کالمز

لواری ٹنل ایک سر بستہ راز 

لواری ٹنل کا با ضابطہ افتتاح ہوا مسافروں کو ٹنل سے سفر کرنے کی اجازت کا باقاعدہ شیڈول دیدیا ابھی شاید چند مہینوں کا کام ٹنل کے اندر اور چند سالوں کا کام اپروچ روڈ کے 30 کلو میٹر سیکشن پر باقی ہے جب تک اپروچ روڈ کی تعمیر مکمل نہ ہو تب تک لواری ٹنل کا ادھا فائدہ ہی ملے گا پورا فائدہ نہیں ملے گا جنرل مشرف نے 2005 ء میں ٹنل سے پہلے اپروچ روڈ پر کام شروع کروایا تھا این ایچ اے حکام نے کام بند کردیا پھر منصوبہ سالانہ ترقیاتی پروگرام سے نکال دیا گیا اب اپروچ روڈ پر کام شروع ہو چکا ہے انگریز ی میں ا یک مقولہ ہے جس کا اردو ترجمہ کر کے کہا جاتا ہے ’’ناکامی یتیمی ہوتی ہے جب کہ کامیابی کو ہر کوئی گود لے لیتا ہے ‘‘لواری ٹنل کے دعویداروں کی جو لمبی فہرست سامنے آئی ہے اس میں اصل کر دار وں کا ذکر بہت کم ہوتا ہے بھٹو کو لواری ٹنل کا خیال کیسے آیا ؟1967 میں بھٹو پشاور آئے تو بازار قصہ خوانی میں چترال کے تاجروں نے ان کے لئے خیر مقدمی دروازہ لگایا کیمپ قائم کیا حاجی نادر خان مرحوم ،حاجی سیدا للہ مرحوم ،حاجی میر اجمل بلبل مرحوم اور مولانا حسن ولی مرحوم نے غلام سید علی مرحوم سے انگریزی میں سپاسنامہ لکھوایا اور لواری ٹنل کا واحد مسئلہ پیش کیا بھٹو نے اپنی اہلیہ بیگم نصر ت بھٹو ،بیٹی بے نظیر بھٹو اور بیٹے مرتضیٰ بھٹو کو حیات محمد خان شیر پاؤ کے ہمر اہ چترال کے دورے پر بھیجا چترال سے جو فیڈ بیک گیا اس میں لواری ٹنل واحد مسئلہ تھا ممتاز صحافی جہانگیر جگر نے 1968 ء میں اپنی نظم میں اس کا ذکر کیا ہے یہ لوگ لواری ٹنل کے گمنام سپاہی اور بے نام ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں اتالیق جعفر علی شاہ ،مولانا عبد الاکبر چترالی اور دیگر لیڈروں کا ذکر بار بار آتا ہے ان بے نام ہیروز کا ذکر نہیں ہوتا چند بے نام ہیروز اور بھی ہیں پاک فوج کے منصوبے میں لواری ٹنل 1969 ء سے موجودہ تھی میجر جنرل اشتیاق احمد گل نے اگست /ستمبر 1969ء میں چترال کا تفصیلی دورہ کر کے مہمانوں کی کتاب میں لکھا ’’اللہ پا ک ہمیں لواری ٹنل کو مکمل کرنے کی توفیق دے ‘‘جنرل مشرف نے چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے جون 1998 ء میں چترال کا دورہ کیا اور اپنے ایس ایس جی کمانڈوز میں سے ریٹائرڈ فوجیوں کو ملاقات کیلئے بلایا صوبیدار پرودوم ولی خان ،حوالدار میجر عبدالرحمان اور سلطان روم نے ان سے ملاقات کی ،چراٹ اور مشرقی پاکستان میں بیتے دنوں کو یا د کر نے کے بعد پوچھا کوئی خدمت ؟کمانڈوز نے کہا لواری ٹنل اور کمیشن افیسروں میں قبائلی علاقوں کی طرح چترال کا کوٹہ ،جنرل مشرف نے کہا کوٹہ نہیں ہوتا میرٹ ہوتا ہے جوانوں کو نوشہرہ بھیجو ان کو فوجی زندگی سے آگاہی ہوگی اور میرٹ پر آجائینگی لواری ٹنل مشکل نہیں تم اس ٹنل سے سفر کروگے تو مجھے ضرور یاد کرو گے 12اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو دو ماہ کے اندر اُس وقت کے وزیر مواصلات لفٹننٹ جنرل افتخار حسین شاہ کو سب سے پہلے لواری ٹنل کا ٹاسک دیا دسمبر 1999 ء میں کبینٹ سکر ٹری معصومہ حسن کو انجینئروں کی ایک ٹیم کے ساتھ دیر اور چترال کے خصوصی مشن پر بھیجا معصومہ حسن کی رپورٹ کی رشنی میں فیز یبلیٹی سٹڈی شروع ہوئی آج معصومہ حسن کا نام کوئی نہیں لیتا اس خاتون نے دسمبر کی سر دی میں یخ برفانی ہواؤں کا مقابلہ کر کے لواری ٹنل کا ابتدائی خاکہ تیار کیا اور فالو آ پ دیکر فیز یبلیٹی تیار کروائی لفٹننٹ جنرل افتخار حسین شاہ نے اسفالٹ سڑک اور ریلوے ٹریک کے دو متبادل آپشن تجویز کروائے ماہرین نے لاگت کو کم کرنے کیلئے اور دم گھٹنے کے خطرے سے بچنے کیلئے ریلوے ٹریک کو ترجیح دی بھٹو دور کا ٹنل سوا پانچ کلومیٹر تھا مشرف نے جو سروے کروایا وہ 11 کلومیٹر لمبے ٹنل کا تھا 9 کلومیٹر ٹنل کے بعد 2 کلومیٹر چھوٹا ٹنل اس کے بعد براڈم کے مقام پر سڑک آتی ہے فیز یبلیٹی 2002 ء میں آگئی کو ہاٹ ٹنل کے ساتھ ہی این ایچ اے ہیڈ کوارٹر کی دیوار پر لواری ٹنل اور ریلوے ٹریک کی قدآدم تصویر لگائی گئی 2004ء میں کوہاٹ ٹنل کی تکمیل ہوئی 2005 ء میں لواری ٹنل پر کام کا آغاز ہوا انجینئر عبدا لصمد خان اس کے پہلے پروجیکٹ ڈائریکٹر مقر ر ہوئے یہ سچ ہے کہ ناکامی یتم ہوتی ہے کامیابی کو ہر کوئی گود لے لیتا ہے

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک دیرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ابھی رہبرکو میں

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button