کالمز

بھارت کی خوش فہمیاں اسے لے ڈوبیں گی

عثمان حیدر

ؑ بھارت نہ معلوم کس خوش فہمی کا شکار ہے کہ تمام ہمسایوں سے الجھنا چاہتا ہے اور یہ تصور کر رہا ہے کہ وہ اس خطے میں بالاتر ہے بھارت کی یہی خوش فہمیاں اسے ایک دن لے ڈوبیں گی ۔پاکستان تو بھارت کی آنکھوں کی کھٹکتا ہے لیکن اسے چین بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا ہے اور جب چین کو پاکستان سے جب بھی قریب ہوتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کی تکلیف میں اور اضافہ ہوتا ہے اور بالخصوص پاک چین لازوال دوستی سے تو اسے مروڑ اتھتے ہیں اور تلملا اٹھتا ہے لیکن کچھ کر نہیں سکتا ،پاک چین اقتصادی راہداری نے تو بھارت کی کمر توڑ دی ہے اور بھارت سرٹوڑ کوششیں کر رہا ہے کہ کسی طرح پاک چین اقتصادی راہداری کا عظیم منصوبہ ناکام ہو لیکن بھارت کا یہ خواب خواب ہی رہے گا،بھارت کی توسیع پسندانہ خوش فہمی اسے لے ڈوبی گی اب بھارت شاید اپنی تباہی کی طرف بڑہ رہا ہے اسی لئے چین کو آنکھیں دکھا رہا ہے لیکن کہتے ہیں کہ کیا پدی تو کیا پدی کا شوربہ ،کیا بھارت تو کیا بھارت کی طاقت ،چین کے مقابلے میں بھارت کی کوئی حیثیت نہیں لیکن نہ معلوم کیوں بھارت نے ان تمام حقیقتوں کے باوجود کشیدگی کا آغاز کیا ہے ۔انڈیا اور چین کے درمیان تعلقات ان دنوں شدید تلخیوں کا شکار ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تقریباً چار ہزار کلومیٹر لمبی سرحد کے کئی مقامات پر دیرینہ تنازع ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک بار جنگ بھی ہو چکی ہے۔سرحدی تنازع حل تو نہیں ہوا لیکن دونوں ملکوں کی سرحد پر گذشتہ 50برس میں کبھی کوئی گمبھیر ٹکراؤ نہیں ہوا۔ لیکن اب یہ صورتحال بدلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔گذشتہ مہینے بھوٹان کے ڈوکلام خطے میں بھارتی فوجیوں نے چینی فوجیوں کو سڑک تعیمر کرنے سے روکا۔ بھوٹان کا یہ علاقہ فوجی اعتبار سے بھارت کے لیے بہت اہم ہے۔ اس خطے پر چین اپنا دعویٰ کرتا ہے۔چین نے ڈوکلام کے راستے تبت کے شہر لہاسہ اور بھارت کی سرحد پر ناتھو لا درے کو جوڑنے والی ایک سڑک بنا رکھی ہے۔بیجنگ ڈوکلام کے راستے ریلوے لائن بھی بچھا رہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب بھارتی فوجیوں نے تبت کی علاقائی خود مختاری کے دفاع کے لیے چینی فوجیوں کو کام کرنے سے براہ راست روکا ہو۔دونوں ملکوں کی سرحد پر گذشتہ پچاس برس میں کبھی کوئی گمبھیر ٹکراؤ نہیں ہوا لیکن اب یہ صورتحال بدلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔چین کا ردعمل توقع کے عین مطابق سخت تھا۔ چین کے فوجیوں نے سکم سکٹر میں بھارتی علاقے کے اندر داخل ہو کر فوج کے دو عارضی بنکر بلڈوزر سے تباہ کر دیے۔ یہی نہیں ناتھو لا درے سے کیلاش ناتھ کی سالانہ مذہبی یاترا پر جانے والے بھارتی زائرین کو بھی یاترا کی اجازت نہیں دی گئی۔ چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے کہا گیا کہ بھارت اپنی غلطی کو سمجھے اور اسے صحیح کرے۔

حالیہ برسوں میں چین نے سرحدی علاقوں میں بہترین سڑکیں اور ریلوے لائنیں تعمیر کی ہیں۔ انڈیا نے بھی کچھ عرصے سے چین کی سرحد کے نزدیک سڑکیں بنانی شروع کی ہیں۔ چینی سرحد کی نگرانی اور کسی ٹکراؤ سے نمٹنے کے لیے گذشتہ تین برس میں خصوصی طور پر تقریبآ ڈیڑھ لاکھ اضافی فوجی بھرتی کیے گئے ہیں۔

