بچوں کی دنیابچوں کے لئے کہانیاں

تماشا

سبطِ حسن

باپ کے پیچھے پیچھے چلا جا رہا تھا۔ وہ تھوڑی دیرکے بعد اپنی ہتھیلیوں سے بڑی بے زاری کے ساتھ ڈھولکی کو پیٹنا شروع کر دیتا۔ دونوں باپ بیٹا تماشا کرنے کے لیے شہر کی طرف جا رہے تھے۔ شدید گرمی تھی اور انہیں اپنی جھونپڑی سے نکلے کافی دیر ہو چکی تھی۔ سجّو نے صبح سے کچھ کھایا اور نہ پیا تھا۔ وہ سورہا تھا کہ اس کے باپ نے اسے جھنجھوڑ کر ، دو تین گالیاں دے کر اٹھا دیا۔ سڑک کے کنارے ایک نل نظر آیا۔ سجو پانی پینے کے لیے دوڑا۔ اس نے تماشے والے سامان کی گٹھڑی اور ڈھولکی نیچے رکھی۔ نل کو ہاتھ سے بند کیا اور زور زور سے ہتھی چلانے لگا تاکہ نل میں پانی بھر جائے اور پھر وہ اطمینان سے پی لے۔ چھوٹے قد کی وجہ سے ایک ساتھ ہتھی چلانا اور پانی پینا اس کے لیے مشکل تھا۔ ابھی وہ پانی پینے کے لیے نل کے ساتھ منہ لگا ہی رہا تھا کہ اس کے کان میں اس کے باپو کی آواز آئی:

’’اوئے پانی ہی پیتا رہے گا۔۔۔ ڈھول تیرا باپ بجائے گا۔۔۔!‘‘ سجو نے بڑے بڑے گھونٹ حلق میں اُتارے اور سامان اٹھا کر اپنے باپ کے پیچھے دوڑنے لگا۔

شہر کے شروع میں سبزی منڈی تھی اور وہاں لوگوں کا ہجوم رہتا تھا۔ منڈی کے قریب آتے ہی سجو کے باپ نے چھوٹی سی بانسری نکالی اور ایک دھن بجانا شروع کر دی۔ سجو نے ڈھولکی بجانی شروع کر دی۔ یہ اس کا روز کا کام تھا اور بانسری کی دھن چھڑتے ہی اس کے ہاتھ خود بخود چلنا شروع ہو جاتے تھے۔ وہ ڈھولکی بجاتا رہتا مگر ساتھ ہی ساتھ اس کا دھیان ارد گرد آتے جاتے لوگوں، مٹھائی کی دکانوں اور سکول سے آتے جاتے بچوں کی طرف لگا رہتا۔ اکثر جب وہ سکول کے بچوں کو دیکھتا تو ڈھولکی پر اس کا ہاتھ رُک جاتا۔ اس کا باپ بانسری بجاتے ہوئے، بڑے زور سے اپنے پاؤں سے اس کی ٹانگ پر ٹھوکر لگاتا اور وہ پھر ڈھولکی بجانے لگتا۔ سجو، اکثر سوچتا کہ اسے وہ سارے کام کرنا ہوتے ہیں جو کہ عام طو ر پر بچوں کے باپ ہی کرتے ہیں۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ مل کر پیسے کماتا ہے، شام کو تھک ہار کر جب گھر پہنچتا ہے تو اس کی ماں اسے قریبی دیہاتوں میں بھیک مانگنے کے لیے بھیج دیتی ہے۔ وہ بھیک مانگ کر جو کچھ لاتا ہے، سب گھر والے مل کر کھاتے ہیں۔ اسے یہ اندازہ ہی نہ تھا کہ ماں باپ بچوں سے پیار و یار کرتے ہیں۔ ایک دن وہ شہر میں تماشے کے لیے آرہے تھے تو اس نے سکول کے سامنے ایک بچے کو ضد کرتے اور اس کے باپ کو اسے مناتے دیکھا۔ اس شام سجّو نے بھی بھیک میں لائے کھانے میں سے کچھ زیادہ حصے کا مطالبہ کر دیا۔ اس کی ماں نے اسے سمجھایا کہ اس کو اس کے حصے سے زیادہ نہیں ملے گا۔ آخر اس کے دیگر سات بہن بھائیوں نے بھی تو کھانا کھانا ہے۔ سجّو روٹھ گیا۔ روٹھنے پر اس کے باپ نے اس کی جلتی چھڑی سے پٹائی کی اور اس کے سامنے پڑا کھانا بھی اٹھا لیا۔ اس رات سجو بھوکا رہا۔ بھوک اور تھکاوٹ سے اسے نیند نہیں آرہی تھی۔ جب سب سو گئے تو اس نے ایلمونیم کے برتن میں ہاتھ ڈال کر کھانے کے لیے کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر یہ خالی تھا۔ اس دن سے اس نے روٹھنے سے توبہ کر لی۔

