کالمز

دیامر نامہ، سونی دیامر کے تناظر میں

تحریر۔اسلم چلاسی

سوشل میڈیا پر کچھ دنوں سے سونی دیا مر کے نام سے ایک غیر سیا سی فلا حی رفائی تنظیم نے اپنی سرگرمیاں شروع کی ہے۔ وٹس اپ پر بحث مباحثہ کے ساتھ ساتھ آواز کی جادو بھی جگائے جا رہے ہیں۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ میں بھی اپنے بے سرے آواز کو ان کے سماعتوں تک پہنچا ؤ ں مگر میں نے فی الحال اپنے بے ترتیب ٹوٹے پھو ٹے الفاظ تک محدود رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خیر سونی دیامر میں بہت خوبصورت انداز میں مختلف مو ضوعات پر بحث مبا حثات ہو تے ہیں، جس میں دیا مر کے پسما ندگی، تعلیمی مسائل، معا شرتی خرافات اور دیگر کئی معا ملات پر ما ہرین کے رائے اور تجا ویز لیے جا تے ہیں۔ کسی بھی مو ضوع کو باقائدہ عنوان دیکر زیر بحث لا یا جاتا ہے جس پر انتہا ئی برد باری سے گفت شنید کم از کم دو سے تین دن جاری رہتی ہے۔ اس تنظیم کا دعوہ ہے کہ یہ بلکل غیر سیاسی تنظیم ہے جس کا مقصد دیامر کی ترقی خوشحالی اور اخلاقی معاشرتی بہتری مقصود ہے۔ یہاں سیاسی مو ضوعات پر مبا حثہ سختی سے منع ہے، البتہ معاشرتی بہتری کیلے روایتی رسومات اور معاشرتی تقسیم کے مضمرات اور سد باب کیلے دل کھول کر کہنے اور سہنے کی اجا زت ہے،

گزشتہ دو دنوں سے پا نچ روزہ عنوان ،،عصبیت،،پر بحث مبا حثہ جاری ہے۔ دیا مر میں عصبیت کے بنیا دی محرکات اور اس لعنت سے نجات کیلے دوست خوب دلجمی سے اپنے مفید مشورے دے رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر تو مجھے یہ کوئی غیر ضروری اور وقت کے نقصان سا معا ملہ محسوس ہوا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس پلیٹ فارم کی اہمیت واضع ہوئی تو ہم نے بھی دوسروں کو ٹھیک کرنے کیلے میدان میں کودنے کا فیصلہ کر لیا۔ یقییناً جہاں تک دوسروں کو ٹھیک کرنے کا سوال ہے اس میں تو ہم کا میاب نہیں ہونگے چونکہ دیامر میں کئی ہزار سالوں سے ایک منفرد قبائلی نظام چلا آرہا ہے جو اس معا شرے کے اندر رس رچ چکا ہے جس کو دو چار لوگ مل کہ نہ تو ختم کر سکتے ہیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔ البتہ بہت سے معا ملات میں بہتری ممکن ہے۔ بنیا دی طور پر دیا مر میں تعلیمی ریشو انتہا ئی ما یوس کن ہے۔ اس کی بنیا دی وجو ہات تعلیمی اداروں کی کمی، اساتذہ کی تربیت نہ ہو نا اور ہر خاص و عام کی درسگا ہوں تک مناسب رسائی نہ ہونا ہے۔ اب پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک پرائمری سکول ہے، پا نچ سے چھے سال کا بچہ پیدل چل کر سکول تک کیسے جا سکتا ہے؟ روزانہ دس کلو میٹر آنا جا نا ممکن نہیں رہتا۔ اس لیے لوگ بچوں کو پڑھانے کے بجا ئے گھر میں بٹھا نے پہ ترجیح دیتے ہیں۔ سرکاری سکولوں کی تعلیمی معیار ما ئنس ہونے کی وجہ سے بیشتر بچے میٹر ک سے آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں۔

اب سونی دیامر تعلیمی مسائل کو اجا گر کرکے حکومت کے ساتھ ملکر کام کر نا چا ہتی ہے جو بہت ہی قابل تحسین عمل ہے۔ اس تنظیم کا ہیڈ سعودی عرب میں مقیم داریل سے تعلق رکھنے والے معروف شخصیت ڈاکٹر زمان ہے جو درد و طن رکھنے والے انتہا ئی پر خلو ص شخصیت ہیں۔ ۲۹ جنوری بروز اتوار دوپہر دو بجے دیا مر پریس کلب میں اس تنظیم کا باقاعدہ پہلا اجلاس ہو نے جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ایک میٹگ بھی ہو چکی ہے۔ اجلاس کے تیاریاں مکمل ہیں، علم دوست با شعور اصحاب کو اس کار خیر میں دو گھڑی ضا ئع کرنا چا ہیے۔ یکم فروری کے بعد یہ تنظیم باقاعدہ تعلیمی مسائل پر کام کرنا شروع کرے گی۔ ذرائع کے مطا بق گا ؤں سطح پر لوکل کمیٹیاں تشکیل دی جا ئے گی، غریب اور نادار ضرورت مند طلبہ کی ما لی معاونت بھی کی جا ئے گی۔ جہاں سکولوں کی ضرورت ہے، اساتذہ کی کمی ہے، محکمہ سے ملکر فورًا اس کمی کو پورا کیا جا ئے گا ۔ اس تنظیم کے اب تک کے اغراض مقاصد کو دیکھا جائے تو انتہا ئی نیک ہیں۔ اسی طرح عوام کے فلاح و بہبود کیلے اقدامات کے جذبات کے ساتھ چلے تو مقامی سطح پر نا قابل یقین تعاون بھی ممکن ہے۔ چو نکہ تعلیمی حوا لے سے دیکھا جا ئے تو دیامر بہت ہی پست درجے میں کھڑا ہے۔ ایک اعداد شمار کے مطا بق محض بیس فیصد بچے تعلیم حا صل کر سکتے ہیں۔ ان میں سے بھی دس فیصد دینی تعیلم کے حصول کیلے مدرسوں کا انتخاب کرتے ہیں اور جو دس فیصد عصری تعلیم کے طلبگار ہوتے ہیں ان میں سے پا نچ فیصد میٹرک کے بعد وسائل کی کمی کی وجہ سے حصول علم کے اس تھکا دینے والی سفر کو خیر باد کہنے پر مجبور ہو جا تے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سونی دیا مر اپنے اس خلوص اور نیک نیتی پر مبنی جزبے کے ساتھ کہاں تک کا میاب ہوتی ہے۔ اگر سونی دیا مر نامی یہ فلا حی بیڑہ دیامر کے پچاس فیصد بچوں کو سکول تک لے جا نے میں کا میاب ہوئی تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں آیندہ بیس سال میں پورے گلگت بلتستان میں دیا مر تعلیمی حوالے سے بہت بہتر اور نما یاں ہوگا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button