کالمز

ایک مشفق باپ ایک لافانی صحافتی کردار

کون جانتا تھا کہ اخبار کی سرخیوں سے کھیلنے والا کسی دن خود خبرکی سرخی بن جائیں گے ،لیکن وقت ایک جیسا نہیں رہتا حالات ایک جیسے نہیں ہوتے اور ہر ذی روح زندگی کی دوڑ میں موت کو گلے لگا لیتا ہے۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ موت کی لذت سے ہر ذی روح کو آشنا ہونا ہے جس میں ترمیم کی کوئی گنجائش نہیں ہے مگر بعض شخصیات اپنے وجود کا سکہ کائنات میں مربوط طریقے سے بٹھا دیتی ہیں جن کے اچانک بچھڑجانے کا غم لمحوں کی بجائے صدیوں تک محیط ہوتا ہے ۔

گزشتہ شام ہمارے محسن اور گلگت بلتستان کی مزاحمتی صحافت کے معتبر نام سید مہدی کی موت کی خبراور الصبح روزنامہ کے ٹو کی نمایاں سُرخی نے دل ہلا کر رکھ دیا ۔اس خبر سے وجود پر سکتے کی کیفیت طاری ہوئی اور انکھوں سے چند خاموش آنسو کے قطروں نے چہرے پر دستک دی ۔اس خبر کے بعد خیالوں کی دنیا میں ماضی کی جھروکوں سے چند تصورات نے موجود تخیل کے سمندرمیں ارتعاش پیدا کیا۔سید مہدی صاحب کی ایک ایک ادا اور رویہ یاد آنے لگا ،اُن کا انسان دوست اخلاق پر مبنی خیالات نے دل و دماغ کے تاروں کو ہلا دیا اور سب سے بڑھ کر ان کی صحافتی و پیشہ وارانہ خدمات نے حیرت کے سفر پر ڈال دیا ۔

بنیادی طور پر سید مہدی مرحوم نے اپنی زندگی کا آغاز بہت پسماندہ حالت سے کیا تھا گانچھے جیسے دور دراز علاقے سے زندگی کی سفر پر چل پڑے اور کڑے دنوں کا محنت ولگن سے استقبال کیا مشکلات کبھی بھی اُن کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کرسکی کیونکہ مرحوم کا عزم ہمالیہ سے بلند جبکہ ذوق و جستجو ان کے وجود کا انمٹ رجحان تھا ۔قلم وقرطاس اور علم و ادب سے اپنا رشتہ استوار کرتے ہوئے ابتدائی تعلیم کے بعد انٹرمیڈیٹ سطح کی تعلیم کیلئے راولپنڈی چلے گئے جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ ریڈو پاکستان سے اپنی جوانی کے کیرئرکا آغاز کیا فکر معاش سے کنارہ کشی ایک مشکل امر تھا اس لیئے ملازمت کے ساتھ اخباری صنعت سے بھی وابستہ ہوئے ،گزشتہ چالیس برسوں سے مرحوم ملک کے بڑے بڑے اخبارات سے منسلک رہے اور 2000ء کی دہائی میں ذاتی طور پر ہفت روزہ نقارہ کا اجرا کیا جبکہ روزنامہ کے ٹو کے مرکزی دماغ کی حثیت سے گلگت بلتستان کی صحافت کو نئی جہد عطاء کی ۔مرحوم نے مزاحمتی صحافتی کو فروغ دیا جبکہ سینکڑوں نوجوان صحافیوں کا استاد بننے کا شرف بھی انہیں حاصل رہا ۔

