کالمز

پائیدار سیاحت برائے ترقی کا بین الاقوامی سال

شجاعت علی

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دو ہزار سترہ کو پائیدار سیاحت برائے ترقی کا بین الاقوامی سال کے طور پر منانے کی باقاعدہ منطوری دیدی ہے۔ جنرل اسمبلی میں چار دسمبر دو ہزار سولہ کو منظور ہونے والی اس قرار داد کو ایک سُنہرا موقع قرار دیاگیا جس کے تحت سیاحت کی پائیدار ترقی کے تین ستونوں؛ معاشی، سماجی اور ماحولیاتی حصہ داری میں مثبت پیش رفت کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ بقائے باہمی میں اس کے کردار کو بھی واضع کیاگیا ہے۔ مشترکہ اور پائیدار معاشی ترقی ، سماجی شراکت داری، روزگار، غربت میں کمی، وسائل کی تاثیرت، ماحولیاتی تحفظ، ماحولیاتی تبدیلی ، ثقافتی اقدار ، تنوع، وراثت، باہمی سمجھداری، امن اورتحفظ میں سیاحت کلیدی کردار ادا کرتا ہے مگر حیرت کی بات ہے کہ پاکستان میں نئے سال کی آمدپر پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اس اہم خبر کا بالکل بھی تذکرہ نہیں کیا گیا۔ شاید ہماری ترجیحات سیاحت اور معیشت نہیں بلکہ سیاست ہے۔

اگر ٹھنڈے دل و دماغ سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی میں سیاحت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان میں بہت سارے لوگوں کا روزگار سیاحت سے وابسطہ ہے۔ ہوٹل انڈسٹری، ٹرانسپورٹ، ٹور آپریٹرز، ٹریول ایجنٹس، دُکانداروں،کوہ پیماؤں، گائیڈ حضرات، پورٹرز، باورچی سمیت بے شمار لوگوں کا ذریعہ معاش سیاحت ہے۔ وطن عزیزپاکستان کے تناظر میں سیاحت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مہم جوئی والی سیاحت، ثقافتی سیاحت اور مذہبی ثقافت۔ پہاڈوں پر چڑھنا، پیدل چل کر وادیوں کو دیکھنا، گلیشئرز سے گزر کر پاسز کو عبور کرنا، دریاؤں میں تیراکی، پیراگلائیڈنگ، سائیکلنگ، موٹر سائیکل پر سفر کرنا وغیرہ مہم جوئی والی سیاحت کا حصہ ہے۔مختلف گاڈیوں میں سفر کر کے پاکستان کے تاریخی اور ثقافتی مقامات کو بنفس نفیس دیکھنا اور آگاہی حاصل کرنا ثقافتی سیاحت کہلاتا ہے۔ عبادت بندی، منت سماجت، ذیارت اور دیگر مقاصد کے تحت مذہبی مقامات کا دورہ کرنا مذہبی سیاحت میں شامل ہے۔ ماضی قریب میں پاکستان میں شکار کھیلنے کے خاطر بھی سیاحوں کا رُجحان شروع ہوا ہے۔ جسے عرف عام میں شکار سفاری کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے پاکستان کو بلندو بالا برف پوش پہاڑوں، وسیع و عریض گلیشئرز، سرسبز میدانوں، بل کھاتی دریاؤں اور ذرخیز کھیت کھلیانوں سے نوازا ہے جسے دیکھنے کے لیے بین الاقوامی، قومی اور مقامی سیاح ہر سال پاکستان کے طول وعرض میں پہنچ جاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ چاروں موسم میںیعنی سال بھر سیاح پاکستان آسکتے ہیں۔ موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی کئی بین الا قوامی سیاح پودوں پر پھول کھلنے، خزاں میں پت جڑ کی رنگینی دیکھنے، موسم گرما میں خوشگوار موسم کا مزہ لینے اور موسم سرما میں برف اور ٹھنڈ سے لطف اندوز ہونے پاکستان کا سفر کرتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے۔ٹو فتح کرنا ہو یا غندغورولا پاس دیکھنا ہو، قاتل پہاڑ پر چڑھنا ہو یا پاکستان اور چائینہ کے سنگم پر واقع خونجراب پاس دیکھنا ہو، پامیر کے خوشگائے دیکھنا ہو یا ہندوکش کے مارخور، کھیوڑہ کے نمک کے کان دیکھنے ہو یا گوادر کی بندرگا، پاکستان ہی سیاحوں کی مثالی انتخاب ہے ۔ کچھ سیاح گلگت بلتستان اور چترال کی حسین وادیوں کا رخ کرتے ہیں تو کچھ جنت نظیر کشمیر دیکھنے نکلتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ کا مشہور درہ خیبر ہو یا پنجاب کا قلعہ لاہور، کراچی کا مزار قائد ہو یا کوئٹہ کا رہائش گاہ قائد اعظم، سندھ کا موہنجووداڈو ہو خیبر کا ہڑپہ، ٹیکسلہ، حسن ابدال ، کھیوڑہ ، ملتان، بہاولپور، سکردو سمیت پورے پاکستان میں کہیں نہ کہیں سیاحوں کی دلچسپی اور کشش کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کے ساحل سمندر سے لے کر خونجراب پاس تک سیاح ہی سیاح نظر آتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ لوگ چترال کو گلگت بلتستان کا حصہ سمجھتے تھے مگر سیاحت کے بدولت لوگوں کو معلوم ہوا کہ انتظامی لحاظ سے چترال صوبہ خیبر پختونخواہ کا حصہ ہے جب کہ گلگت بلتستان وفاق کے زیر انتظام ایک نیم خود مختارصوبہ ہے۔ قارئین کی معلومات میں اضافے کے لئے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ گلگت بلتستان اس وقت دس اضلاع پر مشتمل ہیں ۔ گلگت، غذر، دیامر، استور، سکردو، گانچھے، شگر، کھرمنگ، ہنزہ اور نگر۔