بانسری بجاتے ہوئے ، سجو کے باپ نے اپنے سامان کا بقچہ زمین پر رکھا۔ اس میں سے پیوند لگی ایک بڑی چادر نکالی اور اسے زمین پر بچھا دیا۔ زمین پر لوہے کی ایک کیل گاڑی اور اس کے ساتھ نیولہ باندھ دیا۔ بقچے سے سانپ کی پٹاری نکالی اور اسے چادر پر ایک طرف رکھ دیا۔ بقچے سے ڈگڈگی نکالی۔ ایک ہاتھ سے بانسری اور دوسرے سے ڈگڈگی بجانا شروع کر دی۔ وہ یہ سب کرتے ہوئے تیزی سے گھوم رہا تھا۔ لوگ اکٹھے ہو رہے تھے۔ وہ انہیں بانسری روک کر نیچے بیٹھنے کے لیے کہتا اور ساتھ ہی ساتھ دائرہ بڑ ا کرنے کے لیے، انہیں پیچھے ہٹنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ جب کافی لوگ جمع ہو گئے تو اس نے بانسری بجانا بند کر دی۔ اب وہ صرف ڈگڈگی بجا رہا تھا۔ اس نے اونچی آواز میں سجو کو بلایا:

’’بچے جمورے۔۔۔!‘‘

’’جی بابا۔۔۔!‘‘

(ڈگڈگی کی آواز۔۔۔)

’’گرو بڑا کہ چیلا۔۔۔؟‘‘

’’چیلا۔۔۔‘‘

(ڈگڈگی کی آواز۔۔۔)

’’تم بڑے کہ میں۔۔۔؟‘‘

’’میں۔۔۔‘‘

’’میں تیرا باپو۔۔۔!‘‘

’’میں تیرا دادو۔۔۔!‘‘

(ڈگڈگی کی آواز۔۔۔)

’’لڑائی کرے گا۔۔۔ سانپ سے لڑائی کرے گا۔۔۔‘‘

’’جی بابا۔۔۔‘‘

’’وہ بڑا طاقتور ہے۔۔۔زہریلا ہے۔۔۔‘‘

’’میں بھی طاقتور ہوں۔۔۔ میں بھی زہریلا ۔۔۔!‘‘

’’وہ بڑاظالم ۔۔۔‘‘

’’میں بھی بڑا ظالم۔۔۔‘‘

’’وہ بڑا کمینہ۔۔۔‘‘

’’تو بڑا کمینہ۔۔۔‘‘

لوگ بلند آواز میں قہقہے لگانے لگے۔ لوگ نیولے کو زنجیر سے بندھے، کیل کے ارد گرد گھومتے ہوئے دیکھ کر خوش ہو رہے تھے کہ ابھی نیولے اور سانپ کی لڑائی ہوگی۔ لوگ نیولے کی ہوشیاری اور اس کے سانپ کے کاٹنے سے بچنے کے ہنر پر بات چیت کر رہے تھے۔

