اہم ترین

سی پیک ورکنگ گروپ گلگت بلتستان کا پہلا اجلاس منعقد، سرمایہ کاری کے مواقع اور استعداد کاری پر گفت و شنید ہوئی

گلگت ( پ ر) چائینہ پاکستان اکنامک کوریڈور ورکنگ گروپ کا پہلا اجلاس سیکریٹری پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ گلگت بلتستان بابر امان بابر کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں ورکنگ گروپ کے دیگر اراکین سیکریٹری بجلی و پانی ظفر وقار تاج، سیکریٹری صحت سعید اللہ خان نیازی، ETIگلگت بلتستان کے پروگرام کو آرڈینیٹر ڈاکٹر احسان میر، ڈپٹی چیف پلاننگ ڈپارٹمنٹ سجاد حیدر ، پاکستان جیمز اینڈ منرلز ایسوسی ایشن کے کوآرڈینیٹر محسن رضا، قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سے ڈاکٹر سرانجام بیگ، ڈاکٹر تصور رحیم ، اسسٹنٹ پروفیسر ظفر خان ، آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کی جانب سے امین بیگ ، ڈپٹی ڈائیریکٹرٹورزم صفی اللہ، ڈپٹی سیکریٹری پلاننگ زاکر حسین سمیت دیگر اراکین شریک ہوئے ۔

اجلاس میں شرکاء نے سی پیک کے زریعے ہونے والی سرمایہ کاری، گلگت بلتستان کے معروضی حالات، سیاحتی مواقع، سرمایہ کاری ، ماحول پر مرتب ہونے والے اثرات اور صوبے میں ہنر مند افراد ، طلبا ء اور دیگر افراد کے لیئے سی پیک کے منصوبوں کے آغاز کے بعد پیدا ہونے والے مواقعوں کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی۔

سیکریٹری پلاننگ و ڈیولپمنٹ بابر امان بابرنے ورکنگ گروپ سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اس خطے کی تعمیر و ترقی کے لیے حکومت پاکستان بے حد دلچسپی لے رہی ہے اور اس سال کے بجٹ میں ہونے والا اضافہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی کے لیئے کیئے جانے والے اقدامات اس علاقے کی ترقی میں ایک نیا باب ثابت ہونگے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ سال کا بجٹ تمام صوبائی اداروں نے مالی سال میں ہی منصوبوں کی تکمیل پر خرچ کیا جس کی بدولت تعمیری سرگرمیوں کی رفتار بہتر ہوئی۔ ون بیلٹ ون روڈ کے تحت ہمسائیہ دوست ملک چین کی جانب سے پاکستان میں کی جانے والی سرمایہ کاری سے یہ خطہ بھی مستفید ہوگا اور انفراسٹرکچر کے شعبے میں مزید بہتری آئے گی۔ روڈز سمیت ریل کے نظام میں بھی جدت آنے کے ساتھ ساتھ ملک میں دیگر معاشی سرگرمیوں میں بھی تیزی دیکھنے میں آئی ہے ۔ چین کی جانب سے 54 بلین ڈالر کے لگ بھگ سرمایہ پاکستان کے مختلف سیکٹر ز میں لگایا جا رہا ہے ، مستقبل میں صنعتی سرگرمیوں میں اضافے کے سبب بجلی و توانائی کی ضروریات مزید بڑھ جائیں گی جس کو پورا کرنے کے لیئے چائینہ بجلی کی پیداوار کے شعبے میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ سڑکوں کی صورتحال کو مزید بہتر کیا جا رہا ہے جس کے سبب گلگت بلتستان سے گزرنے والی شاہراہ ریشم حویلیاں تک بین الاقوامی معیار کے مطابق تعمیر کی جا رہی ہے۔

سیکریٹری پلاننگ بابر امان بابر نے مزیدبتایا کہ اگلے مرحلے میں ریل روڈ نیٹ ورک کا پلان بھی شامل ہے جس کے بعد اس خطے کی ہیئت تبدیل ہو جائے گی اور سیاحت ، صنعت سمیت دیگر اہم سیکٹرز میں انقلابی تبدیلیاں رونما ء ہونگی۔ خطے میں توانائی کے پوٹینشل کو مدنظر رکھتے ہوئے ریجنل گرڈ کا قیام ناگزیر تھا۔ اس اہم منصوبے کے پہلے فیز کے لیے وفاق کی جانب سے موجودہ مالی سال میں 5ارب کی رقم پہلے ہی جاری کی جا چکی ہے۔ یہ منصوبہ 25ارب روپے مالیت کا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ صوبے میں پانی کے وافر زخائر کی موجودگی کی بناء پر آنے والے وقتوں میں یہاں سے بجلی پیدا کرکے نہ صرف مقامی بلکہ ملکی ضروریات بھی پوری کی جا سکیں گی۔

ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں شریک سیکریٹری پانی و بجلی ظفر وقار تاج نے آگاہ کیا کہ بجلی کے نئے شروع کیئے جانے والے منصوبوں میں حسن آباد 5میگا واٹ، ہینزل 20میگاواٹ، نلتر16میگا واٹ، ہرپو34.5میگاواٹ سمیت شغرتھنگ کا 26میگاواٹ کے منصوبے شامل ہیں۔ انہوں نے ورکنگ کمیٹی کو آگاہ کیا کہ نئے تقاضوں سے مطابقت رکھنے والے منصوبے تیار کیے جا رہے ہیں جس کے بعد آنے والے دنوں میں مقامی ضروریات سے بڑھ کر بجلی کی پیداوار کا حصول ممکن بنایا جا سکے گا۔

اجلاس میں سیکرٹری پلاننگ بابر امان بابر نے بتایا کہ وفاق کی جانب سے سپیشل پروٹیکشن یونٹ کے قیام کی منظوری مل چکی ہے جس کے تحت 700نئی آسامیاں پیدا ہونگی۔ پنجاب حکومت بھی حکومت گلگت بلتستان کی مالی امداد کر رہی ہے اور این ایف سی میں ہمارے صوبے کو شامل کیئے جانے تک پنجاب حکومت کی جانب سے سالانہ1ارب روپے دیئے جائیں گے، اس رقم سے کئی ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں مدد ملے گی۔ گلگت اور سکردو میں بنائے جانے والے ٹیکنیکل کالج میں خصوصی ہنراور نئے ٹریڈز کی تعلیم دینے کے لیے نیشنل لاجسٹک سیل کے ساتھ معاہدہ ہو رہا ہے۔ ان اداروں میں عہد جدید کے تقاضوں کے مطابق مختلف کورسز کرائے جائیں گے جس کی بدولت خطے میں ہنر مند افراد کی ایسیکھیپ پیدا کی جا سکے گی جو پاک چین راہداری کے منصوبوں میں اپنی استعدا د و ہنر کا بہترین استعمال کر سکیں گے۔ گلگت چترال ایکسپریس ہائی وے کی تعمیر کے لیے بھی 22ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں۔ اس شاہراہ کی تعمیر ایک اور اہم سنگ میل ہوگی۔ ورکنگ کمیٹی کے دیگر شرکا ء نے اپنے اپنے شعبوں کے حوالے سے سی پیک کی اہمیت اور مستقبل میں اس سے وابستہ توقعات، امکانات اور ممکنہ مسائل سمیت ان کے سدباب کے لیئے ضروری اقدامات پر بھی بات کی ۔

ETIکے پروگرام کوآرڈینیٹر ڈاکٹر احسان میر نے بتایا کہ سی پیک صیح معنوں میں خطے کی تقدیر بدل سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم بہتر انداز میں تیاری کریں اور ہر شعبے میں اپنے آپ کو تیار کریں۔ نئے علوم ، ہنر اور فنون کے سیکھنے کے ادارے بنانے کی ضرورت ہے جہاں سے باقاعدہ تربیت یافتہ اور ہنر مند افراد جدید دور کے تقاضوں کے لیئے تیار ہو کر نکلیں اور معاشرے کے کار آمد شہری بن سکیں۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کے چیئر مین ڈاکٹر سرانجام بیگ نے بھی اپنے ادارے کی جانب سے سی پیک کے منصوبوں کے بارے میں کئے جانے والے ریسرچ کے بارے میں اجلاس کو آگاہ کیا اور بتایا کہ سی پیک کے اس خطے پر مرتب ہونے والے مثبت اثرات سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے ، البتہ معاشرے کے کچھ حصوں میں اس اہم ترین منصوبے کی بابت کچھ ابہام موجود ہیں۔ اس ابہام کو دور کرنے اور سول سوسائٹی کو مزید متحرک کرنے کے لیئے میڈیا کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انکا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں ورکنگ گروپ کے تحت سیمینارز کرانے کی بھی ضرورت ہے جہاں پرسی پیک اور اس کے فوائد کے حوالے سے سول سوسائٹی اور زمہ داران کو بہتر طور پر آگاہی دی جا سکتی ہے۔

دیگر شعبوں کے ماہرین نے بھی ورکنگ گروپ کے اجلاس میں اپنے خیالات سے آگاہ کیا اور سیاحت، خطے کے موسمی حالات، سماجی ڈھانچے اور آنے والے دور کے چیلینجز سے نمٹنے کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی۔ اجلاس کے آخر میں اس بات کا بھی فیصلہ کیا گیا کہ اگلی میٹنگ میں تمام ممبرز بہتر طور پر تیار کی گئی تجاویز اور ورکنگ پیپر ز کے ساتھ شریک ہونگے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button