شعر و ادبکالمز

ہوپر(غذر) میں’’ شئیلی پُھنَٗر‘‘

پھر وہی زیرو پوائنٹ امپھری تھا۔پھر وہی سڑک کے ساتھ بیدِ مجنوں(مَچُھور)کی ٹھنڈک بھری چھاؤں تھی۔ساتھ ہی دریائے گلگت کا وہی دلفریب منظر تھا۔اور پھر میرا وہی انتظار تھا۔اس بار بھی موبائل رابطے میں جمشید دکھی صاحب تھے۔بالآخر ان کی کال موصول ہوئی۔

’’سلیمی !ہم امپھری میں داخل ہوئے ہیں ۔کدھر ہو تم؟‘‘

عرض کیا۔’’سر! میں زیرو پوائنٹ امپھری کے پٹرول پمپ کے پاس ،اسی بیدِ مجنوں کے پیڑ تلے بیٹھا ہوں ،جہاں اکثر انتظار کرتا ہوں ۔‘‘

اس وقت دن کے بارہ بجے تھے۔جولائی کا ابتدائی دن تھا۔دھوپ ،پورے رُوپ سے زمین پر اتری ہوئی تھی۔گرم ہوتی ہوئی سڑک کی حدت بڑھنے لگی تھی۔مگر لبِ دریا کی و ہ چھاؤں بڑی راحت بخش تھی۔اس لیے انتظار ،بے قرار نہیں کر رہا تھا۔

اس وقت ہمارا ضلع غذر جانا طے تھا۔وہاں دماس سے آگے ہُوپر گارڈنز میں آج کے مقبولِ عام شنا شاعر ظفر تاج کے نئے البم ’’شئیلی پُھنر‘‘ کی تقریبِ اِجراء منعقدہو رہی تھی۔ظفرصاحب کی خصوصی دعوت پر حلقہ اربابِ ذوق کے اہل قلم اس تقریب میں شرکت کرنے جارہے تھے۔میں ناچیز بھی اس قافلے کا ایک مسافر تھا۔

ذرا ہی دیر بعد’’ حاذ ‘‘کے احباب پہنچ گئے۔ظفر صاحب ہی کی مہربانی سے سرکاری وین کا انتظام کیا گیا تھا۔ضیا صاحب ، دکھی صاحب ،نسیم صاحب ،دیا صاحب ،فاروق قیصر ،نذیر حسین نذیر ،غلام عباس صابراور جمیل امنگ اس وقت ہا ئیس میں موجود تھے۔میرے بیٹھتے ہی وین پھر سے غذر روڈ پہ تیزی سے رواں دواں ہوئی۔میری جنم بھومی ،میری امپھری پیچھے رہ گئی اور ہم آگے بڑھتے گئے۔

بسین سے آگے سڑک اور دریا کا بہاؤ ساتھ ساتھ ہے۔وہاں سے آبادیاں بھی ، پہاڑ بھی سمٹ کر تنگ سے رہ جاتے ہیں ۔ایک طرف پہاڑ کے دامن میں بل کھاتی سڑک خوف طاری کر دیتی ہے ،دوسری جانب دریائے غذر کا پُر شور پانی رعب جما دیتا ہے۔کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ ،کبھی دریا کے اُس پار کی وادیاں بہت خوب صورت منظر پیش کرتی ہیں ۔یہ آبادیاں کہیں متصل ہیں،کہیں ان کے بیچ خشک اور چٹیَل پہاڑ حائل ہیں ۔

غذر روڑ زیادہ کشادہ نہیں۔بلکہ مناسب ہوگا اگر یہ کہیں کہ آج کے دور میں جتنی زیادہ اور جس قسم کی گاڑیاں چلتی ہیں اس کی مناسبت سے بہت تنگ ہے۔سب جانتے ہیں یہ موسم گلگت بلتستان میں سیر و سیاحت کا ہے۔پاکستان بھر سے لاکھوں سیاح یہاں کا رخ کر تے ہیں ۔روزانہ سینکڑوں ہزاروں گاڑیاں گلگت میں داخل ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ خود یہاں کے لوگوں کے پاس پیسہ بہت آگیا ہے ۔جس کی وجہ سے سڑکیں چھوٹی بڑی گاڑیوں سے بھری رہتی ہیں ۔ایسے میں غیر مقامی سیاحوں کی وجہ سے رش کئی گُنا بڑھ جاتا ہے۔

