کالمز

۱۳جولائی یوم شہدائے کشمیر اور برہان وانی ۔ایک استعارہ 

سید عبدالوحید شاہ (پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس)

۱۳ جولائی ۱۹۳۱ کو ایک آذان کی تکمیل کی خاطر ۲۲ کشمیری مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے حاکم وقت اور اس کی نام نہاد عدالت کے سامنے یہ ثابت کر دیاکہ

یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

قبل ازیں جموں کشمیر میں قابض ڈوگرہ حکومت کے پولیس اہلکاروں کی طرف سے قرآن حکیم کی بے حرمتی کے دو واقعات رونما ہو چکے تھے اور عوام الناس ان واقعات کے خلاف سراپا احتجاج تھی ۔ انہی سلسلہء احتجاج کے دوران ایک نوجوان عبدالقادر نامی نے ڈوگرہ حکمران کے محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کو اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا کہا ۔ نوجوان پر غداری کا مقدمہ چلا اور دوران سماعت لوگ عدالت کے احاطہ میں براہ راست کارروائی دیکھنے کی غرض سے مجتمع تھے جب آذان کا وقت ہو چلا تو ایک کشمیری نوجوان نے اٹھ کر آذان دینی شروع کی تو ڈوگرہ گورنر نے اسے موقع پر شہید کروا ڈالا ۔مگر یہ سلسلہ کہاں تھمنے والا تھا ۔ یکے بعد دیگرے ۲۲کشمیری مسلمان قربان گاہ کی طرف بڑھتے رہے اور اپنا نام تاریخ میں رقم کرتے رہے ۔ اور منظر قرآنی کے مصداق فمنھم من قضیٰ نحبہ‘ و منھم من ینتظر کی تفسیر پیش کی ۔

کمر باندھے ہوئے یہاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

تاریخی واقعہ کتابوں کی زینت بنا ،لوگوں کے دل و دماغ میں پیوست ہو گیا ، ہر موٗرخ جب بھی تاریخ کشمیر پر قلم اٹھائے گا تو اس دلدوز واقعہ کو ضرور کریدے گا ، اس کے اسباب لکھے گا اس کے اثرات پر روشنی ڈالے گا ، اس کے مضمرات کی تلاش میں اسپ تخیل کو روانی دے گا ۔مگر عین ممکن ہے کہ وہ اس کے دوسرے جنم اور بارہا جنم کو شاید نگاہ بصیرت سے نہ دیکھ پائے ۔کون تخمینہ لگا سکتا تھا کہ یہ پر جوش خون اس قوم کی رگوں میں صدیوں کے جبر و استبداد کے بعد مزید گرم و سرگرم رہے گا ۔ تا وقتیکہ یہ ۲۲ نوجوانوں کا جذبہ ایک ۲۲ سالہ نوجوان کا روپ دھار کر تاریخ میں نوجوان سپہ سالار برھان وانی کی صورت میں ہمیشہ کے لئے اس مشعل کی لو کو مزید روشنی دے ۔ ۸۵ سال قبل ہونے والا واقعہ بھی اسی ماہ جولائی میں ہوتا ہے اور چند دن کے فرق سے تاریخ پھر سے اپنے آپ کو دوہراتی ہے اور یہ قوم اپنی گردن سے طوق غلامی اتار پھینکنے کئے لئے برھان وانی کو ایک استعارہ کے طور پر لیتی ہے اور سینکڑوں نوجوان اس کی راہ پر چل کر علم آزادی اور بغاوت بلند کرتے ہیں ۔

