کالمز

میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں

یوں توزندگی اور موت کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل جاری ہے زندگی ایک ایسا مظہر ہے جس کے ساتھ موت اٹل حقیقت ہے اور اس سے انکار خود فریبی کے علاوہ اور کچھ نہیں یعنی زندگی اور موت ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم امر ہے۔ حادثات ، سانحات اورالمناک اموات انسانی زندگی میں عموماََ وقوع پریز ہوتے رہتے ہیں البتہ بعض حادثات کی المناکی اتنی شدید ہوتی ہے جس کو الفاظ میں بیان کرنا شائد ممکن نہیں سات ستمبر دوہزار سولہ کی ستمگر شام پاکستانیوں بالخصوص اہالیان چترال کے لئے قیامت بن کے ٹوٹی جب شام چاربج کر پندرہ منٹ کو چترال سے اسلام آباد جاتے ہوئے پی آئی اے کا ایک جہاز اپنی منزل سے چند منٹ کی مسافت پر ایبٹ آباد کے علاقہ حویلیاں کے پہاڑوں میں گر کر تباہ ہوگیا اس بدقسمت جہاز میں سوار عملے کے پانچ اہلکاروں کے ساتھ 42مسافر جان کی بازی ہارگئے ۔

چترال کی تاریخ کا یہ سب سے ہولناک حادثہ تھا چترال سے تعلق رکھنے والے چوبیس افراد اس میں جان بحق ہوگئے۔ اس حادثے سے چترال اور چترال سے باہر کئی خاندان اجڑ گئے ۔ لوٹ کوہ سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے ماں باپ اور ان کے چاربچے بھی اس حادثے کی نذ رہوگئے ۔ یوں ایک ہی خاندان کے چھ افراد کی ہلاکت قیامت سے کم ہر گز نہیں۔ چترال کے جوان سال ڈپٹی کمشنر اسامہ احمد وڑائچ اپنی بیوی اوراکلوتی بیٹی سمت جہاز میں سوار تھے تینوں اس حادثے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ یوں پورا خاندان برباد ہوگیا۔ نامور نعت خوان اور سابقہ پاپ سنگر جنید جمشید اپنی ایک اہلیہ کے ہمراہ حادثے کا شکار ہوگیا۔ شہزادہ فرہادعزیز اپنی 20سالہ بیٹی کو لے کر اسلام آباد کے ایک یونیورسٹی میں داخلے کے لئے جارہاتھا ہزاروں سہانے خواب آنکھوں میں سجائے باپ بیٹی اپنے پیچھے یادوں کی بارات چھوڑے اس دار فانی کو چھوڑ چلے۔ اس کے علاوہ بھی چترا ل سے تعلق رکھنے والے کئی اعلیٰ عہدوں پر متمکن افراد اس حادثے کی نذر ہوگئے۔ یوں چترال کو اس سانحے کی صورت میں بہت بڑی انٹلیکچیول تباہی سے دوچار کر دیا۔