حکومت وقت کو چاہیے کہ پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لئے ایک کُل وقتی وفاقی وذیر مقرر کرے جو سیاحت کے لئے قلیل المدتی، وسط المدتی اور طویل المدتی لائحہ عمل ٹوریزم پالیسی کی صورت میں ترتیب دے کر اس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائے۔ اس پالیسی میں وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے کردار، ذمہ داریاں اور فرائض واضح ہو پاکستان ٹوریزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن اور الپائن کلب آف پاکستان کو جدیدخطوط پر چلانا وقت کی ضرورت ہے۔ ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کارپوریشن اگر پاکستان کا ایک منافع بخش ادارہ بن سکتا ہے تو پاکستان ٹوریزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کیوں نہیں ۔ وزارت خارجہ، وزارت داخلہ، وزارت خزانہ، وزارت بین الصوبائی رابطہ، وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان، وزارت مذہبی امور، پی آئی اے، پاکستان ریلوے، اور دیگر متعلقہ وزارتیں اگر مربوط طریقے سے سر جوڈ کے بیٹھے تو ناممکن نہیں کہ پاکستان سیاحوں کی جنت بن جائے۔ بین الاقوامی سیاحوں کو ذیادہ سے ذیادہ پاکستان کی طرف متوجہ کرنے کے لئے بین الاقوامی میلوں، نمائشوں، تقریبات اور محفلوں میں پاکستان میں سیاحت پر مشتمل دستاویزی فلم دکھانے کا انتظام کیا جائے۔ ہوٹل کی صنعت کو بین الاقومی معیار پر لانے کی ضرورت ہیں۔ درائع نقل و حمل اور ذرائع مواصلات کی بہتری اور سیاحت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سیاحوں کو زحمت سے ذیادہ سہولت چاہیے۔ اس سلسلے میں سری لنکا، تھائی لینڈ، سوئٹزرلینڈ، ملائشیا، ترکی، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک کے تجربات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ سیاحوں کے ساتھ بہتر مہمان نوازی ، حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کرنے سے بین الاقوامی سیاح خود ہی پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے اُجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب سیاح دو ہزار ایک سے پہلے کی طرح دوبارہ پاکستان کا رُخ کرنا شروع کرے مگر مُلک میں امن و امان کی مجوعی صورتحال کا پُر سکون ہونااولین ضرورت ہے۔ قصہ مختصراً یہ کہ سفر وسیلہ ظفر ہے مگرظفر کیلئے سفر شرط ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button