یہ بھی خوب ہے ان غیر مقامی سیاحوں میں سے اکثر ہنزہ نگر سے گزر کر آگے خنجراب کی طرف جاتے ہیں ۔اس طرف شاہراہِ قراقرم اتنی چوڑی ہے کہ ہر طرح کی گاڑیوں کا بوجھ برداشت کر سکتی ہے۔اگر ان میں سے آدھی گاڑیاں بھی ضلع غذر یا ضلع استور کا رخ کریں تو خدا جانے ٹریفک نظام کا کیا حشر ہوگا۔۔۔؟

اس وقت بھی متعدد چھوٹی بڑی گاڑیاں ہمارے آگے پیچھے گزر رہی تھیں ۔ان میں سے بہت کم غیر مقامی سیاحوں کی گاڑیاں نظر آرہی تھیں۔اکثر غذر اور گلگت کے لوگ ہی محوِ سفر تھے۔اس کے باوجود ہماری وین کی رفتار ہموار نہیں تھی۔کیونکہ لوگوں کے پاس پیسہ اور گاڑیاں آگئی ہیں اس لیے تیل جلاتے ہوئے دل نہیں جلتا۔زیادہ رش اورتنگ سڑک کی وجہ سے اوورٹیک کرتے ہوئے یا دوسری گاڑیوں کو راستہ دیتے ہوئے بہت دقّت ہو رہی تھی۔

ویسے سخن گسترانہ بات یہ بھی ہے کہ اگست کے بعد انگور پک جاتے ہیں ۔پھر اس کی بیٹی کے رسیا ،منچلے نوجوان ہر جگہ سے کوچہء یار میں نکل جاتے ہیں ۔پھر انگور کی بیٹی کا نشہ ایسا چڑھ جاتا ہے کہ اس غذر روڑ پہ گاڑیوں سمیت لُڑھکتے ہوئے ،گہرے اور تیز دریا میں ڈوبتے ہوئے خبروں کی زینت بنتے ہیں۔

ہائیس کے باہر ایک طرف تیز دریا سے اٹھتی ٹھنڈی ہواتھی۔دوسری طرف پہاڑوں سے اترتی گرم لُو تھی۔جس کے تھپیڑے کھڑکی سے اندر داخل ہو رہے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ ہا ئیس میں بیٹھے اہلِ سخن کی سخن طرازیاں تھیں ،ان کی پھلجھڑیاں تھیں۔چٹکلے ،لطیفے ،غزلیں اور قہقہے تھے ۔جن سے سفر کی شدت محسوس نہیں ہورہی تھی۔

ضیا صاحب ،دکھی صاحب ،نسیم صاحب اور دیا صاحب بڑے یار باش ،خوش باش اور زندہ دل انسان ہیں۔تاج صاحب کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی تھی سب کو ۔وہ اپنی ذاتی گاڑی میں پہلے ہی الگ سے چلے گئے تھے۔رنگینئی طبع میں تاج صاحب سب کے امام ہیں ۔ ان صاحبان کی صحبت میں سادہ پانی بھی نشہ دینے لگتا ہے۔ان کی باتوں سے بجھے دل کِھل اٹھتے ہیں ۔کیسی ہی بوجھل طبیعت ہو ،ذرا ہی دیر میں جسم کا رُواں رُواں جھومنے لگتا ہے۔ہم سب اسی طرح جھومتے،گاتے ،نرم گرم باتیں کرتے ،راستے میں کئی بار ٹھہر کر چائے سگریٹ اورخوبانی سے لطف اٹھاتے تین بجے کے قریب ہوپر گارڈنز پہنچ گئے۔

