تعلیم

بہتر معیار کی وجہ سے طلبہ و طالبات نجی تعلیمی اداروں کو ترجیح دیتے ہیں، ذاکر حسین صدر پرائیویٹ سکولز نیٹ ورک

گلگت( فرمان کریم) پرائیویٹ سکولزنیٹ ورک گلگت بلتستان کے صدر ذاکر حسین اور دیگر ممبراں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوے کہا کہ گلگت بلتستان میں نجی تعلیمی اداروں کا معیار تعلیم کے فروغ کے حوالے سے کلیدی کردار رہا ہے۔ یہ انتہائی خوش آئند بات ہے کہ سکول جانے والے طلبہ و طالبات کی کل تعداد کا 60% پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور گلگت بلتستان کے پرائیویٹ تعلیمی ادارے محدود فیسوں کے اندر رہتے ہوے معیاری تعلیم پر کام کر رہے ہیں۔ پچھلے کئی دہائیوں سے نجی تعلیمی ادارے بہترین نتائج دے رہے ہیں۔ محدود وسائل کے اندر رہتے ہوے اتنے شاندار نتائج دینے کے باوجود ان اداروں کے ساتھ شروع سے ناروا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ ہمیں امید تھی کہ حکومت پہلے سرکاری اداروں کی بہتری کے لئے کام کرے گی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت روز بروز بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔اگر بورڈ کے امتحانات کے نتائج ہی کو لیا جائے تو ریکارڈ گواہ ہے کہ کسے سرکاری تعلیمی ادارے کا نتیجہ 50%سے اوپر نہیں آیا ۔اس سال سرکاری تعلیمی اداروں کا نتیجہ 46%اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا نتیجہ 62% رہا یہ پرائیویٹ سکولز اور کالجز ہی ہیں جن کی بدولت بورڈ کا نتیجہ حوصلہ افزاء آتا ہے۔ سو فیصد نتیجہ دینے والے ادارے بھی صرف پرائیویٹ سکولز ہی ہیں۔اس سلسلے میں ہم PSN بلتستان ریجن کے بھی مشکور ہیں کہ انہوں نے پرائیویٹ سکولز نیٹ ورک سے مشاورت کے بعد اس سلسلے میں قدم اٹھایا اور کل پریس کانفرنس اور اپیل کے ذریعے اپنا نقطہ نظر پیش کیا ۔

پرائیویٹ سکولز گلگت بلتستان سکردو ریجن کے مطالبات کی بھر پور حمایت کرتا ہے۔پرائیویٹ سکولز نیٹ ورک گلگت بلتستان پوری جی بی کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا ترجمان ادارہ ہے اور 1200کے قریب پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں سے 900کے قریب ادارے پی ایس این کی چھتری تلے کام کر رہے ہیں اور PSNصرف رجسٹرڈ اداروں کو ہی نمائندگی دیتا ہے۔ تقریبا 10000اساتزہ اور غیر تدریسی عملہ کا روز گار انہی اداروں سے وابستہ ہے۔ اور 150000طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں ۔ گزشتہ دو سالوں سے کچھ عاقبت نااندیش افراد نے سازش کے تحت نجی تعلیمی اداروں کی ساکھ کو مجروح کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔اورپرائیویٹ سکولز ریگولیٹری ایکٹ کے نام سے ایک بل اسمبلی میں پیش کرنے جا رہے ہیں جو کہ سراسر تعلیمی اداروں کے ساتھ نا انصافی اور بدنیتی پر مبنی ہے۔

گزشتہ ڈھائی سال سے ہم اس مجوزہ ایکٹ کی کاپی کے حصول کے لئے دربدر ہوگئے محکمہ تعلیم اور اعلیٰ حکام کے ساتھ بار بار نشستیں کیں لیکن کہیں سے بھی ہماری موقف کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ۔ہماری تجاویز کو بھی ردی کی ٹوکری کے نذر کیا گیا اور پرئیویٹ سیکٹر کے اعتراضات اور خدشات کو درخورِ اعتنا ہی نہیں سمجھا گیا ۔نتیجہ ہم دے رہے ہیں، معیار کو ہم بڑھا رہے ہیں 95%فیصد میڈیکل اور انجینئرنگ و دیگر سیٹوں پر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات ہی کامیاب ہو پاتے ہیں لیکن ایکٹ کے نام پر اداروں کا استحصال سمجھ سے بالا تر ہے۔ ہم نے گلگت بلتستان کے تینوں ڈویژنز کے ساتھ مشاورت کے بعد یہ طے کیا ہے کہ ہم اس قسم کے کسی بھی ایکٹ کا حصہ نہیں بنیں گے اور ہم اس ایکٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ پرائیویٹ سکولز نیٹ ورک اس بل کے خلاف احتجاج کرے گا اوربل واپس نہ لینے کی صورت میں پورے گلگت بلتستان کے نجی اداروں میں تعلیمی سلسلے کا بائیکاٹ کریں گے اس کے بعد اگلے لائحہ عمل کے طور پر بچوں کو سڑکوں پر لانے پر مجبور ہونگے۔ اگر اس کے باوجود بھی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے استحصال کا سلسلہ جاری رہا تو اگلا لائحہ عمل اس سے بھی سخت ہوگا۔ جس کی تمام تر ذمہ داری محکمہ تعلیم اور وزیر تعلیم پر ہوگی۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button