سید مہدی شاہ (بوا مہدی)کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ نہ صرف ایک محنت کش،بلند پایہ صحافی و مخلص انسان دوست شخص تھے، بلکہ ایک مشفق باپ کی حیثیت بھی انہیں حاصل تھی۔مرحوم گلگت بلتستان کے اولین باپ ہیں جن کی تربیت نے 4بچوں کو ملکی سطح کے فطین افراد کی فہرست میں شامل کرنے کا اعزاز پایا ۔مرحوم کے تین بیٹوں اور ایک بیٹی نے ملک کے اعلی سطح کے مقابلے کا امتحان پاس کرکے اس وقت زندگی کے اہم شعبوں میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں ۔انہوں نے بڑی محنت سے اپنے بچوں پڑھایا اور ان کی بہترین تربیت بھی کی ۔تاریخ میں ایسے کم باپ ہوتے ہیں جن کی زندگی ایک مکمل تربیت گاہ بھی ہوتی ہے ۔

سید مہدی کا خلا کبھی بھی پُرنہیں ہوگا۔سید مہدی مرحوم ایک اصول پسند باوقار اور اناپرست انسان تھے انہوں نے کبھی بھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا ۔حرمت قلم پر آنچ آنے نہیں دیا اور نہ ہی وفا شناسی کا دامن چھوڑا ۔اُن کی ذات اچھی خوبیوں کا منبع تھی ان کی سرشت میں وفا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔میرے ساتھ ان کا تعلق بہت گہرا اور انمٹ تھا ۔مرحوم نے مجھے قدم قدم پر زندگی کے اصول سیکھائے اور مزاحمتی صحافت کے اصول بتائے ۔

دیامر جیسے قبائلی و مسلکی رجحانات پر مبنی معاشرے میں جب راقم نے حالات و واقعات کو سچائی کے ساتھ زیب قرطاس کیا تو بعض افراد کو یہ بات ناگوار گزری انہوں نے پہلے تو مجھے دھونس دباو کے ذریعے خاموش کرانے کی کوشیش کی مگر اُن کا یہ حربہ ناکام ہوا تو وہ لوگ ایک نمائندہ وفد کی شکل میں سید مہدی مرحوم کے پاس اسلام آباد میں واقع ان کے دفتر پر حاضری ہوئے اور اُن کے سامنے پہلا مطالبہ یہ رکھا کہ راقم کو ضلع دیامر سے روزنامہ کے ٹو سے فارغ کیا جائے، جس پر مرحوم اُن لوگوں پر خوب برسے اور وہ وفد وہاں سے مایوس لوٹ آیا ۔بعد ازاں مرحوم سید مہدی صاحب نے مجھے فون کر کے ساری صورت حال سے آگاہ کیا اور مجھے بتایا کہ بیٹا پتھر اُن درختوں پر پڑتے ہیں جن پر ثمر سے لدی ڈالیاں ہوں اس لیئے مخالفت سے خائف ہونے کی بجائے نیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھو آپ میں ایک بڑے لکھاری کی روح پائی جاتی ہے ۔

یقین جانیئے مرحوم کی ان نصیحت آموز اقوال نے میری صلاحیتوں کو مزید توانائی فراہم کیا اور میری زندگی کو نئے رنگوں سے آشنا کیا۔میرے قلم کی روانی میں مرحوم کا بڑا کردار ہے اور ان کا اپنائیت سے بھرپور رویہ میرے لیئے مشعل راہ ہے۔سید مہدی صاحب جسمانی اعتبار سے ہم سے بچھڑ گئے لیکن تاریخ میں امر ہوگئے ہیں ۔مرحوم نہ صرف ایک مشفق باپ تھے بلکہ ایک لافانی صحافتی کردار بھی تھے۔آپ کی صحافتی خدمات قابل قدر ہیں مرحوم سینکڑوں نوجوانوں ،لکھاریوں کے محسن تھے آپ کی جدائی کا غم ہم جیسے لوگوں کیلئے ایک پہاڑ ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موت اٹل ہے لیکن ہمارا وعدہ ہے کہ مرحوم کا ادھورا مشن تکمیل تک پہنچاکر دم لیں گے ۔اللہ تعالی مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ عطاء کرے اور پسماندگان کو صبر و جمیل کی دولت سے نواز دیں ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button