کالمز

انسان اور انسانیت

از قلم : مشاہد حسین

در اصل انسان کروڑوں مخلوقات میں سے ایک عدد مخلوق کا نام ہے اور دوسری جانب” انسانیت”ایک انسان کا دوسرے انسان کے لئے محبت و ہمدردی کے جذبات اور ہم جنسی کی بنیاد پر دوسرے انسان کے لئے خیر خواہی کی طلب ہی انسانیت کہلاتی ہے۔انسان کو اسی انسانیت کی بنیاد پر معاشرتی جانور کہا گیا ہے جو کہ رشتے بناتا ہے ، خاندان کی شکل میں رہتا ہے اور ہم جنسوں یعنی انسانوں کے لئے محبت کے جذبات رکھتا ہے اور ان کا خیر خواہ ہوتا ہے۔جبکہ اس کے مقابلے میں دوسرے مخلوقات اس شعور سے عاری ہیں۔اگر ہم ایک بھیڑیے کی مثال لے لیں جو کہ ایک خطرناک اور خونخوار جانور ہے اس کو صرف اور صرف اپنے خوراک سے تعلق ہوتا ہے یہ کبھی بھی دوسرے بھیڑیوں کے متعلق پریشان نہ ہوگا سارے کے سارے بھیڑیے مر بھی جائیں تو اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس مثال سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ واحد یہی انسانیت ہے جو کہ انسان اور دوسرے مخلوقات میں واضح فرق پیدا کرتا ہے اور ان کے درمیان ایک بلند دیوار قائم کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف بخشا ہے بلاشبہ یہ رتبہ اسی انسانیت کی ہی بدولت انسان کو ملا ہے۔

ہوس، لالچ، ظلم و ستم ، نا انصافی، خود غرضی ، رشوت اور دھوکہ انسان کی اخلاقی پسماندگی کا باعث بنتی ہے۔یہی انسان کی وہ اخلاقی خرابیاں ہیں جو کہ تسلسل کے ساتھ انسان کو انسانیت کے دائرے سے باہر دھکیلتی رہتی ہیں۔جوں جوں انسانوں میں اخلاقی پستی بڑھتی جاتی ہے اسی رفتار سے انسان اور دوسری مخلوقات کے مابین انسانیت کی قائم کردہ دیواروں کی بنیادیں سست پڑ جاتی ہیں۔ اس دور کے انسانوں یعنی ہم نے ظلم، ہوس، بد دیانتی، نا انصافی اور دھوکہ دہی کی ایک ایسی بد ترین مثال قائم کی ہے جو کہ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آدم ؑ سے لیکرہم تک کے آباؤ اجداد نے قائم نہ کی تھیں۔اگر ہم اسی رفتار سے اپنے اخلاقی پستیوں کا تماشا دیکھتے رہے تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم انسانی شکل کے درندے اور بھیڑیے بن جائے۔

آج کل ہم نے انسانیت اور اخلاقیات کو کسی دقیانوسی چیز کی طرح لپیٹ کے کہیں رکھا ہوا ہے۔ہم انسان کی قدر کھو چکے ہیں اور ہمارے دل انسانی ہمدردی، بھائی چارگی، صبرو تحمل اور معافی کے جذبات سے خالی ہیں۔ہمارے نظر میں انسان سے زیادہ پیسوں کی قدر ہے اگر اب بھی انسانیت کی جڑیں مضبوط ہوتی اور انسان کی قدر ہوتی تو شاید ہی ہیروشیما کے لوگوں کو جینے کا موقع دیا جاتا، ہو سکتا ہے کشمیر اور فلسطین پر ظلم نہ ڈھایا جاتا، حکومت کے عہدیداروں اور عوام کے معیار زندگی میں اتنا بڑا فرق نہ ہوتا۔ آج کے اخبارات قتل و غارت اور عزت مند اور پاک دامن بچیوں کی عزتیں لٹنے کی خبروں سے بھرا نہ ہوتا، ججوں کی قلم کی بولی نہ لگتی، قصور(پنجاب) کے بیگناہ مظہر فاروق 24سال سلاخوں کے پیچھے انصاف کا منتظر نہ رہتا، آج ایک عارضی لائن یعنی بارڈر لائن اور مذہب کی بنیاد پر قتل و غارت کا بازار گرم نہ ہوتا ، ایسے کروڑوں واقعات رونما ہو رہے ہیں جو کہ ہمارے غیر اخلاقی رویوں کی عکاسی کرتا ہے۔ویسے تو ہم ایسی عظیم قوم ہیں جس کے تاریخ کے اوراق سنہرے الفاظ سے لکھے گئے ہیں۔جس نے ماضی میں انسانیت کے درخشاں مثالیں قائم کی ہیں ، ہم اسی نبیؐ کے پیروکار ہیں جو کہ دنیا کے پانچ سو عظیم انسانوں میں سر فہرست ہیں ۔ جنہوں نے اخلاقیات اور انسانیت کی لازوال تعلیمات ہمارے لئے چھوڑی ہیں۔آج جب ہم دیکھتے ہیں تو ہم بالکل اس کے بر عکس ہیں ہم نے خود ہی اخلاقیات کا جنازہ نکالا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے اندر عاجزی، ضمیر کی آواز، ہمدردی سب ختم ہو گئی ہیں۔ہم اپنا گھر بسانے کے لئے ، اپنے گھر میں مال و دولت کے انبار لگانے کے لئے انسانیت کی حد سے گزر جاتے ہیں۔دوسروں پر جو گزرے ، دوسروں کے ساتھ جتنی نا انصافی ہو دوسروں کی جتنی حق تلفی ہوجائے ہونے دو بس اپنا گھر بس جائے۔اسی ہوس نے ہی ہمارے اخلاقی اقداروں کو چور چور کیا ہے۔جج چند روپوں کے لئے قاتل کو چھڑاتے ہیں ، ہماری پولیس چند نوٹوں کے عوض جرائم کو کھلی چھوٹ ہی نہیں بلکہ جرائم پیشہ افراد کی معاونت بھی کرتی ہے۔ہمارے حکمران امیر سے امیر بننے کے چکر میں بے خبر رہتے ہیں کہ عوام پر کیا گزر رہی ہے۔نیز ہمارے حکومتی اداے رشوت، بد عنوانی، بد دیانتی کی آگ میں جل رہے ہیں جس کی وجہ دولت کمانے کی ہوس ہے۔ہم اتنے مادہ پرست بن چکے ہیں کہ ہم نے اسلامی تعلیمات کو صرف کتابوں کی زینت بنایا ہوا ہے، یہی دولت کی ہوس ہمارے اخلاقی بگاڑ کا سبب ہے اور اسی وجہ سے ہمارے حکومتی ادارے زوال کی جانب بڑھ رہی ہیں اور عوام کی معیار زندگیاں پستی کی طرف سفر کر رہی ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اپنے دل سے اس ہوس کو نکال پھینک دیں ، حکمران امیر سے امیر بننے کی خواہش ترک کر دیں ہم نئی نسل کو اخلاقیات ، ذمہ داری اور اسلامی تعلیمات کا سبق دیں ، عوام کو با شعور بنائیں اور اخلاقیات کی روشن مثال بنیں تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم اپنے سنہرے ماضی کو دہرائیں ۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرّو بیاں

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button