صحت

دیامر: خسرے کی وباء سے دو درجن معصوم بچے جاں بحق، متعدد خطرناک حالت میں ڈی ایچ کیو ہسپتال میں داخل

چلاس (مجیب الرحمان) ضلع دیامر میں خسرے کی وباء سے درجنوں معصوم بچے خطرناک حالت میں ڈی ایچ کیو ہسپتال میں داخل، ڈاکٹروں نے خسرہ بچاؤ کے ٹیکے لگوانے اور خسرے کا شکار بچوں کو فوری طور پر اسپتال پہنچانے کی اپیل کر دی۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ خسرے کی وباء سے حالیہ کچھ دنوں میں دو بچے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ہسپتال میں خسرہ کے مریضوN کے لئے الگ وارڈ موجود ہی نہیں اور نہ ہی آکسیجن سیلنڈرز، مصنوعی سانس کی سہولت میسر ہے، جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں مزید اضافے کا اندیشہ ہے۔

ہسپتال ذرائع نے نام نہ بتانے کی شرط پر پامیر ٹائمز کو بتایا کہ ہسپتال میں ایک ہی چائلڈ وارڈ ہے جس میں خسرے کے شکار بچوں کو ایڈمٹ کرنا دوسرے بچوں کو بھی مہلک مرض میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے، خسرے کی بیماری دوسرے بچوں میں بھی منتقل ہو تی ہے۔ خسرے کے مرض میں مبتلا بچوں کے لئے الگ وارڈ آکسیجن سلنڈر ز کی فراہمی اور مصنوعی سانس کی سہولیات ناگزیر ہوتی ہیں۔خسرے سے بچاؤ کا واحد حل ویکسین ہیں مگر ویکسین کا ٹمپریچر مینٹین نہ ہونے اور ویکسینیشن کا عمل بہتر انداز میں معیاری طریقے سے نہیں ہو پا رہا ہے۔جس کی وجہ سے ویکسین لگے بچے بھی اس مہلک مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔

ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وادی کھنبری میں ایک ہی گھر کے تمام افراد اس موذی مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں، جن میں سے ایک بچہ جاں بحق جبکہ باقی افراد زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔جنہیں گھر میں ہی رکھا گیا ہے اور انکا علاج ایک ڈسپنسر کرنے پر مجبور ہے۔ جبکہ اہل علاقہ ان کے علاج اور انکے کھانے پینے کا بندوبست کر رہے ہیں۔

کھنبری سے تعلق رکھنے والے ایک ڈرائیور نے بتایا کہ ان تمام افراد کا علاج ہو رہا ہے گھر کے تمام افراد بیماری میں مبتلا ہونے سے انہیں ہسپتال تک نہیں لایا جا سکتا ہے انکے گھر کو ہی اسپتال بنا کر ایک نرسنگ اسسٹنٹ انہیں انجکشن وغیرہ لگا رہا ہے۔تاہم اب انکی حالت قدرے بہتر نظر آرہی ہے۔

انہوں نے میڈیا کو مزید بتایا کہ اہل علاقہ لکڑی و دیگر ضروریات اپنی مدد آپ کے تحت بیمار افراد کے لئے لا رہے ہیں تاہم انہیں ہسپتال لانا مشکل ہے۔چونکہ گھر کا کوئی بھی فرد بھی تندرست نہیں ہے۔انہوں نے علامات بتاتے ہوئے کہا کہ سبھی افراد شدید بخار میں مبتلا اور چلنے پھرنے سے قاصر ہیں اور پورے جسم پر سرخ دانے نمودار ہو چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سوائے ایک مقامی ڈسپنسر کے کوئی انکے علاج معالجے کے لئے نہیں آیا ہے۔ابھی تک کوئی میڈیکل کیمپ یا ڈاکٹر اور محکمہ صحت پی پی ایچ آئی کے کسی اہلکار نے علاقے کا دورہ تک نہیں کیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ اگر انکا علاج نہیں کیا گیا تو گھر کے دس افراد کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے ۔جبکہ انکے گھر کا ایک بچہ اس خطرناک بیماری سے دم بھی توڑ چکا ہے۔اسی بیماری سے اتوار کی شام کو ڈی ایچ کیو ہسپتال میں نیاٹ سے تعلق رکھنے والا ایک نو مہینے کا بچہ بھی زندگی کی بازی ہار گیا ہے۔

ڈاکٹروں نے خسرے کی وباء کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ والدین فوری طور پر بچوں کو حفاظتی ٹیکےلگوائیں اور بیماری کی علامات ظاہر ہوتے ہی ہسپتال منتقل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ طبی ماہرین نے پامیر ٹائمز کو خسرے کے حوالے سے بتایا کہ لوگ اپنی طرف سے خسرے کے مرض میں مبتلا بچے کو کمبل میں لپیٹ کر گرم کرتے ہیں۔تاکہ خسرے کے دانے نمودار ہو سکیں اور آرام مل سکے۔اور کھانا بھی بند کرتے ہیں۔جو بالکل غلط بات ہے خسرے کے مرض میں مبتلا بچے کو ایک سو چار ٹمپریچر ہو تا ہے ٹمپریچر کم کرنے کے بجائے مزید گرم کرنے اور کمبل لپیٹنے سے مرض میں شدت پیدا ہوتی ہے۔خسرے کا شکار بچے کو باقی بچوں سے بالکل الگ رکھنا ضروری ہوتا ہے تاکہ دوسرے بچے اس مرض میں مبتلا نہ ہوں۔ خسرے کے مرض میں مبتلا بچے کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کر دیا جانا چاہیے جبکہ گھر کے باقی ماندہ بچوں کو فوری طور پر ویکسین لگوائے جائیں۔طبی ماہرین نے کہا کہ فوری طور پر حفاظتی ٹیکوں کی مہم کی اشد ضرورت ہے۔مہم کے دوران ماہر ویکسینیٹرز اور مناسب درجہ حرارت میں رکھی ہوئی ویکسینیشن استعمال کی جائیں۔

پامیر ٹائمز نے ڈی ایچ او دیامر ڈاکٹر مبین سے اس مہلک مرض سے متعلق معلومات لینے کے لئے رابطہ کیا تو وہ محکمہ صحت میں بھرتیوں کے ٹیسٹ انٹریوز کے سلسلے میں غذر میں موجود ہیں۔انہوں نے بتایا کہ خسرے سے بچاؤ کی مہم کچھ ہفتے قبل چلائی تھی جس میں ضلع بھر کے ویکسینیٹرز کو مختلف علاقوں میں بھیجا تھا جنہوں نے ویکسینیشن کی ہے۔اب پولیو مہم کے فوراً بعد ہی کریش پروگرام چلائینگے جس میں دیامر کے تمام نالہ جات اور علاقوں میں ٹیمیں بھیجی جائینگی۔انہوں نے بتایا کہ ڈی ایچ او آفس اور ڈی ایچ کیو ہسپتال چلاس میں ویکسینز موجود ہیں۔عوام ان مقامات سے ویکسین کروا سکتے ہیں۔انہوں نے خسرے سے بچاؤ کے ٹیکے لازمی لگانے کی تاکید کی۔

عوامی حلقوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ معصوم جانوں کو بچانے کے لئے دیامر کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کی جائے اور دیہاتوں میں فوری طور پر ڈاکٹرز اور میڈیکل ٹیمیں روانہ کر دی جائیں اور ادویات کی فراہمی کو یقینی بنائی جائے تاکہ انسانی زندگی کو لاحق خطرات دور ہو سکیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button