ابتدائی طورپر پی آئی اے حکام کی جانب سے یہ بات سامنے آئی کہ جہاز کو حادثہ انجن میں خرابی کی وجہ سے رونما ہوا تاہم پی آئی اے کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے ذرائع ابلاع سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہاز میں کسی قسم کی کوئی تکنیکی خرابی سرے سے موجود ہی نہیں تھی ۔کیونکہ ان طیاروں کا ہر پانچ سوگھنٹے بعد معائنہ کیاجاتاہے اور اس طیارے کا اکتوبر کے مہینے میں معائنہ کیاگیا تھا جبکہ ابھی اسےسروس دئیے صرف تین سو گھنٹے ہی گزرے تھے کہ جہاز کو حادثہ لاحق ہوا ایم ڈی پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنس نے انسانی غلطی اورجہازمیں کسی قسم کی تکنیکی خرابی کے امکان کو یکسر مسترد کردیا ۔ دوسری جانب یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ اس طیارے کو گزشتہ چھ ماہ سے تکنیکی خرابی لاحق تھی سال روان کے وسط میں حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ تھا جس کے خلاف پی آئی اے کے اہلکاروں اوراپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے زبردست احتجاج کیا اس کے بعد گرچہ نجکاری کا فیصلہ موخر کردیاگیا لیکن اسپیشل سروس ایکٹ نافذ کرتے ہوئے پی آئی اے اہلکاروں پر کسی بھی قسم کی شکایات اور احتجاجوں پر قدغن لگائی گئی ،رپورٹوں کے مطابق اس جہاز میں موجود خرابی کی شکایات متعدد بار درج کی جاتی رہی البتہ ان شکایات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کا نتیجہ اس تباہ کن حادثے کی صورت میں سامنے آیا ایک خبر یہ بھی آئی ہے کہ اس جہاز کواڑانے والے پائلٹ ہر وقت تشویش میں مبتلا تھے ۔

پشاور سے اسی جہاز میں سفر کرنے والے ایک مسافر وقاص احمد ایڈوکیٹ نے بتایا کہ جونہی جہاز لواری ٹاپ کے اوپر سے گزرنے لگا کہ تو جہاز کے پچھلے حصے سے ایک زوردار آواز آئی او رجہاز میں تھرتھراہٹ پیدا ہوئی اس وقت جہاز حادثے کا شکار ہوتے ہوتے بچ گیا۔ پھر جہاز چترال ٹاؤن کے اوپر پہنچتے ہوئے اچانک یوٹرن لے کر واپس مڑا اور کئی کلومیٹر زرین دروش تک جاتے ہوئے سنبھل گئے تب چترال ائیر پورٹ کی جانب واپس موڑا گیا جونہی ائیر پورٹ پر اترنے لگے تو اچانک جہاز بے قابو ہوکر ایک دم سے زوردار طریقے سے ائیر پورٹ سے ٹکرایا ۔رپورٹوں کے مطابق جہاز کو انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی کلیرنس کے بغیر واپس فلائیٹ پر روانہ کیاگیاتھا ۔ حکومت کی نااہلی اور اداروں کی لاپرواہی نے سنتالیس قیمتی جانیں لے لیں۔ جس کی ذمہ داری حکومت وقت اورپی آئی اے حکام پر عائد ہوتی ہے ۔ البتہ انکوائری کے نام پر قوم کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ جاری ہے جس کا کوئی خاص نتیجہ نکلنے والا نہیں ۔

قابل غور امریہ ہے کہ پی آئی اے کے جہاز کا چترال سفر کے دوران پیش آنے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا حادثہ نہیں بلکہ چند برس قبل غالباََ2006ء کو بھی اسلام آباد سے چترال آنے والے جہاز کو چترال ائیر پورٹ پر اترتے وقت فنی خرابی لاحق ہوئی تھی جس کی وجہ سے جہاز رن وے میں بے قابو ہو کر ائیر پورٹ سے باہر کھیتوں میں جاکر رکی تھی۔

اس حادثے کا شکارہونے والے بہت سارے خاندان ایسے بھی ہے جن کے کئی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ان میں ڈپٹی کمشنر چترال اسامہ احمد وڑائچ بھی شامل ہے سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کہ اتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کیوں سفری اصولوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک ساتھ پورے خاندان کو لے کر سفر پرنکلے ؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی کسی بھی امر میں احتیاط برتنے کو تیار نہیں ہمارے نصاب میں سفر، سانحات اور حادثات کے اوقات میں احتیاطی تدابیر کا درس نہیں دیا جاتا یوں اکثر اوقات ہمارے معاشرے میں سارے خاندان ایک گاڑی میں سفر کررہے ہوتے ہیں اور ایسے سانحات میں خاندان کے خاندان برباد ہوجاتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اس سانحے کی آزادانہ تحقیقات ہوکر ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا؟

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button