کالمز

زرعی تحقیق کے مراکز 

زرعی تحقیق کے تین مراکز کو 1990 ؁ ء میں انگر یز ی زبان میں ایگر یکلچر ریسرچ سٹیشن کا نام دیا گیا۔ زمین خرید ی گئی۔ عالیشان عمارتیں تعمیر کروائی گئیں۔ بہترین مشینری دید ی گئی۔ ریسر چ کا جملہ سامان مہیا کیا گیا۔ زرعی تحقیق کو چلانے کے لئے تمام لوازمات فراہم کئے گئے۔

1990 اور 1996 کے درمیانی عرصے میں زرعی تحقیق کے مراکز نے کام شروع کیا۔ 1997 میں پراجیکٹ بند ہوا ریسر چ سٹیشن محکمہ زراعت اور زرعی یونیورسٹی کی نگرانی میں دید یے گئے۔ چارسالوں میں پھلوں اور سبزیوں کے ساتھ اناج کے جد ید اقسام پر بھی کام ہوا تھا ، 38 اقسام کے جد ید بیجوں پر کا میاب تجر بے کئے گئے تھے اگلے 5 سالوں میں مزید 40 اقسام کے بیجوں پر کام ہونیوالا تھا 1999 میں کام روک دیا گیا۔

گذشتہ 18 سالوں سے مشینر ی گل سڑ کر برباد ہو نے کے قریب ہے۔ نہ محکمہ زراعت زرعی تحقیق کے ان مراکز پر توجہ دیتی ہے نہ زرعی یو نیورسٹی نے ان پر توجہ دی ہے۔ لا وارث ریسر چ سٹیشن اپنی موت آپ مررہے ہیں۔

اس افسانوی تمہید کے بعد قاری سوچتا ہے کہ زرعی تحقیق کے ایسے لاوارث مراکز کہاں پر ہیں ؟

یہ خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے ضلع چتر ال کی کہانی ہے، جہاں گندم کا قدیم ترین بیج دریافت ہوا ہے، جہاں پھلوں اور سبزیوں کے 67 ایسی اقسام پائی جاتی ہیں جو کسی اور جگہ دستیاب نہیں۔ علم نبا تات کی اصطلا ح میں ان کو انیڈیمک (Endemic) کہا جاتا ہے۔ نا شپاتی کی قسم ’’ شوغوری‘‘ ان میں سے ایک ہے۔

اس ماہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کو زرعی تحقیق کے مراکز کی زبوں خالی کا علم ہوا تو انہوں نے یونیورسٹی آف چترال کے شعبہ نباتات کے ساتھ منسلک کر کے تینوں زرعی تحقیقی مراکز کو مناسب فنڈ اور سر پر ستی دے کر 18 سال کے بعد دوبارہ فعال کرنے کا حکم دیا۔مگر محکمہ زراعت اور زرعی یو نیورسٹی نے وزیر اعلیٰ کا حکم ماننے کی جگہ ’’ اگرمگر ‘‘ کی مدد سے ملکیت کی پرانی بحث چھیڑ ی ہے ۔ عبد الولی خان یو نیورسٹی کے اثاثے وزیراعلیٰ کے حکم پر چترال یونیورسٹی کو منتقل ہوئے ، شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کے اثاثے وزیراعلیٰ کے حکم پر چترال یونیورسٹی کو دید یے گئے دونوں فعال حالت میں تھے جبکہ مذکو زرعی ریسرچ سٹیشن غیر فعال ہیں۔ کوئی والی وارث نہیں ہے فنڈنگ کا انتظام نہیں ہے نگر انی کا بند و بست نہیں ہے قیمتی مشینری بربار ہورہی ہے اور یہ مشینر ی کہاں سے آئی ہے ؟ اٹلی کے قدیم شہر روم (Rome) کا نا م سب نے سُنا ہے ہماری لوک روایات اور لوک شاعری میں بھی روم کا ذکر آتا ہے۔ روم میں انٹر نیشنل فنڈ فار ایگر یکلچر ڈیو لپمنٹ (IFAD)کا ہیڈ کوارٹر ہے، IFAD کے ساتھ جنرل فضل حق کے دور میں صوبائی حکومت کی بات چیت ہوئی۔ پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر میاں نورالاسلام نے اپنی ٹیم کو لیکر چترال کا سروے کیا،پراجیکٹ کی دستاویز تیار کر کے روم بھیجی پراجیکٹ منظور ہوا پیسہ آیا اور چترال میں 8 سالوں کے اندر بڑا کام ہوا۔ چترال بونی روڈ، گرلز ڈگری کالج کی شاندار عمارت اور زرعی تحقیق کے تین بڑے مراکز اُس پراجیکٹ کی یاد گار ہیں۔ ڈاکٹر اے کیو خان اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے چترال کا خاموش دورہ کر کے اس ریسرچ سٹیشن میں قیام کیا ہے ان کو چترال میں اعلیٰ کوالٹی کا یو رینیم ملا تھا۔

1999 کے بعد زرعی تحقیقی کے ان مراکز کو لا وارث قرار دے کر غیر فعال نہ کیا جاتا تو اب تک تر ناب فارم کی طرح کئی نئے زرعی اخباس ، پھلوں اور سبزیوں کی نئی اقسام پر کام ہوچکا ہوتا۔ یادش بخیر ، سابق صدر جنرل مشرف بار بار یہ جملہ دہر اتے تھے کہ ’’ پالیسی کا تسلسل ضروری ہے ‘‘۔

اب صورت حال یہ ہے کہ محکمہ زراعت کے پاس تحقیقی مراکز کو چلانے کی استعداد نہیں ہے 1960 کے عشرے میں سیبوں کی نئی اقسام پرکام ہوا تھا اس کے بعد وہ کام بھی بند ہوا IFAD نے انگور کی نئی اقسام متعارف کرایا تھا وہ سلسلہ 1999 میں بند کر دیا گیا وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی طر ف سے زرعی تحقیق کے مراکز کو چترال یونیورسٹی کی تحویل میں دینے کا حکم حالات کے تقاضوں کے عین مطابق ہے مگر Writ کا تھوڑا سا مسئلہ ہے بیوروکریسی کے بعض کل پر زے سیاسی قیادت کو اختیار دینے یا صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کا اختیار تسلیم کر نے پر امادہ نہیں سول سکرٹریٹ پشاور میں حالات اور واقعات پر نظر رکھنے والے ممبر ان اسمبلی کا کہنا ہے کہ ہر روز وزیراعلیٰ کے احکامات پر الٹے سید ھے ، اوٹ پٹانگ نوٹ چڑ ھا کر واپس بھیجا جاتا ہے کہ یہ قابل عمل نہیں حالانکہ وزیراعلیٰ کا حکم سو فیصد قابل عمل ہوتا ہے اکرم خان درانی اور امیر حیدر خان ہوتی کے ادوار میں ایسا نہیں ہوتا تھا صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کا حکم مِن وعَن مان لیا جاتا تھا!

وزیر اعلیٰ کے پاس ایک آپشن یہ ہے کہ انسپکشن ٹیم چترال بھیج کر تینوں ریسرچ سٹیشنوں کی ز بوں حالی کا جائز ہ لے لیں اور زرعی تحقیقی کے تینوں ادارے یو نیورسٹی آف چترال کی تحویل میں دے کر ان کو اگلے دوسالوں میں ایک بار پھر 1997 اور 1998 کی طرح فعال بنائیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button