ہے کہ میرے بچے ہو نے سے قبل میرے پانچ نظریات تھے مگر اب میر ے پانچ بچے ہیں لیکن میرے کوئی نظریا ت نہیں ہیں ۔ اس کا یہ مطلب ہے بچے ہو نے کے بعد انسا ن کے اپنے بچوں کے نظریات ان کے خیالات اور خواہشا ت کا خیال رکھنا چاہیے۔

بچے کی جسمانی نشو و نما

بچہ جب پیدا ہو تا ہے تو اس وقت وہ دوسروں کا محتاج ہو تا ہے آہستہ آہستہ وہ پرورش پا رہا ہو تاہے ۔وہ ہاتھ پاوں ہلاتا ہے اور مسلسل ہلاتا ہے یہ ہاتھ پاو ں کا جو ہلانا ہے یہ مفت میں نہیں بلکہ اس سے بچے کا جسمانی نشوو نما ہو رہا ہوتا ہے اس کی ورزش ہو تی ہے خون گردش کر رہا ہو تا ہے اور اس کے جسم کا ہر عضا مضبو ط ہو تا ہے اس کے رگیں ، پٹھے اور ہڈیاں روز بروز مضبوط ہو تی ہیں اور آہستہ آہستہ بڑھتا جا تا ہے۔ پھر بچہ بیٹھنے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ ہاتھ اور پاوں کی مدد سے وہ گسیٹ گسیٹ کر آگے پیچھے حر کت کرتا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جات ہے پھر کھڑا ہونے کی کوشش کر تا ہے اور یہاں تک کہ ایک جگہ کھڑا ہو نے کے قابل ہو جا تا ہے اور پھر چلنے کی کو شش کر تا ہے اور چلنے پھر نے کے قابل ہو تا ہے۔ اس دوران وہ چیزوں کو چھو تے ہیں اور غور سے مشاہد ہ کر تے ہیں اور چیزوں کو چھو کر محسوس کر تے ہیں ان کو سو نگتے ہیں اور منہ میں لگا کر ذائقہ معلوم کرنے کی کو شش کر تے ہیں اگر اس دوران بچوں کو غور سے دیکھیں تو معلوم ہو تا ہے کہ وہ مشاہدہ کر تے ہیں اور کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کر تے ہیں اس طرح بچوں کی ان حر کتو ں کی وجہ سے ان کے ارد گرد کے لو گوں کو احساس ذمہ داری ہو تی ہے کہ بچے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا تے ہیں تو ان کے سامنے کوئی ایسی چیز تو نہیں پڑ ی ہے کہ جس سے ان کو نقصان پہنچے مثلاََ کوئی نوک دار چیز یا آگ کے نزدیک تو نہیں یا بجلی کے آلا ت و غیرہ۔ اس لئے ان کو آسانی سے گھومنے پھر نے کیلئے ما حول پیدا ء کیا جائے تاکہ بچے آزادی سے گھوم پھیر سکیں اور خود مختاری حا صل کریں اور اپنے آپ چلنے پھرنے کے قابل ہوں ۔

۲: بچے کی غذا :۔ بچے کی پیدائش سے قبل ہی اسکو غذا کی ضرورت ہو تی ہے پیدائش کے بعد بچے کیلئے سب سے ضروری اور اچھا غذا ماں کا دودھ ہے بچے کو ماں کا دودھ دو سال تک پلانے کیلئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے لہٰذا کم از کم دو سال تک ماں کا دودھ نہایت ضروری ہے ماں کے دودھ میں بہت سی بیماریوں کی روک تھام بھی ہے۔ لہٰذا ماں کو اچھا غذا مہیا کرنا ضروری ہے۔ماں جتنی خوش خوراک ہو گی بچے بھی ہر قسم کی خوراک پسند کریں گے۔ اچھے خوراک سے مراد صرف گوشت نہیں بلکہ سبزیاں ، پھل فروٹ ، دالیں ، ڈوڈو ، سبزی کا سوپ اور اگر میسر ہو تو گوشت یا مرغی کا سوپ اور کم پکی سبزیاں وغیرہ بہت اہم ہیں ۔ اور اگر ضرورت پڑے تو ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں

() زبان سیکھنا:۔ بچے کی جسمانی نشوونما کا ایک حیرت انگیز پہلو زبان سیکھنا ہے وہ ماں کی گود میں ہی ماں کا زبان سیکھتاہے پھر اپنے ارد گرد کے ماحول میں بولی جان والی زبان کو جلدی سیکھتا ہے بچہ پہلے سنتا رہتا ہے پھر آہستہ آہستہ سیکھتا ہے۔ بچہ ماں کو اور گھر والوں کو بولتے ہو ے زبان اور ہونٹوں کو غور سے دیکھتا ہے پھر کچھ توتلے زبان میں بولتا ہے اور پھر پور ے طریقے سے بولنے لگتا ہے۔ بچہ چھوٹی عمر سے ہی اپنے جسمانی اور ہونٹوں کی حرکت سے کچھ نہ کچھ بولنے کی کوشش کرتا ہے اس لئے بچوں کو غور سے سننے کی کوشش کر نی چاہیے ۔جب بچیے اپنے احساسات اور خیالات کا اظہار کریں تو ان کو آزادی سے ایسا کر نے کا مو قع دیا جانا چاہئے۔بچے بات بات پر سوال پوچھتے ہیں اور دلائل چاہتے ہیں کوشش کیا جائے کہ ان کے سوالات کو پہلے تو غور سے سنا جائے اور پھر ان کے سوالات کا نہایت پیار سے جواب دیا جائے اور انکی تسلی کرایا جائے۔

بچے کی ذ ہنی نشو و نما :

بچے کی ذہنی نشو و نما کیلئے بچے کی ابتدائی عمر نہایت اہم ہے وہ بچپن میں بغیر کسی محنت کے یا زیادہ کوشش کے زبان سیکھتا ہے مگر بڑے ہو کر سیکھنے کیلئے کافی محنت کر نی پڑ تی ہے بچے بغیر کسی با قائدہ تعلیم کے اردگرد کے ماحول کی زبان سیکھتے ہیں بچوں کی ذہنی نشو ونما کیلئے انہما ک کی ضرورت ہے اس لئے بچو ں کو انفرادی طور پر کام کر نے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ دلچسپی سے کام کر نے لگیں اور مختلف ذہنی صلاحیتوں کا موقع ملے اور خود اعتمادی میں اضافہ ہو۔

( ) بچوں کی سوچ اور فکر کی نشو ونما میں کس طرح مدد کی جائے ۔

ا۔ گھر کی ضروریات زندگی کی خریداری میں بچوں کو شامل کیا جائے تاکہ وہ اپنی پسند اور نا پسند کا اظہار کر سکیں۔

۲۔ بچو ں کو اپنے پسندیدہ مشغلے کو انتخاب کر نے دیں اور اس سے متعلقہ چیزوں کو جمع کرنے کا موقع دیا جائے۔

۳۔ ہر ہفتے کے اختتام پر گھر کے افراد جمع ہو کر پورے ہفتے کا کارکردگی بتا ئے کہ اس نے گذشتہ ہفتے کے دوران کیا کیا ہے اور آنے والے

ہفتے کے دوران کیا کریں گے۔

۴ ۔ بچوں کے سوالات کا مثبت انداز میں جواب دے کر مدد کی جاسکتی ہے۔

۵۔ بچوں کے مسائل حل کرنا : ذہنی نشو ونما کی ایک مشق ہے ۔ گھر کا ما حول ایسا ہو کہ پڑھنے لکھنے کے علاوہ والدین کے ساتھ ان کے مسائل کو حل کرنے میں مدد دیں اس میں یہ کام کیا جا سکتا ہے

۱؛ مسلے کی نشان دہی ۔ بچوں کی ذہنی نشو ونما کیلئے والدین بچوں سے کسی مسلے کی نشان دہی کیلئے کہیں ۔پھر ممکنہ حل کیلئے ان کو مو قع دیں اس معاملے میں بچوں سے ملکر اس کی مختلف پہلوں پر غور کریں اور حل نکالے۔