ہوپر ، دماس سے آگے گوپس جاتی سڑک کے بائیں طرف،بلندی کی طرف ایک پُر فضا مقام ہے۔ایک تنگ سا کچا راستہ ،کھیتوں اور ڈھلوانوں سے ہوتا کچھ بلندی پہ جاتا ہے ۔وہاں گھاس کے خوب صورت قطعے بنائے گئے ہیں ۔ڈھلوانی زمین پر ہموار شکل کے ان سرسبز قطعوں پہ اس وقت بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔دائیں طرف ایک وسیع قطعے پر شامیانے لگا کر سٹیج کی شکل دی گئی تھی۔ادھر بِھیڑ بھی زیادہ تھی۔وہاں صوفے اور کرسیاں لگائی گئی تھیں ۔شامیانے کے باہر ٹھنڈی گھاس پہ اورذرا دور ٹیلوں پہ بے شمار لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ہمارے قریب جاتے ہی سٹیج سے حاذ کے اہلِ قلم کو خوش آمدید کہا گیا ۔ظفر تاج صاحب اور متظمین نے آگے بڑھ کر استقبال کیا ۔پھر اپنی رہنمائی میں کرسیوں پہ بٹھایا ۔صدر حاذ ضیا صاحب پہلی قطار میں ،جبکہ دیگر اربابِ ذوق پچھلی نشستوں پہ رونق افروز ہوئے۔

ہمارے دائیں طرف ذر ا سی بلندی پہ ،خشک پہاڑ کے ساتھ دھوپ سے بچاؤ کے لیے لکڑی کے خوب صورت چھتری نما چھپر بنا ئے گیے تھا۔اس کے نیچے کرسیوں پہ اور زمین پر بھی بہت سی خواتین دکھائی دے رہی تھیں ۔انہیں دیکھ کر حیرت بھی ہوئی ،مسرت بھی۔ایسی کُھلی جگہ ،موسیقی کے ایسے پروگرام میں خواتین کی شرکت غذر کی روشن خیالی اور ان کے رویوں کی نرمی کی علامت تھی۔

موسم بہت پیارا تھا۔ہم شامیانوں کی اوٹ میں تھے،اس لیے دھوپ ہم سے دور تھی۔مگر شامیانے سے باہر ہزاروں چھوٹی بڑی عمر کے لوگ دھوپ کے باوجود مخملی گھاس کے ٹھنڈے فرش پہ بیٹھے ہوئے اس سارے جشن سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔شہتوت ،خوبانی ،انجیر ،اخروٹ اور سیب کے بھرے بھرے پیڑ ،حسنِ منظر میں مزید رنگ بھر رہے تھے۔ساتھ ہی ان کے گھنے سائے تماشہ بینوں کو راحت بخش رہے تھے۔

اس وقت وہاں میلے کا سا سماں تھا۔گلگت بھر سے نوجوان آئے ہوئے تھے۔بہت سے غیر مقامی سیاح بھی دکھائی دے رہے تھے۔غذر کے لوگ تو ویسے بھی ساز و آواز اور رقص و سرود کے دلدادہ ہیں ۔اکثر غذر کے ہی نوجوان نظر آرہے تھے۔سٹیج بھی انہوں نے ہی سنبھال رکھا تھا۔سٹیج پہ اس وقت موسیقی کے روایتی ساز سامنے دھرے، فنکاربیٹھے ہوئے تھے۔جابر خان جابر بانسری ہونٹوں سے چھو کر جادو جگانے کو تیار تھا۔ستار،پیانو اور ڈڈنگ ڈھامل کے فنکار بھی سا ز جوڑے اشارے کے منتظر تھے۔سٹیج کے نیچے ایک طرف ’’شئیلی پُھنٗر ‘‘ کا گلوکار شیر خان نگری کرسی پہ بیٹھا ہوا تھا۔

جی بی فوکس کے نام سے ایک ادبی اور ثقافتی تنظیم اسلام آباد میں قائم ہے۔ اس تنظیم کو چلانے والوں کا تعلق بنیادی طور پر ضلع غذر سے ہی ہے۔شنا زبان اور موسیقی کے لیے ان کی کوششیں قابل قدر ہیں ۔ ’’شئیلی پُھنَر ‘‘کے اجرا کی مناسبت سے یہ موج میلہ بھی اسی تنظیم کا کارنامہ تھا۔

اس پروگرام میں ڈپٹی سپیکر جعفراللہ خان صاحب ،وزیر تعمیرات ڈاکٹر اقبال صاحب ،ممبر قانون ساز اسمبلی نواز خان ناجی صاحب جیسے سیاسی رہنما بھی شریک تھے۔جابر خان جابر ،سلمان پارس ،شیر خان نگری ،چترال کے منصور شباب اور رحمت علی جیسے مقبول شاعر و گلوکاربھی اپنے فن کا جوہر دکھانے کو تیار بیٹھے تھے۔ان کے علاوہ ہر طرح کے ،ہر شعبے کے لوگ تھے۔سب کے چہرے جوش اور مسرت سے تمتما رہے تھے۔عید کے بعد اس تقریب کے بہانے ان کے لیے ایک موج میلے کا موقع مل گیا تھا۔

