کالمز

باسٹھ تریسٹھ اور چارسوبیسی 

آئین اور ایوان صرف اس شخص کو قبول کرتا ہے جسے رائے عامہ مد مقابل سے سادہ سے سادہ اکثریت فراہم کرے۔ انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ جس اکثریت سے وہ منتخب ہوا ہے وہ اکثریت صادقین کی تھی یا نہیں۔ اسی لئے کسی بھی معاشرے میں لوگوں کی اکثریت صادقین کی ہو یا کاذبین کی، حکمران بھی انہی جیسے ہی منتخب ہوتا ہے۔البتہ شعور کا تقاضا ہے کہ منتخب شدہ فرد جس کے ہاتھ میں ریاست کی بھاگ دوڑ رہے گی اسے کم سے کم صادق و امین توہونا چاہیئے۔ باالفاظ دیگر، اکثریتی رائے دہندگان اپنے میں سے منتخب فرد کو نسبتا زیادہ صادق یا امین تصور کرے۔ منطق یہی ہے کہ ایک حلقہ اپنے اندر سے ہر اس فرد کو منتخب کرے گا ، اگر حلقے میں رائے دہندہ گان کی اکثریت خود مختار اور مصلحت پسند نہ ہو ، جو اپنے اندر موجود لوگوں میں سے قدرے زیادہ ، نمائیاں یا ممکنہ صداقت پسند اور امانت دار ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ شخص ممکنہ حدتک صادق یا امین ہو یعنی کم سے کم اس حد تک تو ہو کہ جن منفی پہلوں کا قانون اور آئین نفی کرتا ہے وہ ان سے مبری ہو ۔یہ دلیل ہرگز قابل قبول نہیں کہ کوئی یہ کہے کہ ہمارے ہاں نہ کوئی صادق ہے اور نہ کوئی امین۔ اگر کسی معاشرے کا یہ حال ہے تو اسے اپنے حکمرانوں، عدالتوں اور محافظوں کی بجائے خود اپنے اوپر نوحہ کناں ہونا چاہیئے۔ کیا اگر کوئی بھی صادق اور امین نہیں تو کیا سب کو جیلوں میں بند ہونا چاہیئے ؟۔ نہیں لیکن اگر کسی کے جھوٹ اور بددیانتی سے دوسرے فرد کی عزت وآبرو، مال او ر متاع یا آزادی مجروح یا متاثر ہوجائے تو پھر سب جھوٹے ہیں اور سب خیانت کار ہیں والی دلیل بارآور نہیں ہوسکتی۔ پھر تو براہ راست قانون اور انصا ف کے ادارے حرکت میں آجائیں گے۔ اگر کسی کا صادق اور امین ہونا قانون کا حصہ نہ ہوتا یا باسٹھ تریسٹھ نہ بھی ہوتا تو کیا یہ معاشرہ کسی چور، ڈاکو یا لٹیرے کو اپنا حاکم بناتے؟۔ کیا ملکی اعلیٰ ادارہ انصاف کے زیر انتظام احتساب کے عمل سے کوئی فرد مجرم متصور ہوتا ہے تو کیا معاشرے میں کسی فرد یہ اختیار حاصل رہتا ہے کہ وہ اس کے برعکس رائے رکھے؟ ہاں البتہ انہیں اس فیصلے پر نظر ثانی کرانے، اپنی بے گناہی بہ زور ثبوت و شواہد کے ثابت کرنے کیلئے درخواست دینے کا حق اس ثابت شدہ مجرم کو حاصل ہے۔ لیکن وہ شواہد مشکوک، حقیقت سے متصادم، جعلی یا پھر گمراہ کن مواد پر مبنی نہ ہو۔وگرنہ اس فرد پر جعل سازی اور عدالت کو گمراہ کرنے کا الگ سے جرم بن جائے گا۔ اس مرحلے میں عوام کی اکثریتی رائے بیکار ہے اور ریاست دونوں فریقین اور ان کے طرفداروں کی جانب سے فیصلے کو ماننے، تسلیم کرنے اور اس کا احترام کرنے کا متقاضی ہوتی ہے۔چونکہ قانون صرف شواہد اور حقائق کی روشنی میں فیصلہ صادر کرتا ہے یہاں منصفین کا اپنا کردار ، اپنی رائے اور ذاتی پسند ناپسند فیصلہ سازی کے طریقہ کارپر اثرانداز نہیں ہوتا اورفیصلہ صداقت اور امانتداری سے عبارت ہوتا ہے۔