ب: مسلے کو حل کرنے کیلئے معلومات : بچوں سے بات کیا جائے کہ اس مسلے کے بارے مزید معلومات کس طر حاصل کیا جائے۔ کیا کسی کتاب کی مدد لی جاسکتی ہے یاکسی بندے سے پو چھا جاسکتاہے

بچوں کے تخلیقی کام

بچوں میں مختلف تخلیقی کر دار ہو تے ہیں جو کسی سائنسدان یا کسی آرٹسٹ میں پائے جاتے ہیں ۔ چو نکہ وہ کسی چیز کو چھو کر محسوس کرنا چاہتے ہیں

کسی چیز کو منہ میں ڈال کر چھکنا چاہتے ہیں اور یہی عمل ہے جو بچوں کو کسی چیز کے بارے میں یا دریافت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔

بچے کی معاشرتی نشو ونما

معاشرتی نشو ونما کا پہلا زینہ والدین ہیں چونکہ اگر والدین ایک دوسرے سے محبت کر تے ہیں اور گھر میں خوشگوار ماحول ہے تو یہی سے بچے میں معاشرتی زندگی کیلئے ایک اچھا احساس پیدا ہو تا ہے۔ والدین کا جو رویہ معاشرے میں ہو گا بچے بھی وہی رویہ اپناتے ہیں والدین کی کہانیاں جو وہ بچوں کو سناتے ہیں معاشرتی زندگی کیلئے اہم کردار ادا کرتی ہے۔

بھائی بہنوں میں آپس میں دوستی اور جلن

بچوں کا ایک دوسرے سے دوستی بھی ہو تی ہے اور جلن بھی و ہ اس طرح کہ جس گھر میں افراد ایک دوسر ے سے خیالات کا تبادلہ کر تے ہیں اور ایک دوسرے کی مسائل مل بانٹ کر حل کرتے ہیں تو وہاں بڑے بہن بھائی چھوٹوں کیلئے مثا ل ہو تے ہیں اور وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور معاشر ے کے بہترین افراد بن سکتے ہیں۔ بعض دفعہ جب بچے کسی بات پر ایک دوسرے سے بحث کر تے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو برا بھلا بھی کہتے ہیں بعض دفعہ والدین کا ایک بچے میں زیادہ دلچسپی بھی ایک دوسرے سے جلن کا باعث بنتاہے

بچوں کی آپس کی جلن کو کیسے دور کیا جاسکتاہے،

(۱) بسا اوقات پہلے بچے کی پیدائش پر گھر والے بہت خوشی کا اظہار کرتے ہیں وہ اس کو آنکھوں کا تارا مانتے ہیں مگر دوسرے بچے کی پیدائش پر یہ محبت تقسیم ہو جاتاہے اور یہی چیز بچوں کی ایک دوسرے سے جلن کا سبب بنتاہے۔

(۲) دوسرے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی بچے کو ذہنی طور پر تیار کیا جائے

(۳) دوسرے بچوں کی چیزوں کی خریداری میں بڑ ے بچوں سے مشورہ کیا جائے۔

(۴) خاندان کے افراد کو کبھی بھی بہن بھائیوں کا مقابلہ نہیں کرانا چاہیے۔

(۵) والدین کو بعض بچوں کیلئے بڑے بڑے ٹائٹل استعمال نہیں کرنا چاہیے اس سے دوسروں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔

(۶) بچے جب ملکر کام کریں تو ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے،

بچے کی جذباتی نشوو نما

چلبلے بچے

بچوں کے اپنے جذبات ہو تے ہیں اور بعض بچے تو ایسے ہوتے ہیں جو کہ بہت زیادہ ایکٹیو ACTIVE ہو تے ہیں وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتے ہیں ، لا پرواہ ہوتے ہیں وہ کسی کام پر دھیان نہیں دے سکتے ، غصے والے ہو تے ہیں اور بہن بھائی اور دوسرے بچوں سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں اور ایسے بچے بہت زیادہ مسائل کا سبب بھی بنتے ہیں۔

ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے

۔ ان کے ساتھ سلوک اگر نہایت احتیاط سے کیا جائے تو یہ بہتر ہو سکتے ہیں

۔ ان کو آرام سے کھڑے ہو نے اور ہر کام نہایت احتیاط سے کر نے کو کہا جائے تو آہستہ آہستہ یہ بہتری کی طرف آسکتے ہیں

۔ استاد اور والدین اس کے ساتھ دوستی کریں تو یہ اپنے عادات کو چھوڑ سکتے ہیں

۔ ان کے قوت برداشت کو بڑھا کر ان کی عادت کو کم کیا جا سکتاہے اور دوستی سے آہستہ آہستہ ان کی جذبات میں کمی آسکتی ہے۔

ؓبچے کی اخلاقی نشو و نما

اخلا قی نشو و نما سے مراد یہ ہے کہ بچوں کی عمر کے مطابق انہیں معاشرے کے اچھے اخلاق کے بارے میں بتا یا جائے ان کے اچھے اخلاق کی تعریف کی جائے سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم بڑوں کو ان کے سامنے اچھے اخلاق کا مظاہرہ کر نا چاہیے۔

بچو ں کی اخلاقی تربیت کے چند اہم اصول

(۱) بچوں کی اچھے کام کی تعریف کی جائے

(۲) ہر وقت ہم بچوں سے صرف اور صرف توقعات ہی نہ رکھیں بلکہ ان کی خواہشات کو بھی سمجھنے کی کوشش کی جائے

(۳) ان کو سلیقہ سکھایا جائے مثلاً سکول سے آکر اپنے چیزوں کو وہ کہاں رکھیں اور یہ ان کی عادت بنائی جائے

(۴) بچوں کو خود اپنا کام کر نے کا موقع دیا جائے

(۵) بچے عموماً وہ نہیں کرتے جو ان سے کہا جائے بلکہ وہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے سامنے کیا جائے اس لئے ان کے سامنے اچھے اخلا ق کا مظا ہرہ کیا جائے۔

(۶) بچوں کو اپنے خیالات اور احساسات کا کھل کر مظاہرہ کرنے کا موقع دیا جائے۔

(۷) اچھی کہانیاں، ٹی وی کے اچھے پروگرام ، سکول اور گھر کا ماحول اور دوست سب ملکر بچوں کی اخلاقی نشوونما میں مدد کر تے ہیں۔

(۸) بچوں کے ساتھ گفتگو کی جائے تاکہ وہ دوسروں سے اخلاقی بات چیت کرنے کیلئے عادی ہوں کبھی کبھی ان سے یہ پوچھا جائے کہ ان سے اگر کوئی اخلاقی بات کرے تو کیا محسوس کر تے ہیں اور اگر کوئی ان سے بد اخلاقی کا مظاہرہ کرے تو کیسا محسوس کر یں گے۔

بچے کی روحا نی نشوونما

ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے صرف ظاہری حواس خمسہ کے ذریعے ہی چیزوں کو محسوس نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے باطنی حواس کو بھی استعمال کر تے ہیں بچے کی ایسی تمام صلاحیتوں کا تعلق ان کی روحانی نشوونما سے ہے ۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ بچے آس پاس کی چیزوں کو محسوس کر تے ہیں آسمان ، سورج چاند ، ستارے ، ہوا ، پھول اور درخت وغیرہ کے بارے میں سوالا ت پوچھتے ہیں وہ ایک انجانے احساس رکھتے ہیں ۔