پروگرام کا آغاز ہوا ۔جوش ،مستی اور مسرت میں کئی گُنا اضافہ ہوگیا ۔گلگت کے فنکار،جابر ،پارس اور شیرخان نگری ظفر صاحب کی غزلوں سے ماحول کو گرماتے رہے۔۔چترال کے منصور شباب اور رحمت علی اپنی زبان کے گانوں سے آگ لگاتے رہے۔ہر ہر گانے کا نوجوانوں نے جی بھربھر کے داد دیا۔ گروہ در گروہ آ کر سامنے کھلی جگہ ،گانوں کی دُھن کے ساتھ ناچتے ،اپنے جوش اور جذبے کا اظہار کرتے رہے۔

شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے۔دھوپ اونچے اونچے پہاڑوں پہ چڑھ کر ،اب سورج کے آنگن میں پھر سے قید ہونے لگی تھی۔یہ رقص و سرود اور بے تحاشا سرور کا موج میلہ ختم ہوگیا۔ہم پھر سے گاڑیوں میں بیٹھ گئے ۔دل پہ اس تقریب کے ناقابلِ فراموش اثرات کے ساتھ گلگت روانہ ہوگئے۔

ظفر تاج صاحب ایک باکمال شنا شاعر ہیں۔ساز اور آواز کی جادو گری میں بھی ان کی شاعری کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔یہ آج کے مقبول ترین شنا شاعر ہیں ۔ان کی مقبولیت کا اندازہ یوں بھی لگا سکتے ہیں کہ آج کے بڑے بڑے گلوکار ،مقبولِ عام ہونے کے لیے ان کی شاعری کو اظہارِ فن کے لیے حاصل کرنا فخر سمجھتے ہیں ۔

ویسے تو شاعر بننا کچھ بھی مشکل نہیں ۔بس اک ذرا خیال اترے ،لفظ جوڑنے کا ڈھنگ آئے ۔یوں ایک شعر کیا ،پوری غزل بن جاتی ہے ۔۔۔اور ایسے شاعر آپ کو یہاں وہاں بکھرے نظر آئیں گے۔کوئی زیادہ مقبول اور کوئی کم۔بہت سے ایسے جو ہجومِ شعرا میں گُم ۔۔۔

بہت مشکل ہوتا ہے خود کو ہجوم سے نکال کر انفرادیت قائم کرنا ۔اور یہی کمالِ فن ہے ۔یہ خال خال ہیں مگر ان کی کال نہیں ۔ایسے باکمال لوگ موجود ہیں ۔

ظفر تاج بھی ان میں شمار ہوتے ہیں ۔موسیقی کے سُروں میں ان کے الفاظ کانوں سے ٹکراتے ہی نہیں ،اندر اتر کر دل کی دیواروں پہ ٹھک ٹھک دستک بھی دیتے ہیں ۔اور یہی انفرادیت انہیں ہجوم سے الگ کرتی ہے۔ظفر صاحب نے شنا موسیقی کا ذوق رکھنے والوں کو ایک منفرد ،مگر اپنا اپنا سا ذائقہ دیا ہے۔اور لگتا ہے کہ ایک طویل عرصہ اس ذائقے کی سحرکاری جاری رہے گی۔

ایک آخری بات۔۔۔!

یوں سمجھیں یہ بات د ل سے نکل رہی ہے کہ ظفر تاج اور ان جیسے دوسرے شنا شعرا کا کلام محض کسی گلوکار کی زبان سے ہی سننے کی توفیق نہ ہو۔بلکہ کتابی شکل میں ،ان کی شاعری کسی کی تنہائیوں میں خود ہی گُنگنائے۔کسی کے تکیے کے نیچے ،دھڑکتے دل کے ساتھ یہ بھی سرگوشیاں کرے۔کسی دریا کنارے کی ٹھنڈک بھری چھاؤں میں ،لہروں کی جل ترنگ کے ساتھ ،ان کی کتابیں بھی نغمہ ریز ہوں۔۔۔۔!!!

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button