بلاگز

محسن اقبال ایک پھول تھا

زندگی ایک ناٹک ہے۔ ایک عجوبہ ہے۔ اگر انسان کو آنے والے لمحوں میں سے ایک لمحے کی بھی خبر ہوتی تو انسان یا توخوشی سے مرجاتا یا غم سے نڈھال ہوتا۔زندگی کی یا تو رنگینیاں یکسر ختم ہوتیں یا رنگینیاں رنگ دیکھاتیں۔ زندگی کے مالک نے یہ لمحے چھپا رکھے ہیں۔ اپنی باری پر آئیں گے اور دھوم مچائیں گے۔ بعض لوگوں کی زندگیاں قابل رشک ہوتی ہیں بعض آزمائشوں کا شکار ہو کر زندگی صرف کاٹتے ہیں۔عمر کے سانحے میں وقت بھرتے ہیں اور پھر اپنے اصلی گھر سدھارتے ہیں۔

جو زندگی تھی میری جان تیرے ساتھ گئی

ابھی توعمر کے سانچے میں وقت بھرنا ہے

اقبال مراد ٹھیکہ دار کی شادمانیوں سے بھرپور زندگی تھی۔بال بچے گھر گرہستی، حلقہ احباب ،معاشرے میں مقام،بھرپور خاندان۔۔۔زندگی کی رنگینیاں جو بن پر ،اکلوتا بیٹا، جس کو خدا نے ہرصلاحیت سے بھرپور کیا تھا۔

محسن اقبال ابھی نویں میں پڑھتا تھا۔نرگسی اکھیاں،دمکتا چہرہ،چھریرا بدن ،میٹھے بول،محبت سے بھرپور لہجہ ،میلان طبع، تابعداری پر موقوف، گویا ایک موتی تھا، ایک گوہر آبدار،ایک پھول،  ایک چاند۔ محسن اقبال ،اقبال مراد کا اکلوتا بیٹا تھا۔اس کے ساتھ ساری آرزویں وابستہ تھیں۔زندگی کی حلاوتیں اور مستقبل کی آروزویں وابستہ تھیں۔وہ ایک چہکتا بلبل تھا۔قابل، ذہین بلکہ فطین، فٹ بال کا عظیم کھلاڑی۔۔۔جب انڈر فورٹین ٹرائل ہوا تو سب سے بہترین کھلاڑی ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور قومی ٹیم میں اس کی سلیکشن ہوئی۔قوم کا نام روشن کرنے برازیل جاتا مگر زندگی نے مہلت نہ دی۔

وہ آرمی پبلک سکول کے سارے اساتذہ اور پرنسل کا فیورٹ تھا۔ساتھی اس سے محبت کرتے تھے۔اس کی ادائیں نرالی تھیں۔وہ انٹرنیٹ اور آئی ٹی کا ماہر تھا۔اس میں قوت ارادی اور جراٗت کمال کی تھی۔اس کے ذہن میں کسی کام کے نہ ہونے کا تصور نہیں تھا۔وہ یک گام پر منزل پانے کی آرزو میں رہتا۔

محسن اقبال کی ابھی عمر ہی کیا تھی، مگر وہ ہر جگہ نمایاں تھا۔ اس کے والدین اس کے متسقبل کے خواب دیکھا کرتے۔۔وہ گھر میں معمولی ترشی اور تلخی پر تڑپ اُٹھتا اور چیخ کر کہتا زندگی مسکراہٹوں کا نام ہے،وہ ننھیال اور ددھیال، دونوں میں پیار کرنے والے بچے کے نام سے موسوم تھا۔وہ ہر ایک کے گلے لگ جاتا اور بار بار ایسا کرتا۔اسے پیار کرنے کو دل کرتا تھا۔

محسن اقبال لیجنڈ تھا اور لیجنڈ بنتا جارہا تھا۔

لیکن ۔۔۔۔۔۔۔ زندگی جب موڑ کاٹتی ہے تو بعض اوقات ہر چیز تہس نہس کردیتی ہے۔

6جولائی بروز جمعرات بوقت دوپہر زندگی نے پلٹا کھایا۔ محسن اقبال اپنے بھائیوں کے ساتھ تالاب میں تیرنے گیا۔ پہنچتے ہی تالاب میں چھلانگ لگادی۔اور ڈوب گیا۔ نعش نکالی گئی، ریت اور کیچڑ صاف کیا گیا۔ وہ چہکتا بلبل ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا تھا۔ وہ پاؤں ساکت تھے، جو فٹبال کا طواف کرتے تھے۔ وہ ٹانگیں بے حرکت تھیں جو قلانچیں مارکے بھی تھکتی نہ تھیں۔ وہ زبان بند تھی جو چہکتی رہتی تھی۔وہ آنکھیں موندتھیں، جو چمکتی تھیں۔

زندگی اندھیروں کا بھی نام ہے۔اقبال اپنے باقی گھروالوں کے ساتھ آبائی گاؤں آیا ہوا تھا۔ اس کو اطلا ع دی گئی۔جب وہ گھر پہنچا تو دیکھا کہ اس کی اپنی دنیالُٹ گئی تھی۔اس کا پنا عندلیب خاموش تھا۔اُسے 28اگست2000کی وہ سہانی صبح یاد آئی جب محسن اقبال دنیا میں آیا تھا۔ وہ شادمانیاں وہ قہقہے،وہ جوان آرزویں ،زندگی کی وہ رنگنیاں وہ سب یاد آئیں۔

پھر محسن کی خوشبو اس غمزدہ گھرانے میں پھیلی۔پھر ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں۔

انسان فانی ہے۔انسان سخت ہے۔ اللہ کہ ذات باقی ہے۔ اس ذات کی قسم جو پل پل نگران ہے، اس کا حکم اٹل ہے۔ اس نے صبر کا کہا ہے، سو انسان صبر کرے۔محسن اقبال کے ماں باپ نے بھی صبر کیا۔ ان کے بہتے آنسو محسن سے پیا ر کی سند تھے۔اس لئے بہتے آنسو رُک نہ سکے۔

زندگی کے لمحات عجیب ہوتے ہیں۔وہ اس چارپائی کے اردگرد تڑپتے رہے۔ طــــــــــــــــــــــویل رات کٹی،صبح ہوئی۔محسن ایک ویران و بیابان میں جاکر اکیلا سوگیا۔ اب وہاں پر مٹی کا ایک ٹیلا ہے۔محسن کاد ھکتا چہرہ اپنے رب کے پاس پہنچ گیا ہے۔عظیم لوگوں پر عظیم آزمائشیں آتی ہیں۔انہی کو امتحان کہا جاتا ہے۔انہی امتحانات کا مرتبہ درجہ اور نتیجہ ہوتا ہے۔انسان ان امتحانات سے دھرانا گذرے تو انسان عظیم ہے۔ان صدموں کو دلیری سے برداشت کر تو انسا ن سخت ہے اولاد کی دولت سے بڑا تحفہ ہے اولاد کی جدائی سب سے بڑا صدمہ ہے۔محسن اپنے عزیز و آقارب اور والدین کو صدمہ دے گیا۔

ہاں اے فلک پیر جوان تھا ابھی عارف

کیا تیرا بگڑتا! جو نہ مرتا کوئی دن اور

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button