بلاگز

پیوند کاری 

پیوندکاری یا پیوند لگانا یہ اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ اگر کوئی چیز ٹوٹ جائے تو اسے دوبارہ جوڑہ جائے یا اگر کپڑے پھٹ جائیں تو اس کے اوپرکپڑے کا کوئی ٹکڑا لگا کر سلائی کیا جائے اور سنا ہے کہ حضور اکرم ﷺ بذاد خود اپنے کپڑے پر پیوند لگاتے تھے اور اگر ایسا ہے تو پھر یہ سنت بھی تو ہوا ۔ اس کے علاوہ پھلدار درختوں کی پیوند کاری کیا جاتا ہے یعنی ایک درخت کا دوسرے درخت سے جوڑ کر اس درخت کی خصوصیت کو دوسرے درخت میں منتقل کرنا ، یہ رواج گلگت بلتستان میں بہت عام ہے کہ لوگ آپس میں باتیں کرتے نظر آتے ہیں کہ فلاں شخص کے باغ میں بہت عمدہ قسم کا خوبانی ہے اس سال اس کا پیوند لگاناہے فلاں جگہ اچھا توت ہے فلاں کے پاس زبردست قسم کا آلو بخارہ ہے اس کا پیوند لگا نا ہے اور یہ کام سال میں دو مرتبہ انجام دیا جاتاہے ایک فروری مارچ کے مہینے میں جو کہ شاخوں کی پیوندکاری کے ذریعے کیا جاتا ہے یعنی ایک درخت کی چھوٹی سی ٹہنی کاٹ کر دوسری درخت کے ٹہنی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور اس طریقے سے لگایا ہوا پیوند کاری والا ٹہنی جلد نشونما پاتا ہے اور ایک دو سالوں میں پھل دینا شروع کرتا ہے اور دوسرا موسم جولائی اگست کے مہینے میں ہو تاہے اور اس موسم میں شاخ کی بجائے پتے کی پیوندکاری کی جاتی ہے اور ماہرین کسان اس بات کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ چاند بھی اپنے عروج پر ہو تو پیوند کاری بہت ہی کار گر ثابت ہو تا ہے۔ یہ پیوند ذرہ دیر سے بڑھتا ہے اور پھل دینے میں کافی دیر لگاتی ہے