ان دیکھی دنیا کا احساس

اکثر والدین اور اساتذہ کا مشاہدہ ہے کہ بچوں میں ان دیکھی دنیا کا شعور پایا جاتاہے۔ چونکہ بچے کے اندر ہر ایک چیز کی اثر قبول کرنے کی صلاحیت ہو تی ہے ۔ اکثر بچے ایسے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں جہاں خدا کو یاد کیا جاتا ہو ۔ اگر بچے کی ماں اسے عبادت گاہ لے کر جاتی ہو تو اسکا اثر وہ جلدی قبول کر تا ہے اور بچے کے اندر بھی مذہبی تحریک پیدا ہو تا ہے جو کہ کتابی تعلیم سے نہیں ہو سکتا ۔ اس کی ایک مثال دیتا ہوں میرا اپنا بڑا بیٹا فوٹو گرافر ہے وہ ایک دن مجھے سنا رہا تھا کہ اس کے دوکان میں ایک دو سالہ بچے کو اسکا باپ لے کر آیا اور وہ بچہ دوکان میں آتے ہی ارد گرد تما م دوکان میں دیکھا پھر اچانک حاضر امام حاضر امام کہنے لگا چونکہ اس نے حاضر امام کا فوٹو دیکھا تھا اور ایک دم اس کے اندر ، روحانی جذبہ پیدا ہو ا اور پھر اس بچے کو حاضر امام کا ایک فوٹو فریم کر کے دیا گیا تو اس نے دونوں ہاتوں سے پگڑ کر اس تصویر کو چوما اس سے معلوم ہو تاہے کہ بچوں کے اندر ایک روحانی قوت بھی پایا جاتا ہے اور وہ نشوونما پاتاہے۔

اس کی ایک اور مثال کتاب میں لکھا گیا ہے کہ ایک بو ڑھا شخص اپنے باغ میں بیٹھ کر آسمان کی طرف نظر یں اُ ٹھا ئیں دیکھ رہا تھا تو ایک چھوٹی بچی وہاں آ ئی اور اس بو ڑھے شخص سے پوچھا کہ وہ آسمان میں کیا دیکھ رہا ہے اس بوڑھے شخص نے کچھ تعمل کے بعد کہا کہ بیٹا میں خدا کو ڈونڈ رہا ہو ں تو اس ننھی سی بچی نے بڑی معصومیت سے کہا کہ بابا کیا آپ کو پھول کی اس پتی میں خدا نظر نہیں آ تا ، کیا بارش کے قطرے میں خدا نظر نہیں آتا ۔میری امی کہتی ہیں کہ اگر آنکھیں بند کر کے اپنے اند ر بھی دیکھا جائے تو خدا اپنے اندر بھی نظر آتا ہے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس بچی میں روحانی پہلو نمایا نظر آرہا ہے اس طرح اگر والدین اپنی اولاد کی پرورش کریں تو بچوں کی روحا نی نشوونما بھی بہترین ہو سکتا ہے۔

بچے میں اپنی ذات کا احترام پیدا کر یں

بچے کی نشوونما کے سلسلے میں جسمانی ، معاشرتی ، اخلاقی اور روحانی تمام پہلوں کو پورا کر نے کے بعد ایک سب سے ضروری پہلو بچے کی ذات یا عزت نفس کی تکمیل آتا ہے اگر آپ اپنے بچے کی احترام نہیں کر تے تو اس کا مطلب یہ ہو ا کہ بچے کی عزت نفس مجروح ہو جاتاہے اور وہ بچہ کسی کام کا نہیں رہتا لہٰذا بچوں کی ذات کا حترام پیدا کریں تاکہ اس کی خود اعتمادی بحال رہے۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ میں ایک دفعہ شاہد اللہ بیگ صاحب کے دفتر میں بیٹھا تھا جو کہ پاکستان کا ایک قابل ترین سکریٹری رہ چکا ہے جو کہ خان صاحب ہمایوں بیگ کا بیٹا ہے اور میرے ساتھ ایک اور مہمان بھی اس کے دفتر میں تھا اور وہ بھی ایک سکریٹری تھا ۔ اتنے میں دو چھو ٹے بچے دفتر میں داخل ہوے اتنے میں شاہد اللہ بیگ صاحب کھڑے ہو گئے اوران بچوں کو اس طرح ویلکم کیا جیسا کوئی بڑا مہمان ہو ۔ تو میں بھی اور وہ دوسرا مہمان بھی کھڑے ہو گئے اور شاہد صاحب نے جب تعرف کرایا تو وہ دونوں اس کے اپنے بچے تھے اور وہ دونوں ایک ہی شکل کے جوڑواں بچے ہیں۔ اس سے اندازہ لگائے کہ وہاپنے بچوں کو کتنا عزت دیتے ہیں

جاری ہے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button