منصفوں کی بجائے یہاں فریقین کے وکلاء اور مختاران کا کردار ہوتا ہے کہ وہ حسب ضرورت اور حتی المقدور سچائی پر مبنی ذرائع سے قانون کی رہنمائی کرنے کی کوشش کریں ۔ حالیہ اعلیٰ عدالتی فیصلے کے تناظر میں وزیر اعظم کی نااہلی ایک سیاسی پارٹی کے کارکن، وزیراعظم کے خاندان ،رشتہ داریا پھر ان کے مفادکاروں کے طور پر کسی کو برا تو لگ سکتا ہے لیکن کسی جمہوریت پسند فرد کو نہیں۔ فریقین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ معاملہ کسی فرد کا نہیں ہے۔ ریاست کے سب سے اہم عوامی عہدے کا ہے۔وزیراعظم کا کردار مجرمانہ نہ سہی مشکوک تو تھا ۔ بات صادق ہونے یا امین ہونے نہ ہونے کی نہ سہی ان کے خاندانی جائیداد میں اضافہ غیر قانونی نہ سہی غیر منطقی اور ناقابل تصدیق حد تک مشکوک پائے گئے۔ خود ان کا خاندان قانونی طور پر اپنی پراپرٹی کے دفاع میں عدالت کو مطمعن نہ کر سکا ۔ جائیداد کا تعلق بچوں سے ہے تو بچوں کا تعلق ایک ملک کے وزیر اعظم سے تو ہے ۔ کسی اور ملک کے شہزادے کا مدعی علیہان کے حق میں دفاعی خط بھی کسی تعلق کی وجہ سے آیا اور وہ تعلق وزیر اعظم کے بچوں کی وجہ سے تو نہیں تھا۔ اب اس معاملے پر بحث کرنا فاضل ججز کی طرف سے مکمل شدہ قانونی کاروائی کے بعد کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لیکن عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیں متاثرہ فریق کی طرف سے اب بھی جاری ہیں۔ اس فیصلے کی چبن محسوس کرنے کا مقصد جمہوری بے بالیدگی اورغیر سنجیدگی ہے۔ چونکہ یہاں جمہوری پارٹیوں کے اندر جمہوریت کا فقدان اور شخصی راج اور خاندانی سیاست ان پارٹیوں کا محور سیاست ہے اس لئے اس فیصلے کاکچھ زیادہ ہی برا مان رہے ہیں۔ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو جمہوری عمل کی تکمیل کو وزیراعظم کی پانچ سالہ مدت تعیناتی سے مراد لیتے ہیں انہیں احتساب کو جمہوری عمل کا حصہ سمجھنے میں شرمندگی محسوس ہوتی ہوگی ۔ جمہوری عمل کا حسن یہی ہے کہ ریاستی قانون کے مطابق ہر کسی کو اختیارات کے استعمال پر مرکوز کیا جائے اور واضح اورعہدہ اور اختیار کے استعمال میں غیر مبہم کردار کو یقینی بنایا جائے ۔وزیراعظم کی قانونی اور آئینی برطرفی بھی جمہوریت کو مضبوط کرنے میں ایک پیش رفت ہے۔ اس طبقے کے لوگوں کو تب مطمعن کیا جاسکتا ہے کہ ان کی سیاسی پارٹی کے اراکین کو برابر حق حاصل ہو ، کسی مخصوص خاندان یا فرد کی برتری کی بجائے میرٹ کی برتری کا رجحان ہوتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ملک میں بار بار مارشل لاء اور آمریت آتی رہی ۔ اس کی بھی بنیادی وجہ رائے دہندگان اور منتخب ارکان کے اندر جمہوری روایات کا فقدان ہے۔ کیا یہ بات عام عوام کے لئے باعث حیرت نہیں کہ ان کے منتخب اراکین اپنے مفاد سے متعلق قانون سازی میں تو حزب اختلاف اور حزب اقتدار ایک صفحے پر ہوتے ہیں اور بلامخالفت منظور کرتے ہیں خاص کر اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ جیسے معاملات، اور تو اور اب تو قومی احتساب بیورو کے خلاف بھی صوبائی سطح پر بل منظور کرچکے ہیں۔ اس سے قبل پارلیمنٹ اور صوبائی ممبربننے کے لئے متعین کردہ گریجویشن کی تعلیمی حد بھی بھاری اکثریت سے مسترد ہوکر قانون سے نکل چکی ہے۔اس کے باوجود قومی اسمبلی میں جعلی تعلیمی اسناد رکھنے والوں کی فہرست میں کمی نہیں آئی۔ ملک مضبوط تب ہوگا جب قانون کی پاسداری اور قانون شکنی کی سزاوں ، قانونی فیصلوں اور اہم عہدیداروں کے خلاف کاروائی پر عدالت اور انصاف فراہم کرنے والے افراد کی حوصلہ افزائی عوام خود متحد ہوکر کریں۔ احتساب جمہوری طرز حکومت کا وہ حسن ہے جسے پسند تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن اپنے اوپر لاگو کرنے سے ہر کوئی کتراتے ہیں۔ یقیناًباسٹھ تریسٹھ پر پورا اترنے والے شخص کے لئے ہی جمہوریت کا یہ حسن گوارا رہے گا۔ عوام سیاسی پارٹیوں کو انا کا مسئلہ بنانے اور اسے کسی پارٹی کی شکست سے تعبیر کرنے کی بجائے اسی پارٹی کے اندر سے مزید فعال، دیانتدار اور اہل کارکن کا تقاضا کرے تاکہ ایک جمہوری روش پروان چڑھے وگرنہ الزام تراشی ، پچھتاوے اور اپنے بنائے ہوئے قانون پر ماتم کرنے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے تناظر میں کسی بھی مرکزی پارٹی کی ہارجیت پر جشن منانا اور افسوس کرنا اس لئے بے معنی ہے کہ یہاں کے سیاست دانوں کی اکثریت موسمی پرندوں کی سی رہی ہے۔ جو مرکز میں برسراقتدار جماعت کا نشان اپنے سینے پر سجاتے رہے ہیں ۔ بصورت دیگر اگر کوئی نظریاتی کارکن موجود بھی ہے تو ان کو مرکز میں برسر اقتدار جماعت کے تناظر میں ہی ووٹ پڑتے رہے ہیں۔ جمہوریت چونکہ تعداد اور عددی حساب کتاب پر گھومتی ہے اس لئے باسٹھ تریسٹھ میں انیس بیس کی گنجائش باقی رکھنی چاہیئے جب رائے دہندگان اس معاملے میں چارسوبیسی کریں گے تو اوپر پہنچ کر انصاف کی پکڑ انہیں نودو گیارہ ہونے پر مجبور کردیں گے۔ اگر فیصلہ آئین اور قانون سے متصادم نہ ہو تو چہروں پر بارہ بجا کر ذاتی انا کا مسئلہ بنائے رکھنے کی بجائے ملک کی تعمیر و ترقی اور جمہوریت کے استحکام کی خاطر عوام دوست، غیر کاروباری اور بے لوث افراد کو موقع دینا چاہیئے مگر اس معاملے میں عوام خود انیس سو سینتالیس سے ہی باسٹھ تریسٹھ کی پرواہ نہیں کرتی رہی ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی الیکشن میں شکست اس ملک میں صادق اور امین حکمرانوں کے انتخاب میں چارسوبیسی کی علامت بن کر رہے گی اور جب تک ریاست دوست افراد کسی بھی عوامی نمائندے کوغیرقانونی افعال و کرداراورعہدہ اور اختیارات کے استعمال میں مشکوک پانے کی صورت میں انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرکے احتساب کا کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور نہیں کریں گے یہاں ریاست کی جمہوری صحت بہتر نہیں ہوگی۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button