’’ابھی سانپ اور نیولے کی لڑائی ہوگی۔۔۔‘‘ سجو کے باپ نے اپنی کمر کے ساتھ چمڑے کی ایک چوڑی پیٹی باندھتے ہوئے کہا۔ اس کے پیٹ پر بندھی اس پیٹی پر بانس رکھنے کی جگہ تھی۔ بانس کو اس جگہ میں رکھااور ایک موٹا بانس فضا میں بلند ہو گیا۔ اس کے اوپر والے حصے کے ساتھ موٹا سا رسہ بندھا ہوا تھا۔ بانس کو سیدھا رکھتے ہوئے، سجو کا باپ زمین پر بیٹھ گیا۔ سجو، بڑی پھرتی سے، اپنے باپ کی کمر پر پاؤں رکھتا ہوا، کاندھوں پر آیا اور بانس کو پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کا باپ کھڑا ہو گیا اور اس نے لوگوں سے فرمائش کی کہ وہ ’’ یا علی ؑ ‘‘ کا نعرہ لگائیں۔ نعرہ لگاتے ہی سجو، بندر کی طرح تیزی کے ساتھ بانس کے اوپر چڑھ گیا۔ اوپر جا کر اس نے بانس کے سرے کے ساتھ لگے رسے پر بنے ہوئے بند کو اپنے ایک گھٹنے کے ساتھ کس کے باندھ لیا۔ سجو کے باپ نے ایک دفعہ پھر لوگوں کو ’’ یا علی ؑ ‘‘ کا نعرہ بلند کرنے کی فرمائش کی۔ نعرہ لگا اور سجو بانس کے اوپر گھومنے لگا۔ وہ گھومتے ہوئے کبھی بازو کھول دیتا اور کبھی ایک سمت میں سیدھے کر دیتا۔اسی دوران اس کے سر پرر کھی سرخ ٹوپی دور جا گری۔ تھوڑی دیربانس پر گھومنے کے بعد سجو نیچے اتر آیا۔ مجمعے نے زور زور سے تالیاں بجا کر اسے داد دی۔

چادر پر سکے گرنے لگے۔ سجو نے سکے اٹھائے اور ایک بازو لمبا کر کے مجمعے کو سلام کیا۔ اس نے بقچے میں رکھے لکڑی کے ڈبے میں سکے ڈالے مگر چند سکے ہاتھ میں رہنے دیے۔ بانس پر چڑھتے وقت اس نے مجمعے کے ایک طرف پیلے رنگ کی قلفیوں کی ریڑھی دیکھ لی تھی۔ وہ سکے مٹھی میں دبائے، ریڑھی کی طرف بھاگا۔اسے سخت پسینہ آرہا تھا اور اس کے پیٹ پر بندھا پانی سے بھرا غبارہ اسے سخت تنگ کر رہا تھا۔ یہ غبارہ وہ اس تماشے کے لیے باندھ کر رکھتا تھا جو سب سے آخر میں کیا جاتا تھا۔ لوگوں میں ہمدردی اور ترس کا احساس جگانے کے لیے اس کا باپ اس کے پیٹ میں چھری گھونپ دیتا تھا۔ چھری غبارے میں لگتی اور غبارے میں بھرا سرخ پانی بہہ نکلتا۔ سجو نے ریڑھی تک پہنچتے ہوئے غبارہ کھول دیا اور قلفی لے کر مزے سے اسے چوسنے لگا۔ اس دوران اس کے باپ نے سانپ کی پٹاری کھولی۔ پٹاری کے چاروں طرف ہتھیلی مار کر سانپ کو پٹاری سے باہر نکلنے کا اشارہ دیا۔ سانپ گھوم گھوم کر واپس پٹاری میں بل کھانے لگا۔ اس کی پھنکار آسانی سے سنی جا سکتی تھی۔ اس پھنکار سے لوگوں میں جوش بڑھنے لگا۔ وہ اب اس انتظار میں تھے کہ سانپ باہر آئے اور اس کا نیولے سے مقابلہ شروع ہو جائے۔ سجّو کا باپ نیولے اور سانپ کی لڑائی کا اعلان بار بار کرتا تو تھا مگر وہ ہمیشہ لڑائی نہیں کرواتا تھا۔ اگر لوگ پیسے نہ دیتے تو وہ سانپ کو نیولے کے قریب لاتا۔ نیولہ، سانپ پر لپکنے لگتا تو اسے چھڑی سے دور کر دیتا۔باقاعدہ لڑائی نہ ہونے دیتا۔ اسی طرح سجو کو چھری مارنے کا کرتب بھی صرف اسی صورت ہوتا جب لوگوں کی جیبوں سے سکے زبردستی نکلوانے کی نوبت آجاتی۔