انڈیا اور چین کے درمیان تلخی اس وقت سے شروع ہوئی جب چین نے نیو کلیئر سپلائی گروپ این ایس جی میں انڈیا کی شمولیت کی مخالفت کی۔ انڈیا پاکستان میں زیر تعیمرچین کے اقتصادی زون کی بھی مخالفت کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ چین نے جو سڑک تعمیر کی وہ ایسے خطوں سے گزرتی ہے جن پر بھارت کا دعوی ہے۔انڈیا کے قوم پرست ٹی وی چینلز ریٹائرڈ جنرلوں کے ساتھے جنگی ہسٹیریا پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔کئی سابقہ سفارتکاروں اور دانشوروں نے جارحانہ رویے اور جنگی ہسٹیریا کی نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے رویے سے برسوں کی محنت سے حاصل کیا گیا امن تباہ ہو جائے گا۔آئندہ ہفتے وزیر اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ جی ٹوئنٹی کی کانفرنس کے دوران ہیمبرگ میں ملاقات کریں گے۔مودی ایک سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے ستمبر میں بیجنگ جانے والے ہیں۔ لیکن دونوں ملکوں نے جو موقف اختیار کیا ہے اس سے کشیدگی ختم ہونے کا فوری طور پر کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے اور آنے والے دنوں میں سرحدوں پر ٹکراؤ مزید پیچیدگی اختیار کر سکتا ہے۔بھارت کی ان حماقتوں پر بھارت کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنے لگیں ہیں۔انڈيا کے معروف دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی یہ بات کہہ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 1962 کے بعد سے انڈیا نے بہت ترقی کی ہے۔ فوجی طاقت کے معاملے میں بھی بھارت کافی مضبوط ہوا ہے لیکن چین کے مقابلے میں تو بھارت کچھ بھی نہیں ہے۔‘تبت اور اس پورے علاقے میں چین کا جو بنیادی ڈھانچہ ہے وہ انڈیا سے 100 فیصد زیادہ ہے۔تبت اور اس پورے علاقے میں چین کا جو بنیادی ڈھانچہ ہے وہ انڈیا سے 100 فیصد زیادہ ہے۔چین اپنے ٹھکانوں تک ریلوے، ہیلی پیڈ، ایئرفيلڈ کے ذریعے آسانی سے پہنچ سکتا ہے۔ چین تو ایک ہفتے میں وہاں ریل سے پہنچ سکتا ہے۔دوسری جانب انڈیا میں جو 72 سڑکیں بننی تھیں ان میں سے محض آٹھ یا دس سڑکیں ہی بن سکی ہیں۔ چین کے ساتھ تصادم مول لینا انڈیا کے لیے کافی مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔انڈیا کی جو فوجی صلاحیت ہے اس حساب سے وہ چین کے سامنے کچھ نہیں حال ہی میں انڈین فضائیہ کے چیف دھنووا نے جو انٹرویو دیا تھا اس میں انھوں نے کہا ہے کہ انڈيا کے پاس ‘ٹو فرنٹ وار’ یعنی دو محاذوں پر جنگ کے لیے ہوائی جہازوں کی تعداد کافی نہیں ہے۔ان تمام حقائق کی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بھارت شاید ہندوانہ توہمات کا شکار ہے یا کسی ان دیکھی خوش فہمی میں مبتلا ہو چکا ہے کہ اس کی آنکھوں میں پٹی آچکی ہے کہ وہ چین کو آنکھیں دکھانے کی سوچ رہا ہے ،بہتر ہوتا کہ بھارت پاکستان اور چین سے لڑنے سے قبل زرا اپنے گریبان میں جھانکے اور دیکھے کہ بھارت کی سرزمین میں بھوک اور افلاس اور ظلم کے ستائے عوام کئی ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں چلا رہے ہیں اور ہر حال میں آزادی لینا چاہتے ہیں بھارت پہلے اپنے گھر کی خبر لے اس کے بعد فرصت ملے تو چین اور پاکستان سے لڑنے کیلئے اپنی بربادی کا پہلے سے سامان تیار کر کے آگے آئے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button