کالمز

شہنشاہ ظرافت سکردو میں ۔۔۔

تیرہ اگست کی رات مسلمانان برصغیر کی زندگیوں میں سوسالہ طوق غلامی کی تاریخ کا آخری پڑاو

حاجی سرمیکی

تھی ۔اس رات کی کالی چادر سے مطلع الفجر آزادی کی کرنیں لے کر پھوٹ پڑا ۔اس رات کو آزادی کے وہ مجاہدین جنہیں اگلی صبح روشن کا علم تھا ، فرط جذبات کی گداگداتی کیفیت سے مضطرب تھے ۔ ان کی آنکھیں روشن نشان منزل کو تکنے کے لئے بے چین تھیں۔ گویا ان کی کیفیت فتح خیبر کے ان مجاہدین اسلام سے مختلف نہ تھی جنہیں سروردوعالم ﷺ نے نہ صرف نوید نصرت عطا فرمائی بلکہ طلوع سحر کے ساتھ علم اسلام کو ایک نڈر، بیباک اور بہادر سپہ سالار کے ہاتھ تھمانے کی بشارت دیتے ہوئے اس کے نام کو مخفی رکھا ۔ اس طرح مجاہدین حق میں ایک ولولہ انگیز اضطراب رات بھر جاگزیں رہا۔ تاریخ پاکستان میں تیرہ اگست کی رات کو کم وبیش وہی ولولہ اور جوش و خروش مجاہدین تحریک پاکستان کے اندر معجز ن تھا ۔ تاریخ کے انہی سنہری یادوں کو لئے پاکستانی قوم ہر سال اگست کی چودہ تاریخ کو اپنی آزادی کا جشن مناتی ہے ۔ اس کی تیاری کا مرحلہ تیرہ اگست کی رات کو اپنے عروج کو پہنچتا ہے۔ پاکستان کے طول و عرض میں ابھرتا آزادی کا جان فزا جذبہ گلگت بلتستان کی سرحدوں تک پھیل جاتا ہے۔ یہاں کے جان بکف سپاہی تو سرحدوں پر سینہ تانے دفاع وطن پر معمور تو ہیں ہی، یہاں کے ادباء، شعراء، فنکار اور زندگی کے دیگر شعبوں سے وابستہ افراد بھی اس جشن میں حصہ ڈالنا کسی عظیم سعادت سے کم نہیں سمجھتے ۔ آزادی کا دن بھی یوم عید اور یوم سعید ہے ۔ پھر اس قوم کے لئے جس نے اسلام کے نام پر کسی مملکت کا قیام عمل میں لایا ہو، یہ دن ایک عظیم کارنامہ سے عبارت ہے۔ بلتستان کے لوگوں کی خوش نصیبی ہے کہ یہاں کے ادب شناس اور ادب پرور افراد ملک کے دیگر کسی بھی علاقے کے مقابلے میں زیادہ انسان دوست، محب وطن اور جذبہ ملی سے سرشار ہیں۔ یہاں کی ادبی اور فکری تنظیمیں وقتا فوقتا عمومی اور خصوصی مجالس علم و ادب کا اہتمام کرتی رہتی ہیں۔ اس سال شب آزادی کی تقریبات میں سب سے منفرد ، پر مزاح اور علمی تقریب ایوان اقبال سکردو میں منعقدہ مشاعرے کی تقریب تھی جس میں بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر شگفتہ مزاج ، فارسی زبان کے استاد ، شہنشاہ ظرافت ،پروفیسر انور مسعودنے خصوصی طور پر شرکت کی۔ ان کی اہلیہ سپر پاور (قدرت بی بی) نے بھی تقریب میں شرکت کرکے تقریب کو چار چاند لگادیا۔ رات کے پہلے پہر شروع ہونے والی اس تقریب میں بلتستان کے دیگر شعراء نے بھی اپنے منتخب کلام پیش کرکے خوب داد سمیٹ لی۔ مشاعرے کی روایتی انتظام و انصرام کے پیش نظر پروفیسر انور مسعود کو آخر میں مدعو کیا گیا۔ اس سے قبل بلتستان کے نمائیاں شعراء میں سے ذیشان مہدی، فرمان خیال، اسلم سحر، رضا بیگ گھائل ،عباس جرات ، قیصر شاہد اور عاشق حسین عاشق کے علاوہ دیگر کئی شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو نوازا۔ میر محفل نے مقامی شعرا ء کے خوبصورت کلام کی داد دی۔ رضابیگ گھائل اور فرمان خیال نے شگفتہ کلام پیش کئے۔ پروفیسر انورمسعود گو کہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ پاکستان کا ہر ادب شناس شخص ان کی شخصیت ، کردار اور فن سے نہ صرف آشنا ہے بلکہ دل وجاں سے ان کا دلدادہ بھی۔ بقول ان کے ، بلتستان میں ان کی یہ دوسری بار آمد تھی۔ دیگر سیاحوں کی طرح پروفیسر انور مسعود بھی یہاں کے مناظر قدرت اور حسن و خوبیوں کے معترف تھے۔گفتگو کے آغاز میں انہوں نے ایک حمد باری تعالی پیش کیا ۔ کلام کے اندر اپنے نفس کی سی نفاست، ظرف کا سا کمال ، طبعیت کی سی سادگی اور زبان و بیان کی شیرینی اور مٹھاس تھی۔ بلاشبہ شگفتہ گو شعراء معاشرے کے وہ عوام دوست مسیحا ہیں جو بیمارقوم کو کڑوی اکسیر بھی قند میں لپیٹ لپیٹ کر کھلاتے ہیں۔ ان کا فن شگفتہ گوئی تو ایک طرف ان کی سنجیدہ شاعری میں بھی ایسی سادہ ترین لفظ گری ہے کہ سامعین کی سمجھ باریک لہروں کی مد وجزر پر تیرتا فکر و شعور کے بحر بیکراں میں محو گردش ہوجاتی ہے۔ بحیثیت ایک ماہر استاد، قادر الکلام شاعر، ادبی معلم اور مثبت رویے کے مالک ہونے کے کتاب و قرطاس اور حالات حاضرہ پر گہری نظر تو رکھتے ہی ہیں البتہ بیرون مکان و مدارس ان کی نظرسے چرند پرند، مرد و نسواں سے تا دابتہ الارض بھی مخفی نہیں ۔ ان کی وضع قطع، غیر معمولی حرکات و سکنات اور بول چال سے حضرت وہ مطالب اور مفاہیم نکالتے ہیں کہ ان کے آگے کسی کی احمقانہ اور بے مغز بولی بھی مدلل ، بامعنی اور کئی بار تو کثیر الجہتی خصوصیات کو جنم لیتی ہے۔ گوکہ اب ضعیف العمری میں ان کی بتیسی میں سے چند ہر اول دانے ہی رہ گئے ہیں مگر پھر بھی الفاظ کو وہ اس قدر باریکی اور نزاکت سے چباتے اور زبان سے ایسے الٹ پلٹ لیتے ہیں کہ الفاظ اپنے ذرے ذرے سے نئی اور ذودہضم مفاہیم کا ذائقہ پیدا کرتا ہے۔ الفاظ میں وہ ایسی جان ڈال کر کنارہ زبان سے یوں اڑاکر یوں روانہ کرتے ہیں کہ جس لفظ کو دل میں بٹھانا ہو وہ خاموشی سے آکر دل سے لگ جاتا ہے، جسے گوش گزار کرنا ہو ، وہ لفظ یوں گزرتا ہے کہ سامعین کواس کی کانوں کان خبر بھی ہونے دیتے، جسے دماغ میں بٹھانا ہو وہ تو آنکھوں کے راستے گویا کوئی تصویر بن کر حافظے کی دیواروں پر لٹک جاتا ہے، یقین مانو، حواس پر ان کی لفظ گری اس قدر غالب آتی ہے کہ قیمے کا تذکرہ منہ میں نہ صرف پانی بھرلاتا ہے بلکہ اس کے بارہ مصالحے کی تیھکی تیکھی سوزش پر زبان پر محسوس ہونے لگتی ہے اور یکبارگی سامع اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر لیتا ہے۔ یہ ان کے اسلوب وانداز کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت میں موجود سادگی اورجذبہ عشقِ ادب کا خاصہ ہے کہ دوہی بول میں وہ محفل کو اپنا ایسا گرویدہ بنالیتا ہے کہ پھر ظرافت انگیزی بہت رواں اور سنجیدہ مزاجی اتنی مشکل بن جاتی ہے کہ کئی بار انہیں سختی کے ساتھ مکرردرمکرر اعلان کرنا پڑتا ہے کہ اس بات پر ہنسا نہیں بلکہ سوچنا ہے۔ ان کے بقول مزاح کیا ہے کہ خود سامع کا مزاج ہے ۔ شگفتگی اگر کسی کے مزاج میں نہیں تو اسے دنیا کا کوئی لطیف و خفیف لطیفہ بھی گداگدا نہیں سکتا۔ ان کے ہاں طنز کے پہلو کی بھی فراوانی ہے البتہ وہ نام ونسبت ، اور شکل و شمائل کی بجائے زبان و بیاں کو مرکز بنا کر معنی نکال لیتا ہے۔ وگرنہ دیگر چند شعراء ڈھول ڈھال ، خدوخال اور چال چلن کو اچھال کر ہنسادیتے ہیں۔ اس تقریب میں انہوں نے اپنے مشہور کلاموں سے چند سنائے جنہیں سامعین نے خوب پسند کیا۔ معمولات زندگی کا قریبی مشاہدہ فن اور کلام میں یہی خوبی پیداکرتا ہے کہ وہ جس زمان و مکان کے اعتبار سے بھی لکھا گیا ہو وہ باہم مقبول اور یکساں فہم فرسا ہوتے ہیں ۔ یقیناًانور مسعود عصر حاضر میں شگفتہ شاعری اور مزاح کے امام ہیں۔ کوئی بھی فنکارخاص کر انور مسعود جیسے عہد ساز شخصیات جغرافیائی حدود قیود سے مبری مقبول عام اور سارے عالم کے لئے ہوتے ہیں اس کے باوجود ان کی موجود گی کے اعتبار سے ان کے فن اور شخصیت کی تعریف و تحسین کے لیئے ان کی پذیرائی بھی عوام پر فرض ہے۔بزم علم وفن سکردو ، یہاں کے ادبی ماحول کے فروغ کے لئے کوشاں ایک ادارہ ہے جس نے اس سے قبل بھی شہرہ آفاق شخصیات کو مختلف مواقع اور حوالوں سے سکردو لاتے رہے ہیں۔ یقیناًاس سے نہ صرف یہاں کے ادبی ماحول پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے بلکہ عوام کو تعلیم بذریعہ تفریح کا ایک موقع فراہم ہوگا۔ ایسی تقریبات میں مخصوص عوام کی تربیت کی بھی ضرورت ہے تاکہ باہمی رفاقت اور یکجہتی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی عزت نفس کی تقدیس کے حوالے سے بھی شعور بیدار کرسکے۔ وگرنہ یہاں کے تفریحی اور خاص کر مقابلے کی سرگرمیوں میں جذبات پر قابو نہ رکھنے اور بنیادی مقاصد کو تقویت نہ ملنے کی وجہ سے آپس میں گتھم گتھا ہونے اور ماردھاڑ کی صعوبتیں بھی پیش آچکی ہیں۔ لہذا نوجوان طبقے کی اس طرح کی سرگرمیوں میں شرکت سے ان کے اندر یکجہتی اور صحت مندانہ سرگرمیوں کے مثبت نتائج سے آگہی پیدا ہوسکتی ہے جو ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button