۱۳ جولائی کا واقعہ چونکہ پاکستان و بھارت کی آزادی سے قبل کا ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانان کشمیر کے اندر ڈوگرہ حکومت کے خلاف جو لاوا پک رہا تھا وہ شدت اختیار کر چکا تھا اور کشمیر کے وہ نوجوان جو ریاست سے باہر مختلف تعلیمی اداروں ، جن میں علی گڑھ اور پنجاب کے ادارے شامل تھے ، سے اعلیٰ تعلیم اور شعور حاصل کر کے واپس ریاست پہنچے تو انہوں نے کشمیری مسلمانوں کی حالت زار کو بدلنے اور ان کے حقوق کی خاطر لڑنے کے لئے مختلف تنظیموں کی بنیاد ڈالی اور رفتہ رفتہ پڑھے لکھے لوگوں کی یہ مختصر سی جماعت اس قابل ہوئی کہ پنجاب سے علامہ اقبال ، فیض احمد فیض ، محمد دین فوق اور ان جیسے دیگر مشاہیر کی توجہ ریاست اور اس کے مستقل حل کی طرف دلا سکیں ۔چنانچہ یہ تحریک نظریاتی دائرے کی وسعت کو پھیلاتے ہوئے بالآخر ۱۹۴۷ ؁میں بعض علاقوں میں باقاعدہ مسلح اور عملی جدوجہد کی صورت میں وقوع پذیر ہوئی اور ان علاقوں میں موجودہ گلگت بلتستان ، پونچھ ، اور موجودہ آزادکشمیر کے وہ علاقے شامل ہیں جو آج ایک آزاد حیثیت سے اپنی شناخت اور وجود رکھتے ہیں ۔ڈوگرہ ظلم و بربریت اور زبردستی قبضہ کے خلاف آواز بلند کرنے والے مجاہدین کی قربانیوں سے تاریخ روشن ہے اور کون ان شہداء کی قربانی کو بھلا سکتا ہے جن کی زندہ کھال اتاری گئی مگر وہ ڈوگرہ حکومت سے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہے ۔ تاریخ کے یہ اسباق موجودہ ہندوستانی غیرجمہوری و غیر آئینی قابضین کے لئے واضح وعید اور پیغام ہے کہ اس دھرتی کے سپوت اپنی مٹی سے وفا کا بھرم رکھنا جانتے ہیں اور ہمیشہ سے ان کٹھ پتلی حکومتوں کو رد کرتے آئے ہیں جو حکومتی آلہ کار بن کر کشمیری اکثریتی رائے پر اپنی پسند اور پالیسیاں عائد کرنا چاہتے ہیں ۔

تاریخ کے اس موڑ پر ہمیں بہر حال اس امر کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ موجودہ ریاست آزاد کشمیر تحریک آزادی کے لئے بیس کیمپ ہے اور اس کی ہمہ وقت یہ کوشش و سعی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی انصاف کے اداروں اور اقوام متحدہ کے سامنے بھرپور انداز سے اجاگر کرے اور انسانی المیہ کا جلد از جلد تدارک کروائے ۔سید صلاح الدین صاحب کا جس شایان شان انداز سے استقبال کیا گیا اور امریکی و عالمی دھمکیوں کے باوجود وزیراعظم آزاد کشمیر نے ان کی بھرپور اور پر جوش پذیرائی کی ،یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بیس کیمپ اپنا مورچہ مضبوطی سے سنبھالے ہوئے ہے اور کسی بھی قسم کی حمایت سے دستبردار ی کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔

مودی کی موجودہ عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف ایکتا کرنے کی سفارتی کارروائیاں تیز کرنے کے پس پردہ محرکات میں سے ایک بڑا محرک کشمیر وادی میں ابھرتی ہوئی تحریک آزادی و بیزاری سے عالمی توجہ ہٹانا ہے اور امرناتھ یاتریوں پر معمولی سے حملہ کو اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کرنا بھارت کی بوکھلاہٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔گذشتہ روز ہی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جائزہ رپورٹ نے نام نہاد جمہوری ریاست کا بھیانک چہرہ عالمی سطح پر بے نقاب کر ڈالا ہے ،جس میں باقاعدہ اس بات کی تصدیق کی گئی کہ کشمیر میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ہوا جو کہ عالمی قوانین کے سخت برخلاف اور منافی ہے ۔

۱۳ جولائی کا یہ دن ہمیں اس عہد وفا کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ جس کی تکمیل کی خاطر نوجوانان کشمیر آج تک اپنا خون بہا اور جوانیاں لٹا رہے ہیں ۔ ایک آذان کی تکمیل ، ایک مشن کی کامیابی ، ایک عزم کا اعادہ ، ایک نظریہ پاکستان کی حمائت یا دوسرے الفاظ میں پاکستان کی شہ رگ کی حفاظت وسرخروئی اس وقت تک تشنہء رہے گی جب تک کہ ہم شہداء کے اس مشن کو اپنی اخلاقی و سفارتی حمائت سے اس منزل مقصود تک نہیں پہنچاتے کہ جس کی خاطر وہ اپنا تن من دھن وار چلے ۔

شہید تم سے یہ کہہ رہے ہیں لہو ہمارا بھلا نہ دینا
قسم ہے تم کو اے سرفروشو عدو ہمارا بھلا نہ دینا

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button