لیکن میں یہاں جس پیوندکاری کا ذکر جمیل کرنے جارہاھوں وہ ہے اسلام آباد کی سڑکوں کی یہ معلوم نہیں کہ یہ جدید طریقہ کار سی ڈی اے کا ، کارنامہ ہے یا ہائی وے اتھارٹی کا ، اور اس شدو مت کے ساتھ سڑکوں کی پیوند کاری پچھلے چند مہینوں سے جاری ہے کہ اسلا م آباد جاتے ہوئے جگہ جگہ یہ خوبصورت پیوندکاری اپنا جلوے دکھاتی ہے یہ پچھلے سال ہی کی بات ہے کہ کشمیر ہائی وے پر یہ کام شروع کیا گیا اور تقریباََ زیرو پوائنٹ سے ذرہ پہلے سے شروع کیا گیا اور سٹور سٹاپ تک بہترین قسم کی گل کاریا ں نظر آتی ہیں یہ کچھ تو بڑے بڑے ٹکڑوں کی صورت میں ہیں اور کچھ نہایت چھوٹے لیکن بڑے سلیقے کی پیوند کاری ہے جس نے بھی کیا ہے بہت محنت کیا ہے اس کی خوبصورتی کے تو داد دینی ہی پڑے گی لیکن اس کے بعد کم از کم اس سڑک سے گذرنے والوں کو اس بات کا بھی حساس ضرور ہو گیا کہ ہمارے ادارے کس قدر عوام کا خیال رکھتے ہیں کہ اس پیوندکاری سے پہلے اس سڑک سے گذرنے والے جگہ جگہ کھڈوں سے گذرنے کے باعث جو جھڑکے لگتے تھے ان سے نجات مل گیا اور سفر آرام دہ تو ہو گیا اور سڑک کی خوب صورتی میں بھی اضافہ ہو، ا اور ظاہر ہے اس کی وجہ سے ٹوریزم میں بھی اضافہ ہوا ہوگا ۔ اسی طرح اسلام آباد ایکسپرس وے پر بھی کئی جگہ یہ نظر آتی ہیں، لیکن جو حالیہ پیش رفت گارڈن ایونیو پر کیا گیا ہے یہ تو لا ثانی ہے جو کہ ہائی وے اشارے سے لوک ورثہ سے ہوتا ہوا پاک چائنہ فرنڈ شپ سے گذر کر سٹور سٹاپ تک جو محنت کیا گیا ہے اس کی تو مثال نہیں ملتی ۔ دیکھو نا جی آخر اس روڈ پر ہمارا قومی ورثہ جو ہے او ر ہمارے دوست ملک چین والے بھی اس سڑک سے تو گذرکر ہی اس یاد گار میں جاتے ہیں آ خر وہ بھی حیران ہو نگے کہ دیکھو ہماری دوستی کس قدر کفایت شعا ر ملک سے ہے کہ کمخرچ بالا نشین کے مصدا ق کس خو ب صورتی سے سڑک کی کی تزعین کیا گیا ہے اور لوک ورثہ کو دیکھنے کے لئے روزانہ لاکھوں نہیں تو کم از کم ہزاروں لوگ تو آتے ہیں اور ظاہر ہے کہ سڑکیں بھی قومی ورثہ میں آتی ہیں نا، اگر سڑکیں آرام دہ ہو نے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی اگر ہوں گی تو محکمہ سیاحت کو بھی فروغ ملے گا اور لوک ورثہ ، شکر پڑیا منومنٹ اور لوک ورثہ کے نزدیک واقع سائنٹفک میوزیم ، دیکھنے جو لوگ آینگے ان کو بھی تو لطف اندوز ہو ناہے نا ،تو جناب عالی اگر فرصت ہو تو لوک ورثہ میوزیم دیکھنے کے بہانے اس پیوندکار کی پیوندکاری کا بھی ایک جائزہ لینے کے لئے ضرور اپنے گھر والوں کو بھی لے کر چلے جاو اور دیکھو کہ کتنا محنت کیا گیا ہے اور کس طرح خو ب صو رتی سے اس سڑک کو پیوندکاری کے فن سے سجایاگیا ہے ۔ جناب عالی میری گنتی ذرہ سی کمزور ہے کم از کم سو کے قریب پیوند لگایا گیا ہے اور ظاہر ہے اتنا زیا دہ کام کوئی آسانی سے تو نہیں ہوتا ہے نا کتنا محنت کیا گیا اور کتنا فنڈ خرچ کیا گیا اور معلوم نہیں منصوبہ بندی پر کتنا وقت خرچ ہوا اور پھر جاکر یہ شاہکار تیار ہوا اور پھر بھی آ پ لوگ اپنا ورثہ دیکھنے نہ جائے تو ان لوگوں کی دل شکنی ہو گی جو کہ قابل قبول نہیں۔ اور ظاہر ہے اگر کوئی خیر خواہ اس سڑک پر سے گذرتے ہوے کوئی ویڈیو بنا لیتا تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس کی خوب صورتی کی چرچا غیر ملکی بھی دیکھتے اور لوک ورثہ کی وجہ سے کم اس روڈ کی خو ب صورتی کی وجہ سے زیادہ سیاحوں کی توجہ حاصل کیا جا سکے گا ۔

جناب عالی یہ بھی لوک ورثہ میں شامل ہو گا کیوں کہ سیاح اسی سڑک سے گذر کر ہی لوک ورثہ اور شکر پڑیاں جائنگے اور ظاہر ہے کہ فرسٹ امپریشن از لاسٹ امپریشن ، اور پھر ہمارے قومی ورثہ کی شہرت کابھی تو چر چا ہو گا ، اس روڈ کو اسلئے بھی اتنا خو ب صور ت بنایا گیا ہے کہ اس سڑک سے ہمارے حکام بالا یعنی صاحب اعوان یعنی اسمبلی کے ممبران کا گذر کم ہو تا ہے جس کی وجہ سے اس کی خو ب صورتی دیر پا ہو گی کیوں کہ ان کے ایک ایک قافلے میں ہزاروں گاڑیا ں ہو تی ہیں جس کی وجہ سے سڑکیں کم محفوظ ہو تی ہیں لیکن اگر کوئی وزیر غلطی سے ایک دفعہ اس سڑک سے گذر گیا تو اس کی خوب صورتی اور آرام دہ ماحول پر فریفتہ ہو گا اور پھر ان کے قافلے تو روزانہ ، ادھرسے نہ گذر جائیں کہ اس سڑک کا حال پھر سے پہلے کی طرح جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو اور عوام اور سیلانی اس سہولت سے محروم نہ ہوں

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button