سجو کی زندگی عام لوگوں سے بالکل مختلف تھی۔ وہ ایک شہر میں تین چار ہفتوں سے زیادہ نہیں رہتے تھے۔ ان کا کل سامان چند کمان جیسے لمبے بانسوں ، پیوند لگے موٹے کپڑے، ایک دو چارپائیوں اور چند برتنوں سے زیادہ نہ تھا۔ اس سامان کو وہ ایک گدھا گاڑی پر ڈالتے، اس پر خود بیٹھتے اور پھر دوسرے شہر کو چل دیتے۔ دوسرے شہر کے باہر کسی کھلی جگہ پر چند منٹوں میں وہ اپنی جھونپڑی گاڑھتے اور رہنا شروع کر دیتے۔ ان کے گھر میں شاید ہی کبھی کھانا پکتا تھا۔ صبح جب سجو اور اس کا باپ تماشے کے لیے چلے جاتے تو اس کی ماں اور دیگر بچے کسی چوک میں بیٹھ کر بھیک مانگ لیتے یا پھر کسی قریبی بستی سے کھانا مانگ لاتے۔ چھوٹے سے چھوٹا بچہ جب چلنے لگتا تو وہ کمانے کے کام میں لگ جاتا تھا۔ جتنے بچے زیادہ ہوتے وہ اتنی زیادہ روٹی مانگ لاتے۔

گرمی میں بڑے بچے بھی اول تو بالکل ننگے رہتے، اگر کپڑے پہنتے بھی تو یہ ڈھیلے ڈھالے لمبے کرتے ہوتے تھے۔ سردیوں میں صرف ایک رومال کا اضافہ ہو جاتا جسے سر اور گردن پر کس کر باندھ دیا جاتا تھا۔

گھر میں چولہا صرف چائے بنائے کے لیے جلتا تھا۔ سجو، چائے اور چینی کی چھوٹی چھوٹی پڑیاں آس پاس کے دیہات کی دوکان سے خرید لاتا۔ چائے میں دودھ، بکری کا ڈالا جاتا جو بہت عرصے سے ان کے ساتھ رہ رہی تھی۔ چائے پک جاتی تو ٹوٹی پیالیوں اور ایلمونیم کے گلاسوں میں پی لی جاتی۔ ایک صبح چائے کا دور چل رہا تھا۔ سب ’سڑپ سڑپ‘ چائے پی رہے تھے۔ سجو کی چائے ٹھنڈی ہوگئی تھی اور اس نے چائے کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔

’’چائے پی۔۔۔ جلدی کر۔۔۔ کام پر نہیں جانا۔۔۔‘‘

سجو کے باپ نے ڈانٹتے ہوئے سجو سے کہا۔

’’میں نے چائے نہیں پینی۔۔۔‘‘ سجو نے آنکھیں جھکائے، غصے میں کہا۔ اس دن اس کا دل نہیں چاہتا تھا کہ وہ کام پر جائے۔ وہ چاہتا تھا کہ گھر پہ رہے اور جی بھر کر اپنی چھوٹی بہن اور بھائی کے ساتھ آپوشٹاپو کھیلے۔ اس کے باپ نے چائے پی لی تھی اور گلاس کس کے سجو کی کمر پر مارا۔ سجو درد سے بلبلا اٹھا۔ رونے لگا۔ وہ سڑک کی طرف دوڑا۔ اس کا باپ اس کے پیچھے دوڑا مگر کچھ سوچ کر رک گیا۔ سجو سڑک پر آکر رُک گیا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھی کہ وہ کدھر جائے۔ اس نے دل میں ایک بات طے کر لی تھی کہ وہ اُس دن تماشے کے لیے نہیں جائے گا۔ اس نے رونا بند کر دیا اور سڑک پر چلنے لگا۔ کھیت ختم ہوگئے اور ایک بڑی سڑک نظر آئی۔ وہاں سے بائیں طر ف مڑا اور ایک دکان کے آگے جا کھڑ ہوا۔ وہاں دکان پر ایک ٹرک کھڑا تھا اور ایک لڑکا اس کا ٹائر اتارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سجو نے وہاں سڑک پر ایک طرف بیٹھ کر ٹائر اتارنے سے لے کر، اس پر پنکچر لگانے اور پھر دوبارہ ٹرک کے ساتھ لگانے تک کا سارا عمل دیکھا۔ اسے بڑ امزا آیا۔ جب ٹرک کے ڈرائیور نے پنکچر لگانے والے کو پیسے دیے تو سجو کو خیال آیا کہ تماشا کرنے اور بھیک مانگنے سے یہ کام زیادہ اچھا ہے۔ پھر وہ سوچنے لگا اتنے بڑے ٹرک کو چلانا بھی تو مزے کا کام ہے۔ کیوں نہ ٹرک ڈرائیور ہی بنا جائے۔ سجّو آگے بڑھا۔ آگے بہت سے درختوں کے درمیان ایک سکول تھا۔ سب بچوں نے نیلے رنگ کی قمیص اور سفید شلوار پہن رکھی تھی۔ اس کو سکول کے بچے بہت اچھے لگے۔ وہ سکول کی دیوار پر بیٹھ گیا۔ کئی بچے اس کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ بچوں نے اسے پہچان لیا تھا۔ ایک بچہ اسے’’بچہ جمورا‘‘ کہہ کر پکارہا تھا۔ اس نے بچوں کو اپنے کرتبوں کے بارے میں بتایا جو وہ تماشے میں دکھاتا تھا۔ بچے، اس کو چھیڑ تو رہے تھے مگر وہ اسے اپنے آپ سے مختلف یا شاید بہتر سمجھ کر اس سے جھجک بھی رہے تھے۔ بہتر اس لیے کیونکہ وہ کرتب دکھا سکتا تھا۔ مختلف اس لیے کیونکہ وہ بھیک مانگتا تھا، اس کے کپڑوں سے بدبو آرہی تھی۔ اس کو انھوں نے کبھی اتنا قریب سے نہیں ددیکھا تھا۔ سجو بالکل خاموش بیٹھا تھا۔ وہ اپنے آپ کو بچہ نہیں، ان سے بڑا سمجھتے ہوئے تھوڑا سا فاصلہ محسوس کر رہا تھا۔ اس نے آخر اپنی چپ توڑی۔ وہ کہنے لگا:

’’تم پڑھ کر کیا کرو گے۔۔۔؟‘‘

’’میں پڑھ کر ڈاکٹر بنوں گا، لوگوں کو ٹیکا لگایا کروں گا۔۔۔‘‘ ایک بچے نے کہا۔

’’تم، کیا نہیں پڑھتے۔۔۔؟‘‘

سجو، چپ رہا۔ مگر وہ سوچ رہا تھا کہ تماشا کرنے اور بھیک مانگنے سے سکول جانا بہتر ہے۔

’’تم بھیک کیوں مانگتے ہو۔۔۔ ذرا آواز لگا کر بتاؤ۔۔۔‘‘ ایک لڑکے نے فرمائش کی۔ سجو کو یہ فرمائش سخت بُری لگی۔ وہ سکول کی دیوار سے اترا اور آگے کی طرف چلنے لگا۔ بچوں نے اس کے پیچھے شور مچا دیا:

’’اﷲ کے نام پر کھانا دے دو، بھوکا ہوں۔۔۔ کھانا دے دو۔۔۔ بھوکا۔۔۔‘‘

دن ڈھل رہا تھا۔ سجو اپنی جھگی کی طرف لوٹ آیا۔ وہ جھگی کے قریب ایک موٹے تنے والے درخت کے پاس جا چھپا۔ وہ دُور سے جھگی دیکھ سکتا تھا۔ اس نے دیکھا، اس کا باپ چارپائی پر بیٹھا تھا۔ اس کی ماں چولہے کے پاس بیٹھی تھی۔ شاید وہ چائے پکا رہی تھی۔ چارپائی کے ارد گرد اس کے بہن بھائی زمین پر کھیل رہے تھے۔ اتنے میں اس کی بہن چھوٹی سی مٹکی لیے، درخت کی طرف آنے لگی۔ وہ ساتھ ہی بہتے، نہر کے کھالے سے پانی بھر نے آرہی تھی۔ جب وہ قریب آئی تو سجو نے دھیرے سے اسے اپنی طر ف بلایا۔ وہ اسے دیکھتے ہی لگاتار بولنے لگی:

’’امی، رورہی تھی۔۔۔ باپو تمہیں ڈھونڈتا رہا۔۔۔ آج وہ تماشے پر گیا تھا مگر جلد لوٹ آیا۔ ابھی وہ صدا لگانے جا رہاتھا۔۔۔ امی کی باپو کے ساتھ لڑائی بھی ہوئی تھی۔۔۔ تم آجاؤ۔۔۔ باپو کچھ نہیں کہے گا۔۔۔‘‘

’’میں نہیں آؤں گا۔۔۔میں آج سکول گیا تھا۔۔۔ میں اب سکول جایا کروں گا۔۔۔ تماشے پر نہیں۔۔۔‘‘

سجّو نے بڑے یقین سے پھیلتی آنکھوں کے ساتھ اپنی بہن کو بتایا۔ اسی دوران سجو کی ماں نے دونوں بہن بھائیوں کو باتیں کرتے دیکھ لیا۔ وہ دوڑتی ہوئی درخت کے پاس آئی ۔ سجو بھاگنا چاہتا تھا مگر ماں کو دیکھ کر رک گیا۔ اس کی ماں نے اسے باہوں میں دبوچ لیا۔ گلے سے لگایا۔ شروع میں سجو، اپنی ماں کی باہوں میں اکٹرا سا رہا مگر ممتا کی گرمی سے وہ روئی کے پھاہے کی طرح نرم ہو گیا اور اس نے اپنے آپ کو ماں کو سونپ دیا۔ اس کی ماں وہیں بیٹھ گئی۔ گود میں پڑ اسجو، پھر رونے لگا۔ روتا چلا گیا۔ ماں اس کا ماتھا چومتی رہی، اسے دلار کرتی رہی۔ اس کی بہن ماں کے کندھے کے ساتھ لگ کر کھڑی رہی۔

اس شام سجو، بھیک مانگنے نہ گیا۔ اس کا باپ بھیک مانگ کر واپس آیا تو اس نے الگ سے رکھے، میٹھے چاول سجو کو دیے۔ سجو نے چاول ، مٹھیاں بھر بھر کر کھائے۔ اس رات اسے بکری کا دودھ بھی ملا۔ سجو، اس رات جذباتی طو ر پر سخت تھک چکا تھا۔ وہ جلد ہی سو گیا۔ اس رات اس نے ایک خواب دیکھا:

’ سجو نے سکول کی یونیفارم پہنی ہوئی ہے۔ بوٹ بالکل نئے ہیں۔ چمکتے ہوئے۔۔۔ اس سے ٹھیک سے چلا نہیں جاتا۔۔۔ کوئی کہتا ہے، بغیر جوتوں کے چلنے سے اس کے پاؤں چوڑے ہوگئے ہیں۔۔۔ سجو سکول میں ، بہت سے بچوں کو تماشا کر کے دکھاتا ہے۔۔۔ بچے خوب خوش ہوتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں۔۔۔ سب پوچھتے ہیں کہ وہ یہ تماشے کیسے کر لیتا ہے۔۔۔ سب کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سجو سے تماشا کرنے کا طریقہ سیکھ لیں۔ سجو خوش ہے مگر اسے لگتا ہے کہ اس سے یہ سب کچھ چھن جائے گا۔ اسے گھبراہٹ سی ہوتی ہے کہ وہ شاید سکول نہ جا سکے۔۔۔اسے پیٹ پر بندھا غبارہ تنگ کر رہا ہوتا ہے۔۔۔وہ اسے بچوں سے چھپانے کے لیے بار بار اپنی قمیص کھینچ کر نیچے کرتا ہے۔۔۔‘‘

اسی گھبراہٹ میں اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ اسے دور کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آرہی ہوتی ہیں، جیسے انہوں نے کسی جنگلی جانور کو گھیرے میں لیا ہو اور اس پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔

اگلی صبح سجو، اپنے باپو کے ساتھ تماشے کے لیے گیا۔ وہ تماشے پر جانا تو نہیں چاہتا تھا مگر رات کو باپو کے میٹھے چاول کھلانے اور ماں کے پیار سے اس کے اندر بغاوت کی آگ پر پانی پڑ چکا تھا۔ وہ باپ کے پیچھے پیچھے، گلے میں ڈھولکی ڈالے، چھوٹا سا بقچہ اٹھائے، ڈھولکی کو مسلسل بجاتا رہا تاکہ اس کے باپ کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ اس کا باپ بھی سجّو کو بلاوجہ دھتکار نے یا گالی دینے سے گریز کر رہا تھا۔ شہر کے قریب پہنچتے ہی ا ن کے پیچھے بہت سے لڑکے لگ گئے۔ اس طرح بچوں کے اکٹھے ہو جانے کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ مجمع جلد اکٹھا ہو جائے گا۔ سبزی منڈی میں ابھی تک کافی بھیڑ تھی۔ دیہات سے سبزی لانے والے کسان ابھی تک سبزی منڈی کے ارد گرد گھریلو ضروریات کا سامان وغیرہ خریدنے میں مصروف تھے۔ سجو کے باپ نے وہیں، منڈی کے پاس کھلے میدان میں تماشا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے بانسری اور ڈگڈگی بجانی شروع کر دی۔ جلد ہی ایک بڑا مجمع اکٹھا ہو گیا۔ تماشا شروع ہو گیا۔ بہت سے کرتب دکھائے گئے مگر ایک آدھ سکے کے علاوہ کچھ بھی چادر پرنہ گرا۔ لوگ بار بار سانپ اور نیولے کی لڑائی کا کہہ رہے تھے۔ سجو کے باپ نے فیصلہ کیا کہ احتیاط سے سانپ اور نیولے کی لڑائی کروا دی جائے تاکہ سانپ کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اس نے سانپ کی پٹاری کاڈھکنا اٹھایا۔ پٹاری کو ہلایا۔ سانپ پھن پھیلائے پٹاری کے اوپر نظر آیا۔ اس نے نیولے کی زنجیر ایک ہاتھ میں پکڑ لی اور دوسرے میں لمبی بانس کی چھڑی۔ وہ نیولے کو سانپ کی پٹاری کے قریب لایا۔ سانپ نے نیولے کو دیکھتے ہی اپنا منہ پٹاری میں جھکا لیا۔ نیولا، اس پر جھپٹ رہا تھا اور سانپ بدستور پٹاری میں چھپا بیٹھا تھا۔ مجمعے میں ایک جوش بھر آیا۔ ’’پکڑو، مارو، استاد ،نیولے کی زنجیر ڈھیلی کرو۔۔۔‘‘ آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ اسی دوران سانپ نے ایک جست لگائی اور نیولے پر حملہ کر دیا۔ نیولا ایک طرف ہٹ گیا۔ سانپ زمین پر گرا تو بڑی تیزی سے حرکت کرتا ہوا پٹاری میں داخل ہو گیا۔ اب نیولا، پچھلے پاؤں پر اٹھ اٹھ کر سانپ پر حملے کر رہا تھا مگر سجو کا باپ اس کی زنجیر ڈھیلی کرنے سے گریز کر رہا تھا۔ وہ نیولے کو لے کر پٹاری کے گرد چکر لگانے لگا۔ وہ ساتھ ہی ساتھ کہہ رہا تھا:

’’مائی باپ، جان سب کو پیاری ہے۔۔۔سانپ نہیں لڑے گا۔۔۔ اس کو مارنے سے کیا فائدہ۔۔۔‘‘

