کالمز

تلولونگ پی ھلو۔۔۔ 

تحریر: حاجی سرمیکی

احمد فراز کہہ گئے کہ غم یار اور غم دنیا کوباہم رہ کر بھی ایک دوسرے میں گھلنابہم نہیں۔گویا یہ اقبال کے دو قومی نظریہ کی سی خاصیت رکھتا ہے۔ خیر سے فراز نے شرابیں شرابوں میں ملانے کی تجویز دی تو اقبال نے علیحیدگی اور آزادی کی۔ اردو ادب کے بڑے شاعر غالب کو بھی غم ہستی کا علاج بجز مرگ کچھ نظر نہیں آیا تودوسری طرف موصوف نے کہیں غم کھانے کو ہی غم غلط کرنے کی اکسیر بتلائی۔ خدا سلامت رکھے استادغلام محمد گوتنگپہ کو کہ جب اسے غم روزگار اور گردش دوران کے ہاتھوں اپنے آبائی گاؤں کوستنگ حسن آباد کوچ کر جانا پڑا۔ انہیں بلتی روایتی موسیقی اور قدیم سروں کے بڑے استاد مانے جاتے ہیں۔ ہماری ان سے شناسائی نہیں، البتہ شہنائی، سرنے اور بانسری کی مسحور کن سروں والے استاد غلام مہدی چھوربٹی مشرق وسطی سے ہواکے دوش پر اپنے فن و شخصیت پر ان کے طلسماتی اثرات سے روشناس کراتے رہتے ہیں۔ استادگوتنگپہ ان دنوں روزگار کے سلسلے میں گاؤں سے باہر مقیم ہیں۔ ان کے حلیے کلیئے کا صحیح معلوم نہیں تاہم یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ علاقے کی نسبت سے آنکھیں چھوٹی، چہرہ گول سا، قدکاٹھ میانہ اور بھلا کا ذہین انسان ہوگا۔ ہمارے ایک دوست نے کوستنگ (جدیدحسن آباد) میں روایتی جشن میفنگ میں جوش و خروش کو صرف استاد گوتنگپہ کی رہین قراردیا ہے ۔ اس نے لکھا ہے کہ اس استاد گوتنگپہ کے ساتھ سرو ساز اور تھاپ و تھپکی سے علاقہ ادب نوازاب ان کی عد م وجودسے تنگ و تہی رہ گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کو روایتی حریب، ڑگیانگ خلو اورلوک گیت ازبر ہونے کے ساتھ ساتھ آج بھی اپنے آپ میں سروساز کا ایک ضخیم مخزن رکھتا ہے۔ان سے سیکھنے اور ان کے خواب و خیال میں مدفن بلتی ادب و ثقافت کی روایتی سروں کو ذوق کی تھپکی دے کر جگانے کے لئے پرخلوص کوششوں کی کال نظر آتی ہے۔استاد غلام مہدی گویا ہے کہ ان کے بچپن کے دنوں میں علاقہ بلتستان جواس وقت کے بے ربط و یکتایت کے دور میں بہت بڑی دنیا معلوم ہوتاتھا، نفسیاتی طور پر بہت ہی خوشحال اور بے فکری کے عالم میں ڈوبا ہواتھا۔ وہ اور گاؤں کے دیگر چند منجھلے پہاڑیوں اور چشموں کے کنارے ریورڑ چرانے جاتے تھے۔ جب سورج کی کرنوں کی گرمی یکبارگی ان کے ماتھے پر پسینے اور چشمے کے کنارے پتھروں پر اوج کے قطرے کھلاتی تھی ،ریورڑ بھی ٹھنڈی اور گیلی گھاس کے پتے چرنے لگ جاتا تو ایسا خاموش ماحول بن جاتا جہاں صرف چشمے کے پانی کی چھم چھم کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیتا تھا ۔ایسے میں دور کہیں کسی بھاری پتھر پر ٹیک لگائے استاد گوتنگپہ بانسری کی لے پہ کوئی ایسا سر چھیڑلیتا تھا کہ انسان کو انسان جانور بھی یکدم سر اٹھا کر ششدر رہ جاتے ۔ استاد مہدی کہتے ہیں کہ وہ بھی لپک کر ان کے پاس پہنچ جاتے تھے اور انہیں سرپر سر چھیڑنے میں محو پاتے ۔ سامعین کو بانسری کی سریلی سروں کی آغوش میں گہرے خواب دکھادیتا تھا۔ تب سے استاد مہدی کو بھی سر اور تال سے دلچسپی پیدا ہوگئی تھی۔ استاد گوتنگپہ کی دھنیں لوگوں کو یکجا کرنے ، آپس کی رنجشوں کو بھلا کر دست بہ دست ہو کر رقص کرانے اور رسوم ورواج میں لطف دوبالا کرنے کی خصوصیات سے بھر پور تھیں۔ انہیں گاؤں کے بڑے بوڑھے ایک ماہر فنکار کی حیثیت سے یاد کرتے اوران کی کمی کو اس پرآشوب دور میں بھی درد کے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔لاچاری کا یہ عالم ہے کہ جاں بلب بلتی ثقافت کی ساکھ تو جھل تھل ہوگئی تاہم اس کی راکھ سے اگر دوھواں سا اٹھتا دکھائی دیتا ہے تو وہ ابھی اسی علاقہ چھوربٹ کے نواح سے تا خپلو کے نواح میں دکھائی دیتا ہے۔ وگرنہ دور دور تک بھی کوئی آثار نہیں،دیگر علاقوں میں تو ہندی، اردو اور انگریزی نغموں کی جدید قسموں کا راج نظر آتا ہے۔ اردو ادب میں غزل گوئی کے اعلیٰ معیاراور کلاسیکیموسیقی کی ملاپ نے ایک جہاں کو اپنا گرویدہ بنارکھا ہے۔ ایسے میں بلتی ثقافت معدوم ہوتا جارہا ہے۔ فکر کرنے والوں کو ان کلاسیکل استادوں کی دسترس حاصل نہیں جنہیں غم روزگار نے دربدرکیا ہوا ہے۔ کوئی اندرون ملک کسی شہر میں گوشہ نشیں ہے تو کوئی سات سمندر پار فن و مہارت سے بے بہرہ روزی روٹی کے متلاشی نظر آتا ہے۔ موسیقی کی دنیا کے بڑے ناموں میں سے اکثر رسمی تعلیمی میدان میں کچھ زیادہ نمائیاں کارکردگی کے حامل نہیں تھے ، اسی طرح استاد گوتنگپہ، استاد مہدی اور دیگرہم خیال کرم فرما کے نزدیک بلتی ادب کی تالیف اور موسیقی کے فروغ کی راہ میں تعلیم ہی ایک حد فاصل نظر آتی ہے۔ انہیں آج بھی اپنے فن سے لگاؤ ہے۔ اور اپنے تئیں کوششیں بھی جاری رکھی ہوئی نظر آتے ہیں ۔ مگر انہیں ابلاغ عامہ تک رسائی کی راہ میں جدید خطوط پر آلات و تکنیکی مہارتوں کا فقدان نظر آتا ہے۔کسب معاش اور غم روزگار کے بیچ غم جاناں بھی پردیس انہیں ستاتا ہے۔ استاد مہدی چھوربٹی اور ا ن کے رفقاء نے انٹرنیٹ پر ایک گروپ بھی بنا رکھا ہے جو وقتا فوقتا سامعین خصوصی کو مختلف سروں سے مستفید کراتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گاؤں واپس آکر انہیں نفسانفسی کا جو عالم نظر آتا ہے اسے دیکھ کر دل برداشتہ ہوجاتے ہیں۔ گاؤں اور نواح میں انہیں فرسودہ رسومات کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے اور مذہبی خیالات کے زیر اثر اس فن کو بے توجہی اور حوصلہ شکنی کی بھینٹ چڑھا دیا جا چکا ہے۔ استاد مہدی کہتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں شادی بیاہ، میلے ٹھیلے کے علاوہ جنگوں ، خصوصی تہواروں اور درباروں میں نشست و برخاست کے خاص سر وساز ہواکرتے تھے ۔ علی الصبح ذکر حریف سے دن کا آغاز ہوا کرتا تھا۔ استاد گوتنگپہ جیسے ماہر فنکار پولو کے کھیل کے دوران مخصوص دھنیں پیش کرکے خوب داد سمیٹتے تھے۔ اب پولو کا کھیل بھی پہلے کی نسبت بہت کم کھیلا جاتا ہے۔ بلتی قدیم موسیقی کی ایک قسم ڑگیانگ خلو بھی اب معدوم ہوچکی ہے ۔ اور پرائے دیس میں مقیم استاد مہدی چھوربٹی اور ا ن کا گروپ اس کی بحالی میں استاد محمد گوتنگپہ سے رہنمائی حاصل کررہے ہیں۔ استاد مہدی اپنے ایک پردیسی ساتھی کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ وہ جدید دنیا کی رنگینیوں اور دولت کی ریل پیل میں گھر بار کو بھول چکا تھا ۔گھروالوں کو اس کی عدم توجہی سے شکایت تھی۔ پھر اس کی بوڑھی ماں نے استاد مہدی کے ساتھ پیغام بھیجا کہ وہ اس کے بیٹے کو ایک بار تلولونگ پی ھلو سنائیں۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ اس گانے کا مرکزی خیال تلو لونگ نامی ندی تھا جس کا پانی ٹھاٹھیں مارتا ہوا بہتا تھا لیکن گاؤں کے کھیت کھلیانوں کواس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا تھا ۔اس نے جب وہی گانا (ڑگیانگ خلو) اس ضعیفہ کے بیٹے کو سنایا تو جذبات سے اس کا دل بھر آیا اور اس نے اپنی ماں سے معافی مانگ لیا۔افسوس ہے کہ بلتستان میں موسیقی کے لئے کوئی پلیٹ فارم میسر نہ ہونے کی وجہ سے پشتو، پنجابی ، شنا اور بروشسکی جیسی زبانوں کی نسبت بلتی جیسی پرانی زبان کی موسیقی کو بھی اندرون بلتستان بلتی باشندوں میں بھی وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔پردیس کی بہاریں ، گاؤں کی یادیں اور موجودہ بے ذوق ماحول سے جہاں بلتی موسیقی کے استاد نالاں اور نادم نظر آتے ہیں وہاں وہ کسی حد تک پر امید بھی دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک نوجواں نسل میں بلتی زبان اور ادب سے متعلق جو مثبت تاثر جنم لے رہا ہے وہ ان کے دلوں میں بھڑکنے والے ناچاری کے شعلوں کو شبنم فراہم کررہے ہیں۔ حال ہی میں بلتی رسم الخط کے فروغ کے لئے سکردو میں نوجوان طبقے کی زیر نگرانی قائم غیر رسمی ادارے کا قیام کسی بھی ناقابل دریغ کاوش سے کم نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نجی سطح پر موسیقی اور سازندوں کے تحفظ اور بحالی کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات نتیجہ خیز حد تک کامیاب بنانے کی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں سرکاری سرپرستی سے بھی مطلوبہ نتائج کے حصول میں سرعت ا ور معیار میں پائیداری حاصل ہوسکتی ہے۔ وگرنہ باقی ماندہ کوششیں ” تلولونگ پی ھلو”بن کر رہ جائے گی۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button