کالمز

بلاول کی آمد

چترال اور پاکستان پیپلز پارٹی کا رشتہ بہت گہرا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں سات مرتبہ چترال کا دورہ کیا، دیکھاجائے تو چترال میں تعمیر ہونے والے کم وبیش سارے بڑے ترقیاتی منصوبے بھٹو دور میں شروع کئے گئے۔ لواری ٹنل پر کام کا آغاز ہو یا چترال میں تعلیم، صحت، اور انفراسکٹریکچر کی تعمیر سب بھٹو صاحب کی مرہون منت ہے۔ چترال کو بجلی جیسی نعمت سے روشناس بھی ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے کیا تھا۔ بھٹو صاحب ایک حقیقی عوامی رہنما تھے جو لوگوں سے گھل مل جانے اور عوامی جذبات کو سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے تھے۔ آپ کی چترال سے اس والہانہ محبت کا ثمر کہ اہالیان چترال کی اکثریت بھی بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کے گرویدہ ہوگئے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جو لیڈر چترال کے باسیوں کو عزت و احترام سے یاد کرتے ہیں چترالی کبھی انہیں نہیں بھولتے۔ بھٹو نے چترالیوں کو اچھے ناموں سے یاد کیا لوگ آج بھی بھٹو کا نام ادب واخترام سے لیتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے چترالیوں کو عزت دی چترالیوں کے دل میں بی بی شہید کے لئے قدر ومنزلت کا جذبہ موجود ہے۔ اس کے بعد سابق صدر پاکستان جنرل پروپر مشرف نے چترالیوں کو اچھے القابات سے یاد کیا چترال کے لوگ بھی مشرف کو سر انکھوں پہ بیٹھانے کو بے تاب رہتے ہیں۔ اس کے برعکس میاں نواز شریف نے دو مرتبہ چترالیوں کے لئے توہین امیز الفاظ استعمال کئے تو چترالیوں کے دل میں میاں صاحب کے لئے کوئی اچھے جذبات نہیں۔

بھٹو کی شہادت کے بعد بھی پاکستان پیپلز پارٹی کو چترال سے سپورٹ ملتی رہی۔ انیس سو اٹھاسی کے عام انتخابات میں بیگم نصرت بھٹو صاحبہ چترال سے قومی اسمبلی کی امیدوار بن کے آئی تو چترالیوں نے محترمہ نصرت بھٹو کو چترال کی سیاسی تاریخ کے سب سے بڑے مارجن سے کامیابی دلا کر یہ ثابت کردیا کہ جس طرح بھٹو خاندان نے چترال اور یہاں کے باسیوں کو عزت دی، اسی طرح چترالیوں کے دلوں میں بھی بھٹو خاندان اور پاکستان پیپلز پارٹی زندہ ہے۔ تبھی تو چترال کو منی لاڑکانہ کا نام دیا گیا۔

یہی نہیں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے بھی چترال سے خصوصی ہمدردی تھی اور انہوں نے بھی اپنے دور اقتدار کے دوران کئی مرتبہ چترال کا دورہ کیا۔ دیکھا جائے تو چترال کے طول وعرض میں موجود سارے میگا پراجیکٹ یا تو بھٹو دور کی پیداوار ہے یا پھر محترمہ بی بی کے۔

یہی وجہ ہے کہ چترال میں پاکستان پیپلز پارٹی برسوں سے سب سے بڑی اور مضبوط عوامی قوت کے طور پر موجود ہے۔ گو کہ وقتا فوقتا انتخات میں غیر معروف لوگوں کو ٹکٹ دینے کی وجہ سے ضلع کی سطح پر پارٹی کوئی نمایاں کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں رہی البتہ جب بھی ورکرز کے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھ کر پارٹی ورکروں کو ٹکٹ دی گئی تو کامیابی پاکستان پیپلز پارٹی کا مقدر ٹہری۔ سن دوہزار تیرہ کے انتخابات میں ماسوائے سندھ کے باقی ملک سے تقریبا پاکستان پیپلز پارٹی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تب بھی چترال جیسے دورافتادہ علاقے سے تاریخ میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستین پاکستان پیپلز پارٹی کے حصے میں آئیں۔

دیکھا جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی ہی واحد جماعت ہے جو اسٹبلشمنٹ کو لگام دینے کی پالیسیوں پہ گامزن ہے، آج بھی ملکی سیاست میں سب سے زیادہ روشن خیال اور سیکولر ذہنیت کے حامل افراد کی اکثریت پاکستان پیپلز پارٹی سے وابسطہ ہے، شاید دوسرے نمبر پر عوامی نیشنل پارٹی کا نام آتا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چترال سے گہری وابستگی کو برقرار رکھتے ہوئے چیرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری صاحب نے اپنے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز پاکستان کے اس شمالی ضلع سے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اس سلسلے میں وہ پانچ اگست دوہزار سترہ کو چترال آکرپولو گراونڈ میں عوامی جلسے سے خطاب کرینگے۔ چترال پولو گراونڈ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ چترال کی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی جلسہ اسی گراونڈ میں بلاول کے والدہ محترمہ شہید بے نظیر بھٹو نے کیا تھا۔ اور اب بلاول برسوں بعد اسی گراونڈ میں عوام سے مخاطب ہونگے۔

دیکھنا یہ ہے کہ کیا بلاول اپنے والدہ کے جلسے کا ہم پلہ جلسہ کرنے میں کامیاب ہونگے یا نہیں۔ البتہ یہ بات یقینی ہے کہ چترالیوں کے دلوں میں بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کے لئے جو محبت کا جذبہ موجزن ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پانچ اگست کا دن چترال کے حوالے سے تاریخ ساز دن ثابت ہوگا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button