وہ مسلسل گھوم رہا تھا اور چند سکے چادر پر گرے۔ سجو، سکے اکٹھے کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیا آئس کریم کھائی جائے یا نہیں۔۔۔ آخر اس کے اندر کے بچے نے اسے سمجھایا ’’باپو مت بن، ٹھنڈی ٹھنڈی آئس کریم کھا لو۔۔۔‘‘ وہ چند سکے بقچے میں پھینکے اور کچھ اپنی مٹھی میں دبائے اور مجمعے سے باہر نکلا۔ اسے آئس کریم والا کہیں نظر نہ آیا۔ البتہ قریب ہی مٹھائی کی دکان نظر آئی۔ وہ دوڑا اور ایک لڈو لے کر، اسے منہ میں ٹھونس کرواپس مجمعے میں آگیا۔ اس کا باپ سانپ کی پٹاری کو بند کر چکا تھا اور نیولا لوہے کی کیل کے گرد، اپنی سرخ آنکھیں جھپکاتا، چکر پہ چکر لگا رہا تھا۔

اس کے باپ نے آواز لگائی:

’’مائی باپ، پیٹ کا سوال ہے۔۔۔ اب کوئی ماں کا لال، اپنے دائیں پاؤں کی مٹی نہیں ہلائے گا۔ ابھی اصل کھیل شروع ہوگا۔۔۔‘‘ اس نے اپنی کمر میں ٹھونسی ایک لمبی چھری نکالی۔ سورج کی روشنی میں اس کی دھار چمک رہی تھی۔ اس نے اپنی قمیص اتار دی اور دونوں ہاتھوں سے پیٹ کو پیٹنا شروع کر دیا۔

’مائی باپ ،اب میں اپنے بچے۔۔۔ جگر کے ٹکڑے کے پیٹ میں چاقو گھونپ دوں گا۔۔۔ مائی باپ اس کی زندگی اب تمہارے ہاتھوں میں ہے۔۔۔ دائیں پاؤں کو اپنی جگہ سے ہلنے نہ دینا۔۔۔ خون کا فوارہ نکلے گا مگر بچے کو کچھ نہ ہو گا۔ کوئی اپنی جگہ سے ہلے نہیں۔۔۔‘‘

بھیڑ میں خوف سا پھیل گیا۔۔۔ سب اپنے جسموں کا پورا وزن اپنے دائیں پاؤں پر ڈالے کھڑے تھے۔ سجو منہ میں لڈو ڈالے، اسے آہستہ آہستہ کھاتا ہوا، مجمعے میں آکھڑا ہوا ۔ اس کے باپ نے مجمعے کو ’’یا علی ؑ ‘‘ کا نعرہ بلند کرنے کا کہا۔

’’باپو، نہیں، مجھے مت مارو۔۔۔مجھے مت مارو۔۔۔‘‘ سجو نے کہا۔

سجّو کا باپ جی ہی جی میں خوش ہو رہا تھا کہ سجو آج کیسے دل سے تماشے میں حصہ لے رہا ہے۔ سکوں کی بارش ہونے لگی۔۔۔ سجو کا باپ سکے دیکھ کر اور بھی پرجوش ہو گیا۔ وہ کہہ رہا تھا:

’’یا علی ؑ ‘‘ جان کس کو پیاری نہیں۔۔۔ مائی باپ پیٹ کا سوال ہے۔۔۔ کون باپ اپنے بیٹے کو مار سکتا ہے۔۔۔!‘‘

اسی دوران اس نے ایک چھلانگ لگائی اور سجو کو گردن سے پکڑ کر ، دھکادے کر زمین پر گرا دیا۔ اسے گھٹنوں کے نیچے رکھ کر چھری، پیٹ میں گھونپ دی۔

سجو برابر چلا رہا تھا۔ اس کے منہ سے لڈو کا پیلا پیلا مواد، تھوک میں مل کر باہر گر رہا تھا۔ وہ چلا رہا تھا:

’’بابو مجھے مت مارو، مت مار۔۔۔ میں نے۔۔۔ غ۔ب۔۔۔ ا۔۔۔‘‘ چھری اپنا کام کر چکی تھی۔ یہ اس کے پیٹ پر ترچھی چلتی رہی عین جگر والی جگہ پر اتر چکی تھی۔

خون کی چند بوندیں سجو کے جسم سے چپکی ہوئی قمیص سے باہرنکلیں، پھر ایک پتلی دھار بن کر چادر پر بکھرے سکوں کے بیچ پھیل گئیں۔ چادر پر سکے برابر گرتے جا رہے تھے۔

(یہ کہانی جنوب ایشیا کے ایک ادیب کی کہانی سے ماخوذہے)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button