کالمز

دیامر میدان جنگ کیوں؟

 تحریر۔اسلم چلاسی

دیامر بھا شہ ڈیم جس کی بنیاد میں جھوٹ فریب مکاری شامل ہے پٹوار سے سر کار تک سبھی نے دیامر ڈیم کو بہتی گنگا سمجھ کر ہاتھ صاف کیا وطن کے نام پر لو گوں کی جزبات سے غلط فائدہ اٹھا یا گیا ہے آٹھ سے دس لاکھ میں لوگوں کے مضروعہ اراضیات کو اونے پونے میں نیلام کر دیا گیا مکانات اور باغات کا تو تذکرہ ہی ٖفضول ہے دیامر ڈیم ایک ہی پروجیکٹ ہے مگر رول مختلف استعمال کیے گئے ہیں۔ مساوی مکان ہے، کیٹگری بھی ایک ہے مگر معاوضہ میں اتنا فرق ہے کہ دماغ دنگ رہ جائے۔ شکایت پر اپنے اپنے قسمت کی تلقین ۔۔۔بھائی یہ کیسی قسمت ہے قطعہ بھی برابر سائز میں مسا وی کیٹگری بھی ایک رقم میں ایک تہائی کا فرق کیسے ؟ ایک کنال میں ایگریکلچر رول کے مطا بق محدود پودے تو دوسرے کنال میں بیشمار درخت کیسے آ سکتے ہیں ؟

یہ ایک ہی پروجیکٹ ہے ایک شخص کیلے الگ رول ہے دوسرے کیلے کوئی اور طریقہ۔۔بات پسند نا پسند کی نہیں ہے ۔ حلوے کی مثال ہے جتنا گڑ اتنا میٹھا والی بات ہے جس نے دل کھول کر خرچ کیا اتنا ہی فائدہ اٹھا یا کنجوس مکھی چوس ہی رہا ۔

پٹوار کی زبان برادری کے علاوہ کون سمجھتا ہے بس ایک (د) کا اضافہ کرنا ہے کام نکل جاتا ہے پھر وہ دال میں کچھ کالا ہو جاتا ہے اب (م)کی بھاری ہوتی ہے جب میم کا تڑکا دال کو لگ جاتا ہے تو فوراً کالے سے سفید ہو جاتا ہے۔ کیا لوگ ہیں! یہ ادارہ ملک میں ایسی طرح رہا میم دال کا چکر بھی یو ں حسب معمول چلتا رہا تو چوری چکاری کو کسی کا باپ بھی نہیں روک سکتا ہے۔ایک ہی رقبہ میں دو بھایؤں کی پشتنی ملکیت ہے ان کے درمیان میں میم جو کہ نہ جان نہ پہچان والا ٹپک پڑتا ہے بڑے بھائی کا کھیت چھوٹے بھائی کے خسرے میں ایک پلاٹ کو مشرق سے اٹھا کر مغرب میں!!

کیا شیطانی قبیلہ ہے کسی کے چند مرلوں کو کئی کنالوں تک گھسیٹ دیا دراصل یہ ہیرا پھیری کے ساتھ جادو بھی ہے جس کا نام پیمائش رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ دیامر میدان جنگ بن چکا ہے گھر گھر میں فساد ہے قبیلوں کے قبیلے آپس میں دست گریبان ہیں۔ ہڈور میں گزشتہ سال تین داسز کا ایوارڈ بن چکا ہے رقم بھی تیار ہے عدالت میں کسی نے ایوارڈ کو چیلنج کیا ہے جس کی وجہ سے رقم رکی ہوئی ہے کیس ریفری کورٹ میں زیر سماعت ہے اس کے با وجود بھی انتظامیہ اپنے پٹوار ما فیا کو دوبارہ پیما ئش کیلے کس غرض سے بھیجتی ہے ؟کیا ایوارڈ پر ایوارڈ بن سکتا ہے؟ کیا عدالت میں زیر سماعت کسی معاملے میں انتظامیہ کا مدا خلت تو ہین عدا لت نہیں ؟

چار حصوں میں برابر تقسیم اراضی ہے تین فریق سے چھپ کر راتوں رات ایک فریق سے ملکر پیما ئش کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ایسی طرح دیامر میں پیدا ہونے والے تمام معاملات انتظامی کمزوری کا نتیجہ ہے دونوں طرف سے پیشقدمی ہو رہی ہے ہزاروں لوگ آمنا سامنا ہے انتظامیہ لاؤ لشکر لیکر کھڑی ہے کوئی کاروائی نہیں ہوتی ہے گولیاں چلتی ہیں لو گ لہو لہان ہیں داریل تانگیر اور کوہستان تک سے عما ئدین آکر دونوں طرف سے لو گوں کو پیچھے دہکیلتے ہیں مگر ریاستی مشنری ساکت کھڑی ہے کون ظالم ہے کون مظلوم یہ کہنا مناسب نہیں ہو گا البتہ تما شائی بننے والا سب سے بڑا ظالم ہے ۔سونیوال قبائل اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں بٹوخیل ان کی ملکیت کی تردید کرتے ہیں اور یہ معاملہ آج پیدا نہیں ہوا ایک دہائی سے یہ توں تکرار ہے اس سلسلے میں کئی مرتبہ بٹوخٰیل اور سونیوال کے درمیان الفاظی جھنگ کا ماحول بن گیا اب تو بات گولیوں تک آگئی صبح سے دوپہر تک وقفہ وقفہ سے فائرنگ ہو تی رہی اور اس میں تقریباًً چھے افراد کی زخمی ہو نے کی اطلاع ہے یہ تو صرف آغاز ہے اب آگے جا کر معا ملہ مذید طول پکڑ سکتا ہے دیامر میں صرف بٹوخیل اور سونیوال کا مسلہ نہیں ہے تھک اور بٹوخیل کے درمیان تنازعہ عروج پر پہنچ چکا ہے تھک والے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں بٹو خیل بھی اپنے موقف پر ثابت قدم ہیں ہربن اور تھور والوں کے درمیان حدود کا مسلہ ہے جس میں کئی قیمتی جانے ضائع بھی ہو چکی ہیں بونر اور بٹوخیل کے درمیاں حدود کا تنا زعہ ہے پھر کھنر اور ہڈورکے درمیان بونڈری کا مسلہ ہے ایسی طرح بے شمار ایسی مسائل ہے جو آنے والے دنوں میں ما حول کو کشیدہ بنا سکتے ہیں۔

اگر دیا مر ڈیم ملک کی ضرورت ہے تو تمام معا ملات کو طول دینے کی بجائے خوش اصلوبی سے حل کرنے کی ضرورت ہے ورنا حالات تیزی سے تناؤ کی طرف جا سکتے ہیں اور خانہ جھنگی کا ما حول پیدا ہو سکتا ہے ۔دیامر ڈیم ملکی ضرورت ہے اور یہ ایک قومی منصوبہ ہے اس کو چند انتطامی افیسروں کے سپرد کرنا بیس کروڑ پا کستانی قوم کے ساتھ مذاق ہے وفا قی حکو مت کو چاہیے کہ فورًً معاملے کا نوٹس لیکر حالات کو معمول پر لانے کیلے اقدامات کریں اور انتظامی سطح پر جو بدیانتی اور بدعنوانی ہوئی ہے اس کا تحقیقات کرکے زمہ داروں کے خلاف کاروائی کریں تا کہ دیامر ڈیم کی تعمیر فورًًممکن ہو سکے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button