کالمز

آزاد امید وار: قومی و صوبائی نشستوں کے لیے وقت کی اہم ضرورت !

کسی بھی معاشرے میں انصاف ،برابری اور مساوات کو برقرار رکھنے کے لیے ایک ایسی قوت کا ہونا لازمی ہے جوکہ معاشرے اور اس سے وابستہ افراد کے مفادات کاخیا ل رکھے اور دوطرفہ توازن کوپرکھے،اور درپیش مسائل کو تشدد کی راہ سے دور رہتے ہوئے حکمت و مصلحت سکے تحت حل کرے۔ کسی بھی معاشرے اور سوسائیٹی میں ایسے باضمیر افراد کی کمی نہیں جو عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھائے اورکسی بھی ناخوشگوار اور ناپسندیدہ کام کی روکھتام میں سرگرم عمل نہ ہوں۔

ہم جب معاشرے میں ان قوتوں کا جائزہ لیتے ہیں تو دو طرح کی تنظیمیں یا جماعیتیں ہمیں نظر آتی ہیں۔ایک وہ جو اپنی مدد آپ کے تحت ایک فلاحی سماجی تنظیم کی بنیاد رکھتے ہیں جن کو ہم سماجی کارکن کہتے ہیں۔ دوسری وہ جن کو ہم خود ہی مسند اقتدار تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیںیعنی کہ سیاسی قائدین۔جن کو عوام اور خواص کے نام سے پہچانا جاتا ہے ان دو تنظیموں کے حوالے سے یہ بات مشاہدے میں آئی ہے اوریہ کوئی دھکی چھپی بات بھی نہیں کہ ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

چترال ٹاؤن ضلع چترال کا دارالخلافہ ہے ۔چترال ٹاؤن کی آبادی کل ملا کر27 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔چترال ٹاؤن میں ضلعی انتظامیہ کی مرکزی دفاتر واقع ہیں۔ڈسٹرکٹ ہسپتال،ڈسٹرکٹ ایڈمینسٹریشن آفس،عدلیہ ،محکمہء تعلیم ضلع چترال،چترال اسکاؤٹس ہیڈکوارٹروغیرہ سبھی ٹاؤن کے حدود میں واقع ہیں۔اگر دیکھا جائے تو زیادہ تر بالائی چترال کے افراد کا گزر بسرچترال ٹاؤن میں ہوتا ہے۔بالائی چترال کے عوام روز مرہ اشیائے خوردونوش کے خریدو فروخت کے لیے اور اکثریت علاچ معالجے کے لیے ڈسٹرکٹ ہسپتال چترال کا رخ کرتے ہیں ۔اور اسی طرح چترال اسکاؤٹس میں اکثرسپاہوں کا تعلق بھی بالائی چترال سے ہے۔خواہ چترال ٹاؤن کے عوام ہوں کہ بالائی چترال کے عوام سبھی کو ٹاؤن حقوق کے لیے آوازاٹھانا چاہیے کیونکہ ٹاؤن کی ترقی میں ہی ہم سب کی بقا ہے ۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ براہ راست بالائی چترال کا اثر چترال شہر اور ٹاؤن پر ہورہا ہے اور جس کے رد عمل میں دو ضلعوں کی زور پکڑتی تحریک بھی شامل ہے۔حالیہ واقعات میں سے ایک واقعہ ضلع چترال کو دو ضلعوں میں تقسیم کرنے کا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ہم سب کو مل کر چترال ٹاؤن کو خوشحال اور آباد کرنا ہوگا کیونکہ جب تک چترال ٹاؤن آباد ہوگا ہم بھی آباد ہونگے ۔

سماجی و فلاحی تنظیموں کے مقابلے میں سیاسی پارٹیوں اور ان سے وابستہ افراد کی حقیقت سے پردہ اس وقت اٹھا جب ہم نے چترال ٹاؤن کو بجلی کی عدم فراہمی پردونوں طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے افعال و کردار کا قدرے غور سے مشاہدہ کیا ۔ ان مشکل اور ناگفتہ بہہ حالات میں ہم نے دیکھا کہ جن کو ہم نے ووٹ دیکر کامیاب کیا تو ان کا دور دور تک کوئی نام و نشان تک نہیں تھا۔ اس مشکل اور صبر آزما موقعے پر عوام نے چیخ چیخ کر عوامی نمائندوں کو پکارا مگر کسی نے بھی کان نہیں دھرا۔ا س سنگین صورت حال میں سماجی کارکنوں نے ہی عوام کی جانب رجوع کیا اور ان کے حقوق کے لیے بھر پور آواز اٹھائی ۔جبکہ ہمارے سیاسی قائدین کا دور دور تک پتہ نہ چلا دوربین سے بھی ہمیں دیکھائی نہیں دئیے ۔اس ایک واقعے سے ہی بات واضح ہوجاتی ہے کہ واقعی میں ان دونوں طبقات سے تعلق رکھنے والوں افراد میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔

ٹاؤن پاور کمیٹی خالصتا عوامی مفاد میں تشکیل شدہ فلاحی اور سماجی تنظیم ہے جو کہ چترال ٹاؤن اور ٹاؤن کے گردونواح کے حقوق کے لیے ہر فورم اورہر سطح پر آواز اٹھاتی آئی ہے۔خاص کر ٹاؤن کو بجلی کی فراہمی کے لیے جتنی بھی کوششیں اور جد و جہد اس تنظیم نے کی ہے اتنی کسی بھی تنظیم اور پارٹی کو توفیق نہیں ہوئی۔جس کے مد مقابل سیاسی نمائندے جو کہ عوام کے ووٹ کی طاقت سے جگہ اور مقام بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں ٹاؤن پاور کمیٹی کے مقابلے میں عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں اور عوام کو مایوس کردیاہے۔یہ سیاسی نمائندے اپنی اپنی دوکان چمکانے میں لگے ہوئے ہیں۔اپنے لیے اور اپنے اولاد کے مستقبل کے لیے عوام کا خون چوس رہے ہیں قومی دولت خوب لوٹ رہے ہیں۔

بہر حال اصل موضوع کی جانب آتے ہیں ہم اب آتے ہیں ۔آج تک ہم نے انتخابات میں سیاسی پارٹیوں سے منسلک افراد کو کامیاب کرتے آئے ہیں چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے ہی کیوں نہ ہو ۔ مگر کیاہم نے سوچا ہے کہ ہماری ایک و و ٹ کیا قدر قیمت رکھتی ہے؟ اگر ہم اپنے ایک ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں تو اس کے حیران کن نتائج آسکتے ہیں مثال کے طور پر اگر ہم اپنا حق رائے دہی کسی سیاسی پا رٹی سے منسلک ایک شخص کے بجائے ایک آزاد امید وار جو کہ معاشرتی سطح پرسماجی و فلاحی کار کن ہو اور اس کے خدمات کی سبھی معترف ہوں وو ٹ دے کر کامیاب بنائیں تویہ سماجی کارکن ایک سیاسی ورکر سے سو گنا بہتر کا م کر سکتا ہے ۔

اب تک ہم نے کئی سیاسی پارٹیوں سے وابستہ افراد کو ووٹ دیا ہے اور جنہں ہم سو با ر آ زما بھی چکیں ہیں کیا اس با ر یہ ممکن نہیں کہ ہم صو با ئی اسمبلی 89,90 اور قومی اسمبلی32 کی نشستوں کے لیے آزاد امیدواروں میدان میں اتاریں اور ٹاؤن کے 27ہزار عوام بھاری اکثریتی وو ٹو ں سے انہیں کا میاب کریں ۔

میر ی یہ دلی خواہش ہے کہ ٹا ون پاور کمیٹی سے وابستہ جیتنے بھی افراد ہیں چاہے وہ جس پارٹی سے وابستہ بھی کیوں نہ ہوں فلفور اپنے اپنے پارٹیوں سے استفاء دیں ۔ اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے انتخاب لڑیں ۔ میں پا ور کمیٹی کے صدر جناب خان حیات اللہ خان سے اور نائب صدر جناب ایڈوکیٹ محمد کوثر اور دسٹرکٹ بار کے صدر جناب ایڈوکیٹ ساجد اللہ صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے متعلقہ پارٹیوں سے استفاء لیں اور ٹاؤن کے مظلوم عوام کے حقوق کے لیے ایک نئی تحریک کا آغاز کریں۔ جس طرح ٹاؤن پاور کمیٹی نے 16جو لائی کی صبح چترال ٹاون میں بجلی کی بحالی کیلئے آواز ٹھایا تھا کہ جو کہ رنگ لائی ٹھیک اسی طرح ایک بار پھر سے ایک تازہ اور جاندار تحریک کی بیناد رکھی جائے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button